سبق نمبر 4: قرآنی آیات کی تشریح، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 4:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کریں:

يا أيُّها الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أمْوالَكم بَيْنَكم بِالباطِلِ إلّا أنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنكم ولا تَقْتُلُوا أنْفُسَكم إنَّ اللَّهَ كانَ بِكم رَحِيمًا

ترجمہ:

مومنو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں! اگر آپس کی رضا مندی سے تجارت کا لین دین ہو اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہو جائے تو وہ جائز ہے اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے۔

تشریح:

اس آیت میں اکل حلال کی تاکید (یعنی ناحق مال کھانے کی ممانعت) اور قتل ناحق کی ممانعت بیان کی گئی ہے۔ ہر انسان کی تین چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، جان، مال اور آبرو۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ان تینوں چیزوں کی ضمانت دی ہے۔ چنانچہ جو لوگ اسلام قبول نہیں کرتے صرف اس کو اپنا سیاسی نظام سمجھ کر اس کے زیر سایہ ذمی ہو کر رہنا پسند کرتے ہیں۔ اسلام میں ان کو بھی تینوں حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔ اس آیت میں پہلی دو چیزوں کی تاکید کی گئی ہے اور جو اسلام لاچکے ہیں ان کو تو بالخصوص ان باتوں کا دھیان رکھنا چاہئے۔

ناحق اور ناجائز مال کھانے کی ممانعت:

ایسی چیزیں جو بذات خود حرام ہیں مثلاً: خنزیر، شراب، نشہ آور چیزیں وغیرہ ان کو خریدنا، بیچنا اور استعمال کرنا پہلے ہی ناجائز و حرام ہیں۔ لیکن ایسی چیزیں جو اپنی ذات میں حلال اور مباح ہیں اگر ان کو خریدنے اور اپنے تصرف میں لانے کے لیے کوئی ناجائز طریقہ استعمال کیا جائے تو وہ چیزیں بھی حرام بن جاتی ہیں۔ مثلاً چوری، ڈکیتی، غصب، دھونس، رشوت اور سود، اسی طرح جھوٹ، دھوکہ بازی، ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، سٹہ اور جوا ملاوٹ، ناپ تول میں کمی وغیرہ کے ذریعہ حاصل کیا گیا مال و دولت، یہ سب مال باطل اور ناجائز طریقے ہیں۔ ان سے بچنے اور حلال مال کے حاصل کرنے کی تاکید کا حکم دیا گیا ہے۔ رضا و خوشی کے ذریعے کوئی خرید و فروخت ہوئی ہے تو وہ حاصل شدہ مال، حلال ہے اور جائز ملکیت ہے۔

ناحق قتل کی ممانعت:

جس طرح دوسرے کا مال کھانا حرام ہے، اسی طرح کسی کی ناحق جان لینا اس سے زیادہ حرام ہے یعنی آپس میں ایک دوسرے کو بلاوجہ ناحق قتل بھی مت کرو۔دوسرے کی جان لینے کو”اپنے آپ کو مارنے“ سے تعبیر کرنےمیں یہ بھی اشارہ ہے کہ جب کوئی دوسرے کو ناحق قتل کرے گا تو بدلہ میں وہ خود بھی قتل ہوگا۔ اسی طرح اس میں خودکشی کرنے کی ممانعت بھی واضح ہوگئی کہ دوسرے کے بدلہ میں قتل ہونے سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ کوئی اپنے آپ کو ختم کر دے، چنانچہ یہ تمام صورتیں حرام و ناجائز ہیں۔

وَاعۡبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشۡرِكُوۡا بِهٖ شَيۡــًٔـا‌ ؕ وَّبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَ الۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡجَـارِ ذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡجَـارِ الۡجُـنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَـنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ ۙ وَمَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنۡ كَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا

ترجمہ:

اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور ناداروں اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور پاس بیٹھنے والوں اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضہ میں ہوں سب کے ساتھ حسن سلوک کرو (اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے) بیشک اللہ تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔

تشریح:

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت، توحید اور حقوق العباد کی تاکید اور اہمیت بیان کی گئی ہے۔ انسان کے ذمے دو قسم کے حقوق متعلق ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے جبکہ دوسرے کا تعلق لوگوں کے ساتھ ہے، پہلی قسم کو حقوق اللہ اور دوسری قسم کو حقوق العباد کہا جاتا ہے، اس آیت میں دونوں قسم کےحقوق کی ادائیگی کا حکم دیا گیا:

حقوق اللہ:

اس آیت میں حقوق اللہ سے متعلق دو باتوں کا بیان ہے:۱۔ اللہ تعالیٰ کو بلند عظمت والا جان کر اس کی واحدانیت کے قاےل ہو جانا،۲۔ اس کی فرمانبرداری اور اطاعت گذاری کرتے رہنا۔ اس کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ کیوں کہ یہ بہت بڑا گناہ اور ظلم ہے۔ یعنی اقرار توحید اور عمل صالح مطلب کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ کرنا صرف اسی کی عبادت کرنا اس کے بتائے ہوئے قوانین پر عمل کرنا اور حدود اللہ سے تجاوز نہ کرنا۔

حقوق العباد:

بندوں کے حقوق میں سب سے بڑا رتبہ والدین کا ہے اس لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اکثر مقامات پر اپنی عبادت کے بعد والدین کا تذکرہ فرمایا ہے مثلاً ترجمہ: اور تمہارے رب نے فیصلہ سنایا ہے کہ تم اسی کی بندگی کرو گے اور والدین سے اچھائی کرتے رہوگے۔(سورۃ الاسراء: ۲۳)

والدین کے بعد دوسرے لوگوں سے بھی بھلائی اور حسن سلوک کرنے کا حکم ہے مثلاً: قریبی رشتہ دار، یا دور کے رشتہ داروں کے ساتھ حسب مراتب حسن سلوک کرنا اور ان کے حقوق ادا کرنا۔ ہمیں معاشرتی زندگی میں سب لوگوں کے ساتھ امن و سلامتی اور حسن سلوک سے پیش آنا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں صلہ رحمی کی تاکید اور قطع رحمی پر شدید وعید بیان کی گئی ہیں۔ سماج کے کمزور طبقہ والے افراد جیسے یتیم اور غریب، مسکین، حاجت مند قسم کے لوگ، پھر جن سے اکثر طور پر ملنا جلنا رہتا ہے جیسے قریب اور بعید کے پڑوسی، مسافر، مہمان اور ماتحت رہنے والے غلام، ملازم، نوکر چاکر، رفیق سفر ، پیشہ اور کام کے شریک وغیرہ ان تمام کے ساتھ احسان یعنی نیک سلوک اور اچھے برتاؤ اور ان کی دل جوئی کرنا اور ان پر مال خرچ کرنا وغیرہ کا حکم ہے۔ اسی طرح حیوانات کے ساتھ رحم دلی والا رویہ رکھنا کی بھی تاکید کی گئی ہے۔

مِنۡ اَجۡلِ ذٰلِکَ ۚ ۛ ؔ کَتَبۡنَا عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَنَّہٗ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ مَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ لَقَدۡ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُنَا بِالۡبَیِّنٰتِ ۫ ثُمَّ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ بَعۡدَ ذٰلِکَ فِی الۡاَرۡضِ لَمُسۡرِفُوۡنَ

ترجمہ:

اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کے ذمے یہ بات لکھ دی کہ جو شخص کسی کو ناحق قتل کرے گایعنی بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزادی جائے تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا اور جو ایک انسان کی جان بچالے تو گویا اس نے سارے انسانوں کو زندگی دیدی۔ اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیل لا چکے ہیں، پھر اس کے بعد بھی ان میں بہت سے لوگ ملک حد اعتدال سے نکل جاتےہیں۔

تشریح:

اس آیت میں انسانی جان کی حرمت اور حفاظت کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ جب بنی اسرائیل میں قتل ناحق کا عام رواج شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے قانون بتا دیا کہ کسی آدمی کاناحق قتل کرنا(جس نے کسی کو قتل کیا نہ زمین میں فساد پھیلایا) ایسا ہے کہ گویا پوری انسانیت کو ماردینا ہے اور کسی کی جان بچانا پوری انسانیت کے بچانے کے برابر ہے، ناحق قتل سے انسان کی حرمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ اس لیے کہا گیا ہے کہ کوئی شخص قاتل اس وقت بنتا ہے جب وہ انسانی خون کے رشتے کو توڑ دیتا ہے اور اس کے دل میں بنی نوع انسان سے ہمدردی کاجذبہ نکل جاتا ہے اور اس کے سامنے صرف اپنا مفاد ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں دوسروں کی جان لے لیتا ہے۔ یہ قانون صرف بنی اسرائیل کے لیے نہیں ہے بلکہ تاقیامت بنی نوع انسان کے لیے ہے۔ یہ آیت واضح دلیل ہے کہ اسلام خون ریزی اور فتنہ و فساد کو سخت ناپسند کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کو امن و صلح، صبر و تحمل اور بقائے باہمی اور تکرم انسانیت کی تعلیم دیتا ہے۔

۲۔ ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل کیوں قرار دیا گیا ہے؟

جواب: جس طرح دوسرے کا مال کھانا حرام ہے، اسی طرح کسی کی ناحق جان لینا اس سے زیادہ حرام ہے یعنی آپس میں ایک دوسرے کو بلاوجہ ناحق قتل بھی مت کرو۔دوسرے کی جان لینے کو”اپنے آپ کو مارنے“ سے تعبیر کرنےمیں یہ بھی اشارہ ہے کہ جب کوئی دوسرے کو ناحق قتل کرے گا تو بدلہ میں وہ خود بھی قتل ہوگا۔ اسی طرح اس میں خودکشی کرنے کی ممانعت بھی واضح ہوگئی کہ دوسرے کے بدلہ میں قتل ہونے سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ کوئی اپنے آپ کو ختم کر دے، چنانچہ یہ تمام صورتیں حرام و ناجائز ہیں۔

۳۔ قرآن کریم میں امن عامہ میں خلل ڈالنے والوں کے لیے کون سی سزائیں مقرر کی۔

جواب: قرآن میں جرم اور فتنہ و فساد کی ممانعت اور ان لوگوں کی شرعی سزا کا بیان ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی حضور اکرم ﷺ کے قوانین کی بے حرمتی کرکے گویا اس صالح نظام و معاشرہ سے لڑائی کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں، پر امن لوگوں کو اسلحے کے زور پر لوٹتے مارتے اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں، سماج کے امن اور سکون کو برباد کرتے ہیں۔ ایسے ظالم اور فسادی قسم کے لوگوں کے لیے اس آیت میں چار قسم کی سزائیں بتائی گئی ہیں۔ ان کو قتل کیا جائے یا سولی پر چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں میں کاٹ ڈالے جائیں یا جلاوطن کر دیے جائیں۔

(ج) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱: یتیم کے مال کی حفاظت کیوں ضروری ہے؟

جواب: قرآن میں یتیموں کے حقوق اور ان کے مال میں خیانت کی سزا اور وعید کو بیان کیا گیا ہے۔ انسانی معاش میں مال و دولت کی بڑی اہمیت ہے، اس کو جائز اور حلال طریقوں سے کمانا عبادت میں شمار ہوتا ہے، جب کہ باطل طریقوں سے مال جمع کرنےکی سختی سے ممانعت کی گئی ہے، عام لوگوں کے مقابلے میں اگر کمزور، ضعیف، یتیموں اور مسکیوں کے مال میں ناجائز تصرف اور خیانت کرکے ان کی اس طرح حق تلفی کی جائے تو یہ اور بڑی برائی کی بات ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے مال کو ظلم کےطور پر ناحق طریقے سے ہتھیانے اور ناجائزاستعمال کرنے والوں کے لیے فرمایا کہ وہ جو کچھ بھی اس طرح کھاتے ہیں گویا وہ اپنے پیٹ کےاندر جہنم کی آگ جھونک رہے ہیں۔ اور ان کے لیے آخرت کے جھلسانے والی آگ الگ سے تیا رہے۔ حدیث میں بھی یتیم کے مال کھانے کو بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔

۲۔ ”اور اپنے آپ کو قتل مت کرو“ کا مفہوم تحریر کریں۔

جواب: قرآن کی اس آیت میں اکل حلال کی تاکید (یعنی ناحق مال کھانے کی ممانعت) اور قتل ناحق کی ممانعت بیان کی گئی ہے۔ ہر انسان کی تین چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، جان، مال اور آبرو۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ان تینوں چیزوں کی ضمانت دی ہے۔ چنانچہ جو لوگ اسلام قبول نہیں کرتے صرف اس کو اپنا سیاسی نظام سمجھ کر اس کے زیر سایہ ذمی ہو کر رہنا پسند کرتے ہیں۔ اسلام میں ان کو بھی تینوں حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔ اس آیت میں پہلی دو چیزوں کی تاکید کی گئی ہے اور جو اسلام لاچکے ہیں ان کو تو بالخصوص ان باتوں کا دھیان رکھنا چاہئے۔

۳۔ مال حاصل کرنے کے ناجائز طریقے کون سے ہیں؟

جواب: ناحق اور ناجائز مال کھانے کی ممانعت:

ایسی چیزیں جو بذات خود حرام ہیں مثلاً: خنزیر، شراب، نشہ آور چیزیں وغیرہ ان کو خریدنا، بیچنا اور استعمال کرنا پہلے ہی ناجائز و حرام ہیں۔ لیکن ایسی چیزیں جو اپنی ذات میں حلال اور مباح ہیں اگر ان کو خریدنے اور اپنے تصرف میں لانے کے لیے کوئی ناجائز طریقہ استعمال کیا جائے تو وہ چیزیں بھی حرام بن جاتی ہیں۔ مثلاً چوری، ڈکیتی، غصب، دھونس، رشوت اور سود، اسی طرح جھوٹ، دھوکہ بازی، ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، سٹہ اور جوا ملاوٹ، ناپ تول میں کمی وغیرہ کے ذریعہ حاصل کیا گیا مال و دولت، یہ سب مال باطل اور ناجائز طریقے ہیں۔ ان سے بچنے اور حلال مال کے حاصل کرنے کی تاکید کا حکم دیا گیا ہے۔ رضا و خوشی کے ذریعے کوئی خرید و فروخت ہوئی ہے تو وہ حاصل شدہ مال، حلال ہے اور جائز ملکیت ہے۔