جہاد، معنی مفہوم، اہمیت و فضیلت، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 15:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں۔

۱۔ جہاد کی فضیلت و اہمیت بیان کریں۔

شرعی اصطلاح:

اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر ہر وہ جدوجہدو کوشش کرنا جو اللہ کے دین کی سربلندی، حفاظت، ملک و ملت کے تحفظ و دفاع کے لیے ہو۔ نیز ہر وہ کوشش و جدوجہد جو معاشرے کی اصلاح کے خاطر نیکی و بھلائی کی ترویج کے لیے ہو، اور برائیوں خرابیوں کو ختم کرنے کے لیے ہو۔

جہاد کی فضیلت و اہمیت:

اسلام نے جہاد کو بہت زیادہ اہمیت و فضیلت دی ہے۔ کیوں کہ دنیا میں بگاڑ، ظلم اور ہر قسم کی بدعملیاں، جو معاشرے کے اندر فتنہ و فساد کا سبب بنتی ہیں، ان سب کو ختم کرکے، دنیا میں امن و سلامتی کی فضا قائم کرنا اور انسانی حقوق کا تحفظ صرف اور صرف جہاد کے ذریعے ہی ممکن ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے، یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم علم رکھتے ہو۔

جہاد کی تاکیدکے حوالے سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو شخص اس حال میں قوت ہو کر اس نے اپنی زندگی میں عملی طور پر نہ جہاد کیا اور نہ ہی جہاد کی خواہش کی تو اس نے نفاق کے ایک درجے پر وفات پائی۔ (صحیح مسلم: ۱۹۱۰)

۲۔ جہاد کی قسمیں بیان کریں۔

جواب: جہاد کی اقسام اور ان کی صورتیں:

۱۔ نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد:

انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت سے اندونی قوت روکتی ہے وہ اس کا نفس امارہ ہے جو انسان کو گناہوں، برائیوں اور نافرمانیوں کے لیے ابھارتا ہے جن میں خود پسندی، بغض، غیبت، جھوٹ اور بدکلامی اور دیگر نفسانی خواہشات کا مسلط ہونا جو انسان کے اعمال و کردار کو بگاڑ کر رکھتے ہیں۔
اس نفس امارہ پر قابو پانا جہاد کے زمرے میں آتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا اور اپنے نفس کی خواہشات سے خود کوروکے رکھا تو اس کے لیے ہمیشہ رہنے والی جگہ جنت ہے۔ (سورۃ النازعات:۴۰)

نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ایک شخص کو جو اپنے نفس پر قابو پاتا ہے اسے مجاہد قرار دیا ہے۔ فرمایا: مجاہدوہ ہے جو اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے۔ (سنن ترمذی:۱۶۲۱) بعض روایات میں نفس کے ساتھ جہاد کرنے کو جہاد اکبر کہا گیا ہے۔

۲۔ منکرات کو ختم کرنے کے لیے جہاد:

کسی بھی معاشرے میں جب انفرادی برائیاں عام ہو جاتی ہیں تو آگے بڑھ کر اجتماعی شر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ ان تمام برائیوں کو اسلام نے منکرات کا نام دیا ہے۔
چوں کہ اسلامی معاشرہ باہمی خیر و فلاح کے اصولوں پر قائم ہے، لہٰذا ہر وہ عمل جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرے اسلام نہ صرف اسے رد کرتا ہے بلکہ مومنوں کو اسے مٹانے کا حکم دیتا ہے۔ اسلام نے اس امر پر بھی تاکید کی ہے کہ معاشرتی نظم ہر صورت میں پرامن اور منظم رہے۔ جو باہمی رواداری کے رویوں کی ترویج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اور ان اعمال کی نشاندہی بھی کی ہے جو منکرات کے ضمن میں آتے ہیں۔ ان معاشرتی منکرات میں ظلم و زیادتی، چوری، لوٹ مار، لسانی و قومی امتیازات کی بنیاد پر رویے، جھوٹی گواہی، زیادتی و رشوت ستانی، ملاوٹ و ناپ تول میں کھوٹ، فاسد رسومات، حقدار کی حق تلفی و دیگر منکرات وغیرہ شامل ہیں۔

اسلام میں معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ منکرات سے خود بھی بچے اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کرے۔ یہ کوشش انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی ہے۔
منکرات کو ختم کرنے اور اصلاح معاشرہ کے لیے قرآن مجید نے مختلف اسالیب ذکر کئے ہیں۔ کہیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر، کہیں دعوت وابلاغ اور کہیں تواصی بالحق والصبر کا نام دیا گیا ہے۔ امت کے ہر فرد کو اپنی بساط کے مطابق یہ فرئضہ انجام دینا ہے۔رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا ارشاد مبارک ہے: تم میں سے کوئی شخص منکر کو دیکھے تو اسے چاہئے کہ اس کو اپنے ہاتھ سے دور کرے اگر ہاتھ سے دور نہیں کر سکتا ہے توزبان سے اگر زیادہ نہیں کر سکتا ہے تو اپنے دل ہی میں اس کو برا سمجھے۔ علماء نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ منکرات کو قوت و طاقت سے مٹانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ زبان و قلم سے علماء و اہل قلم کی ذمہ داری ہے اور امت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ برائی کو برا سمجھے اور اس سے اجتناب کرے۔

اسی طرح اسلام نے اس بات کی بھی تاکید کی ہے کہ مومن خود بھی حق پر قائم رہے، حق بات کہے اور دوسروں کو بھی حق پر قائم رہنے پر آمادہ کرے۔ اور حق کی سر بلندی کے لیے کوشاں رہے۔ اسی عمل کو افضل الجہاد کہا گیا ہے۔
رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہے: ظالم حکمران کے سامنے حق کہنا افضل جہاد ہے۔ (سنن ابی داؤد: ۴۳۴۴)
جہاد بالسیف/مسلح جہاد(قتال):

جہاد بالسیف یعنی تلوار سے جہاد:

اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی دشمن قوت کسی اسلامی ملک پر حملہ کر دے تو اس ملک پر اپنی سرحدوں اور شہریوں کے دین، ایمان، جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے قتال فرض ہو جاتا ہے۔

مسلح جہاد کی فرضیت:

حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے جب ریاست مدینہ کی بنیاد ڈالی تو کفار مکہ و دیگر دشمنان اسلام کا غیض و غضب بہت زیادہ بڑھ گیا اور اس نئی ریاست کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے مزید سرگرم ہو گئے اور طرح طرح کے منصوبے بنانے لگے جن کے نتیجے میں اسلامی ریاست کے وجود، اور مسلمانوں کے جان، مال اور عزت کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا تواللہ تعالیٰ نے دفاع کے لیے مسلمانوں کو ان کفار سے جہاد مسلح کرنے کی اجازت دی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: جن مسلمانوں سے خوامخوا لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے کہ وہ بھی لڑیں کیوں کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا وہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ (الحج:۳۹) سورۃ الحج کی یہ آیت قتال کی فرضیت کے حوالے سے پہلی اور ابتدائی آیت ہے۔ اس وقت چوں کہ اسلامی ریاست کا فوجی نظام نہیں تھا اس لیے تمام عاقل و بالغ مرد مومنوں پر قتال یعنی جہاد فرض عین تھا۔

جہاد بالسیف کی فرضیت کے اسباب:

الف: کفار کی دشمنی اور ان کے پر خطر عزائم:

مکہ مکرمہ میں جو شخص بھی اسلام قبول کرتا تھا تو دشمنان اسلام کی طرف سے ان پر ظلم و ستم کیا جاتا اور اذیتیں دی جاتی تھیں، جن کا بنیادی سبب ”کلمۃ الحق“ یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تھا۔ اس کلمۃ الحق کو کفار اپنے عقیدہ کے برخلاف سمجھتے تھے، کسی بھی صورت میں اس کلمۃ الحق کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے، چنانچہ مسلمانوں کے لیے مکہ کی زمین تنگ کر دی اور مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔
اللہ جل شانہ فرماتے ہیں: یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دے گئے ہاں یہ کہتےہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے۔ (الحج:۴۰)

کفار مکہ کی مسلمانوں سے شدت کی مخالفت و دشمنی کا اندازہ اس آیت سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ترجمہ: اوریہ لوگ (کفار) ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں۔(البقرۃ:۲۱۷)

ب: اسلامی ریاست کے وجود کو خطرہ:

کفار جس کلمۃ الحق کو مکہ میں برداشت نہیں کر پا رہے تھے، اسی کلمۃ الحق پر مدینہ میں ایک ریاست کی بنیاد ڈآلی گئی تو کفار کا یہ اندیشہ بڑھ گیا کہ اسلام کی طاقت ان کے لیے ایک مستقل خطرہ بن جائے گی۔ تو ان کی نیندیں اڑ گئیں۔ اور مخالفانہ کوشش تیز سے تیز کر دیں، اور اس اسلامی ریاست کو ختم کرنے کے لیے جنگ کے منصوبے بنانے لگے۔ تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دفاع کے لیے یہ احکام جاری فرمائے۔ ترجمہ: اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں، تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (البقرۃ:۱۹۰)
زیادتی نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ قوت کا استعمال وہاں کرو جہاں ناگزیر ہو اور اس حد تک کرو جتنی اس کی ضرورت ہو۔

۳۔ جہاد کی شرائط تحریر کریں۔

جواب: مسلح جہاد کے شرائط:

اسلام نے مسلح جہاد کے لیے کچھ شرائط رکھی ہیں ان شرائط کوملحوظ رکھتے ہوئے جہاد کرنا چاہئے۔

الف: اعلاء کلمۃ اللہ(اللہ کےدین کی سربلندی کے لیے):

مسلح جہاد کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ہو۔

ب: اسلامی ریاست کی طرف سے اعلان:

مسلح جہاد کی دوسری شرط یہ ہے کہ قتال کا اعلان ریاست کی طرف سے ہو۔ اسلام میں قتال کے اعلان کی مجاز صرف اور صرف ریاست ہے کسی فرد یا جماعت کے اعلان یا فتویٰ(جنگ کے لیے) کی شرعی حیثیت نہیںہے بلکہ اس قسم کے فتوے یا اعلان فساد فی الارض کے زمرے میں آتے ہیں۔

ج: مناسب حد تک فوجی طاقت میسر ہو:

مخالف قوت سے لڑنے کے لیے حکومت کے پاس موافق طاقت و قوت میسر ہو۔قرآن مجید نے اسلامی ریاست کو مضبوط رکھنے کے لیے تاکید کی ہے۔ فرمایا: اور جہاں تک ہو سکے(قوت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے(مقابلے کے) لیے مستعدد ہو کہ ا سسے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے۔ ہیبت بیٹھی رہے گی اور تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیا جائے گا۔ اور تمہارا ذرا نقصان نہ کیا جائے گا۔

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں تمہارے پاس سامان جنگ اور ایک مستقل فوج ہر وقت تیار رہنی چاہے تاکہ بوقت ضرورت فوراً کاروائی کرسکو اور دشمن کا بھرپور مقابلہ کر سکو۔

د:لڑائی میں جاہلیت والے طریقے استعمال نہ کیے جائیں:

لڑائی کے وقت صرف ان سے لڑا جائے جو مقابلے میں ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں اور جنگ کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔عورتوں، بچوں، بوڑھوں، زخمیوں اور عام شہریوں پر دست درازی نہ کی جائے، دشمنوں کے مقتولوں کا مثلہ نہ کیا جائے، کھیتوں،مکانوں اور مویشیوں کو خواہ مخواہ برباد نہ کیا جائے۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریرکریں:

۱۔ جہاد کا معنی و مفہوم کیا ہے؟

جواب: جہاد کا معنی و مفہوم:
جہاد عربی زبان کا لفظ ہے جو ”جہد“ سے ماخوذ ہے۔ اس کے لغوی معنی ہے: محنت و جدوجہد، انتہائی کوشش و جستجو کرنا۔

۲۔ جہاد کے مقاصد بیان کریں۔

جہاد بالسیف کی فرضیت کے اسباب:

الف: کفار کی دشمنی اور ان کے پر خطر عزائم:

مکہ مکرمہ میں جو شخص بھی اسلام قبول کرتا تھا تو دشمنان اسلام کی طرف سے ان پر ظلم و ستم کیا جاتا اور اذیتیں دی جاتی تھیں، جن کا بنیادی سبب ”کلمۃ الحق“ یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تھا۔ اس کلمۃ الحق کو کفار اپنے عقیدہ کے برخلاف سمجھتے تھے، کسی بھی صورت میں اس کلمۃ الحق کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے، چنانچہ مسلمانوں کے لیے مکہ کی زمین تنگ کر دی اور مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔

اللہ جل شانہ فرماتے ہیں: یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دے گئے ہاں یہ کہتےہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے۔ (الحج:۴۰)
کفار مکہ کی مسلمانوں سے شدت کی مخالفت و دشمنی کا اندازہ اس آیت سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ترجمہ: اوریہ لوگ (کفار) ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں۔(البقرۃ:۲۱۷)

ب: اسلامی ریاست کے وجود کو خطرہ:

کفار جس کلمۃ الحق کو مکہ میں برداشت نہیں کر پا رہے تھے، اسی کلمۃ الحق پر مدینہ میں ایک ریاست کی بنیاد ڈآلی گئی تو کفار کا یہ اندیشہ بڑھ گیا کہ اسلام کی طاقت ان کے لیے ایک مستقل خطرہ بن جائے گی۔ تو ان کی نیندیں اڑ گئیں۔ اور مخالفانہ کوشش تیز سے تیز کر دیں، اور اس اسلامی ریاست کو ختم کرنے کے لیے جنگ کے منصوبے بنانے لگے۔ تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دفاع کے لیے یہ احکام جاری فرمائے۔ ترجمہ: اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں، تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (البقرۃ:۱۹۰)
زیادتی نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ قوت کا استعمال وہاں کرو جہاں ناگزیر ہو اور اس حد تک کرو جتنی اس کی ضرورت ہو۔