سبق نمبر 10: احادیث کے نوٹس

0
  • سبق نمبر 10

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ مندرجہ ذیل احادیث میں سے کسی بھی ایک حدیث کا ترجمہ و تشریح تحریر کریں۔

مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَ لَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ اُمُّہ

ترجمہ:

جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے حج کیا اور پھر نہ اس نے بدکلامی اور گالی گلوچ کی نہ ہی کوئی گناہ کیا تو وہ حض سے اس دن کی طرف واپس ہو گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا۔

تشریح:

اس حدیث میں حج کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے۔ حج ارکان اسلام کا آخری اور تکمیلی رکن ہے، جو عاقل بالغ، صحت مند اور صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ حج بھی تقرب الی اللہ کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے:”عمرے اور حج کو بار بار (نفلی عبادت کے طور پر) ادا کرو یہ دونوں گناہوں کو اس طرح صاف کر دیتے ہیں جیسے (لوہار اور سنار کی بھٹی) لوہے، سونے اور چاندی سے میل کچیل کو صاف کر دیتی ہے، اور حج مبرور(گناہوں سے پاک) کا ثواب تو جنت ہی ہے۔“ (سنن نسائی:۲۶۳۱)۔ اور اس حدیث میں یہی تلقین کی گئی ہے کہ آدمی ھج کے دوران صبر کا مظاہرہ کرے، بیہودہ فحش کلام خاص طور پر شہوت کی باتیں، بدکلامی، اللہ تعالیٰ کی کسی بھی قسم کی نافرمانی جو فسق کی حد میں آتی ہو، غیر قانونی وغیرہ شرعی کاموں اور لڑائی جھگڑے اور گناہوں سے باز رہے اور حقوق اللہ میں کوتاہی کی معافی اور حقوق العباد میں کوتاہی کی تلافی کرلے تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہو جائے گا جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے دن بےگناہ تھا۔

إِنَّ الله لا يَنْظُرُ إِلى أَجْسامِكْم، وَلا إِلى صُوَرِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ

ترجمہ:

یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔

تشریح:

اس حدیث میں اخلاص کی اہمیت بیان کی گئی ہےکہ انسان کاظاہر و باطن ایک ہونا چاہئے۔ یہ حدیث اصلاح و تربیت کے لحاظ سے اہم ہے۔ اسلام اپنے تمام اعمال میں اخلاص وللہیت کو خاص اہمیت دیتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی نیک کام کیا جائے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا جائے، اس میں دنیاوی غرض، نمود و نمائش، طلب شہرت یا معاوضہ نہ ہو، دکھاوے سے بچا جائے، تمام انسانی اعمال میں انسان کے دل اور صحیح ارادہ و نیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے کہ اس عمل کے سر انجام دیتے وقت دل کی کیفیت اور رجحان کیسا ہے، اگر اخلاص و تقویٰ والا عمل ہے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں منظور و مقبول ہوگا اور اس کا ثواب بھی ملے گا، اور اگر اس عمل میں دنیوی مفاد مطلوب ہوگا تو بس وہی بات ملے گی، آخرت میں اللہ کے یہاں اس عمل کے بدلہ کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔

۲۔ مسلمان کے مسلمان کے اوپر چھ خاص باہمی حقوق کی ادائیگی پر مختصر طور پر مضمون لکھیں۔

ترجمہ:

ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ ۱) جب وہ کسی مسلمان سے ملے تو وہ اسے سلام کرے،۲) اور جب وہ اسے دعوت دےتو وہ اسے قبول کرے،۳) اور جب اسے چھینک آئے تو وہ یرحمک اللہ(اللہ تم پر رحم کرے)کہے،۴) اور جب وہ بیمار ہو تو وہ اس کی عیادت کرے، ۵) اور جب اس کا انتقال ہو تو وہ اس کی نماز جنازہ میں شریک ہو اور جنازے کے ساتھ ساتھ چلے، ۶) اور جو کچھ وہ اپنے لیے پسند کرے وہ اس کے لیے بھی پسند کرے۔

تشریح:

اس حدیث میں روز مرہ کی عملی زندگی میں مسلمان کے مسلمان کے اوپر اسلامی رشتے اور معاشرے کے چند چھ خاص باہمی حقوق کی ادائیگی کی تلقین بیان کی گئی ہے۔جن سے دو مسلمانوں کا باہمی تعلق پیدا ہوتا ہے اور اس کی نشوونما ہوتی ہے۔ اس لیے ان کا خاص طور سے اہتمام کیا جائے، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ترجمہ: مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ (سورۃ الحجرات: ۱۰) اسلام نے ان کے رشتہ اخوت لو اور مضبوط بنا دیا۔ چنانچہ اسلام یہی چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی یہ محبت و الفت قائم اور دائم رہے تاکہ وہ ایک دوسرے کےلیے خیر خواہ اور پورے سماج کے لیے کار آمد بن سکیں۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں۔

۱۔ علم کی عظمت پر نوٹ تحریر کریں۔

جواب: حدیث: علم حاصل کرو اگرچہ ملک چین سے ہی کیوں نہ ہو۔
اس حدیث میں علم کی عظمت اور اس کی ضرورت بیان کی گئی ہے۔ انسانی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے کہ انسان کو اپنی ذات اور کائنات کے متعلق ہر اچھی اور بری بات کا علم ہو اور علم کے بغیر انسان دنیا میں ترقی نہیں کر سکتا۔ اور علم کے حصول کے لیے محنت، جدوجہد اور مشقت برداشت کرنا گزیر ہے۔ اس کلے بغیر علم میں پختگی اور عمدگی نہیں ہو سکتی۔ اور اس کے لیے اگر سفر کی مشقت سامنے آجائے تو اس کو برداشت کرے۔ پہلے دور کے بہت بڑے محدثین، علماء اور سائنس دان علم حاصل کرنے کےلیے دور دراز کے عملی سفر کیا کرتےتھے اور سفر و ہجرت کی مشقتیں برداشت کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کا نام عزت سےلیا جاتاہے۔ یہاں بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ علوم و فنون کے حصول کے لیے ہم کو ملک چین بھی جانا پڑے تو وہاں بھی جا کر علم حاصل کرنےمیں تکلیف و مشقت کو برداشت کریں۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ علم کے حصول کے لیے بے انتہا محنت کریں اگرچہ دور دراز سفر کرنا پڑے تو بھی سفر اور مشقت برداشت کریں تاکہ دینی اور دنیوی ترقی حاصل کرسکیں۔

۲۔ اخلاص سے کیا مراد ہے؟ تحریر کریں۔

جواب: اخلاص کا لغوی معنی پاک صاف ہونے اور خالص ہونے کے ہیں۔

”اخلاص یہ ہے کہ ہر ماسواللہ سے دل کو پاک کر لیا جائے۔“
اخلاص کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ انسان زندگی میں جو بھی عمل کرے اور جس سطح کی اور جس شکل کی بھی عبادت کرے اس کا دل اس عبادت اور عمل میں صرف اور صرف اس بات پر مطمئن ہو کہ میں یہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کر رہا ہوں۔

۳۔ ایمان کا اعلیٰ شعبہ اور آخری شعبہ کونسا ہے؟ تحریر کریں۔

جواب: ایمان کا سب سے اعلیٰ شعبہ لا الہ الا اللہ کہنا ہے کیونکہ اس کے ذریعہ ہی توحید کا اقرار ہوتا ہے جس کو اصل ایمان کہا جاتا ہے۔ ایمان کے دیگر شعبوں سے مراد عقائد نیک اعمال اور اچھے اخلاق اور ظاہری و باطنی سب احوال ہیں ایمان میں اخلاقی اعتبار سے آخری شعبہ یہ ہے کہ ”مومن میں دوسرے لوگوں کو تکلیف سے بچانے کی خوبی ہو۔“ اس لیے راستہ سے کوئی بھی ایسی چیز جو راہ گیروں کی تکلیف کا باعث ہو اس کو ہٹا دینا باعث اجر و ثواب ہے۔

۴۔ حیا کا کیا مطلب ہے؟

جواب: حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔یہ بے شرمی، فحاشی اور بے حیائی کی ضد ہے۔امام ابو الااعلیٰمودودی کے نزدیک اسلام کی اصطلاح میں حیا سے مراد وہ شرم ہے جو کسی امر منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اور خدا کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ امام راغب اصفہانی نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ ”حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔“ علامہ ابن حجرؒ کے نزدیک ”حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر ابھارتا ہے۔“