بعثت نبوی کا مفہوم، مقاصد، آثار سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 16:

(الف) مندرجہذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ بعثت نبوی پر مضمون تحریر کریں۔

جواب: بعثت نبوی صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا مفہوم:

حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی عمر مبارک چالیس سال کو پہنچ گئی تھی اور آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ رمضان کےمہینے میں حسب معمول غار حرا کی تنہائیوں میں مشغول عبادت تھے کہ ایک دن جبریل علیہ السلام اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے پاس آیا اور اور نور نبوت کی جو شمع آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے سینے مبارک میں مخفی تھی اسے وحی الہیٰ کے ان الفاظ کے ساتھ روشن کر کے آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو نبوت ورسالت سے سرفراز کیا۔ اور سورۃ العق کی پہلی آیات پڑھیں:

ترجمہ: اے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا۔ (۱) جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔(۲) پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے۔ (۳) جس نے قلم کے ذریعے یہ علم سکھایا۔(۴) اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا۔ (۵) یہ آیات قرآنی پہلی وحی کی حیثیت سے محمد بن عبداللہ کو محمد رسول اللہ بن عبداللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو نبوت کے شرف سے مشرف کر گئی۔ جن کی نبوت آخری نبوت اور جن کے شریعت آخری شریعت ہے۔ یہاں سے نبوت کا آغاز اور وحی کا نزول شروع ہوا۔

بعثت نبوی کے آثار:

اعلان نبوت کے بعد اگر کوئی خارق عادت واقعہ کسی پیغمبر کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اس کو معجزہ کہا جاتا ہے۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ غیر معمولی واقعہ جو عمومی طریقے اور طرز سے نمودار نہ ہو اور کسی نبی کی بعثت کی طرف اشارہ کرتا ہو وہ نبوت کے آثار میں شمار ہوتا ہے۔

بعثت سے چھ برس قبل نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو ایک روشنی اور چمک نظر آنے لگی تھی، جس کو دیکھ کر آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ بے حد مسرور ہوتے تھے، اس چمک اور روشنی میں کسی قسم کی آواز نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جب کبھی کسی پیغمبر پر وحی کی شروعات ہوتی ہے تو سب سے پہلے انھیں سچے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ بخاری شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ پر وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی، چنانچہ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ رات کو جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کو روشنی کی طح واضح اور سچا ہوتا تھا۔

حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ جب مکہ مکرمہ کے راستوں سے گذرتے تو پتھروں اور درختؤں سے آواز آتی السلام علیک یارسول اللہ (اے اللہ کے رسول! آپ پر سلام ہو) جب آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھتے تو وہاں پر پتھروں اور درختوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں کہ ”میں مکہ میں ایک پتھر کو پہچانتا ہوں جو بعثت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا۔“ (صحیح مسلم:۲۲۷۷)

۲۔ بعثت نبوی سے قبل حالات عرب بیان کریں۔

جواب:بعثت نبوی صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے قبل حالات عرب:

مکہ مکرمہ: مکہ مکرمہ عربستان کا بڑا شہر اور قریش کاروحانی و سماجی مرکز بن چکا تھا، تجارتی سرگرمیوں، تمدن، معیشت اور ترقی کے باعث یمن کے مشہور شہر صنعاء کے ہم پلہ ہو چکا تھا، قریش کے تجارتی قافلے سال میں دو مرتبہ شام اور یمن کاسفر کرتے تھے، جس کی بدولت اہل مکہ زندگی کی ہر سہولت سے مالا مال تھے۔ پانچویں صدی عیسوی کے دوران مکہ کے سردار قصی بن کلاب(جو حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی پانچویں پشت سے دادا ہیں) نے مکہ کا جو انتظامی ڈھانچہ بنایا تھا وہ اس وقت تک برقرار تھا، جس کی بنیاد، اتحاد، تعاون، اجتماعی، عمومی مفاہمت اور انتظامی امور کی باہمی تقسیم پر تھی، چنانچہ جنگی معاملات، تجارت اور دیگر سماجی معاملات کے حل کے لیے دارالندوہ نامی مجلس مشاورت قائم تھی۔

مکہ شہرکے بہتر انتظام، معاشی اور تجارتی سرگرمیوں اور متمدن سماجی نظام کے باعث اس کے بہت سے خاندان بڑا مالدار اور سرمایہ دار ہو چکے تھے، ان میں سے بعض ایسے لوگ بھی تھے جو صدقہ خیرات کرتے، محتاجوں اور مساکین کی ماداد کرتے ۔ لیکن بعض ایسے بھی تھے جن کا سودی اور ناجائز ذرایع کاکاروبار تھا، وہ عیاش، ضدی اور کمزور طبقہ کے لیے سخت گیر تھے، انھیں مال و اولاد پر غرور تھا، وہ دوسروں کو حقیر سمجھتے تھے، سماجی برائیوں مثلاً شراب نوشی، ظلم، بدکاری، فحاشی، ناجائز ذریعہ آمدن(ڈاکہ، چوری، جوا) کو برا نہ سمجھتے تھے۔ پڑوسیوں کو تکلیف دینا، صلہ رحمی کا پاس نہ رکھنا، ناحق خون بہانا ان کا مشغلہ تھا، چنانچہ ان غیر انسانی رویوں کی وجہ سے وہ سخت دل، خشک مزاج اور بے رحم طبع ہو چکے تھے، حجاز کے باقی حصوں میں بھی بدانتظامی اور آوارگی کی وجہ سے لوگ سرکش ہو چکے تھے اپنے ہی لوگوں سے لڑنا جھگڑنا اور مارنا ان کے یہاں جرات اور فخر سمجھا جاتا۔ اپنی ہی بچیوں کو زندہ درگور کرنے پر فخر کرتے تھے۔

جہالت عام ہونے کی وجہ سے بت پرستی ان کا مذہبی شعار بن چکی تھی۔صرف خانہ کعبہ کے اندر ہی تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ بعثت کے وقت جب آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ تشریف لائےتو دنیا کا حال یہ تھا کہ خشکی اور تری میں فساد برپا تھا۔ (دنیائے مذاہب اور عالم تہذیب و تمدن میں عقائد و اعمال میں خرابیاں پیدا ہو چکی تھیں۔)

۳۔ بعثت نبوی کے آثار بیان کریں۔

جواب: بعثت نبوی کے آثار:

اعلان نبوت کے بعد اگر کوئی خارق عادت واقعہ کسی پیغمبر کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اس کو معجزہ کہا جاتا ہے۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ غیر معمولی واقعہ جو عمومی طریقے اور طرز سے نمودار نہ ہو اور کسی نبی کی بعثت کی طرف اشارہ کرتا ہو وہ نبوت کے آثار میں شمار ہوتا ہے۔

بعثت سے چھ برس قبل نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو ایک روشنی اور چمک نظر آنے لگی تھی، جس کو دیکھ کر آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ بے حد مسرور ہوتے تھے، اس چمک اور روشنی میں کسی قسم کی آواز نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جب کبھی کسی پیغمبر پر وحی کی شروعات ہوتی ہے تو سب سے پہلے انھیں سچے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ بخاری شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ پر وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی، چنانچہ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ رات کو جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کو روشنی کی طح واضح اور سچا ہوتا تھا۔

حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ جب مکہ مکرمہ کے راستوں سے گذرتے تو پتھروں اور درختؤں سے آواز آتی السلام علیک یارسول اللہ (اے اللہ کے رسول! آپ پر سلام ہو) جب آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھتے تو وہاں پر پتھروں اور درختوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں کہ ”میں مکہ میں ایک پتھر کو پہچانتا ہوں جو بعثت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا۔“ (صحیح مسلم:۲۲۷۷)

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں۔

۱۔ پہلی وحی کی آیات کا ترجمہ لکھیں۔

جواب: (۱) جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔(۲) پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے۔ (۳) جس نے قلم کے ذریعے یہ علم سکھایا۔(۴) اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا۔

۲۔ بعثت نبوی کا مفہوم بیان کریں۔

جواب: حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی عمر مبارک چالیس سال کو پہنچ گئی تھی اور آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ رمضان کےمہینے میں حسب معمول غار حرا کی تنہائیوں میں مشغول عبادت تھے کہ ایک دن جبریل علیہ السلام اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے پاس آیا اور اور نور نبوت کی جو شمع آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے سینے مبارک میں مخفی تھی اسے وحی الہیٰ کے ان الفاظ کے ساتھ روشن کر کے آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو نبوت ورسالت سے سرفراز کیا۔

۳۔ بعثت نبوی کے چند مقاصد بیان کریں۔

جواب: تعلیم و تدریس:

قرآن کریم کی پہلی وحی کے اندر پڑھنے اور قلم کا ذرک موجود ہے، پھر حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی بعثت کی وقت اللہ تعالیٰ نے ان چار نکات کو محور و مرکز قرار دیا۔
۱۔اللہ تعالیٰ کی آیات ان کو پڑھ کر سنانا۔ ۲۔انھیں پاک کرنا۔۳۔ انھیں کتاب کی تعلیم دینا۔۴۔ حکمت کی باتیں سکھانا۔ یعنی آیات خداوندی پڑھ کر سنانے والے مبلغ، ایات کی تعلیم دینے والے معلم، آیات کی تفہیم کرنے والے ہادی اور آیات کی تعمیل کرانے والے مسلح تھے۔