| ہجرت کے معنی و مفہوم، تاریخ، اسباب، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 18:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ ہجرت کے واقعہ سے متعلق آپ کیا جانتے ہیں؟ وضاحت کریں۔

جواب: حضور صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ اور آپ کے دو پیارے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما، اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے، چنانچہ جب نبوت کا تیرھواں سال شروع ہوا، اس وقت تک اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ روانہ ہو چکے تھے، تو اللہ تعالیٰ کی اجازت سے آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے بھی ہجرت کی تیاری شروع فرمائی۔
دار الندوہ میں کفار کا مشورہ:

مشرکین مکہ نے جب دیکھا کہ مسلمان ہجرت کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ سکون و آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اوس و خزرج جیسے طاقتور قبائل ان کے حمایتی و مدد گار بن چکے ہیں، تو ان کو مسلمانوں اور خاص طور پر حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے حسد کی وجہ سے پریشانی ہوئی، چنانچہ تمام زعماء قریش دار الندوہ میں جمع ہو کر حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے خلاف تدبیریں کرنے لگے۔

غار ثور میں قیام :

حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالی نے پہلے ہی کفار کے اس مکر سے باخبر فرمادیا تھا اور کفار کی اتنی شدید دشمنی کے باوجود حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے پاس رکھی ہوئی کفار کی امانتیں صحیح سلامت ان کے مالکان تک پہنچانے کی غرض سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بلا کر فرمایا ” ہمیں ہجرت کا حکم مل چکا ہے، اس لیے ہم آج ہی مدینہ روانہ ہو جائیں گے ، آپ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جائیں، صبح کو یہ امانتیں مالکان کے سپرد کر کے آپ بھی مدینہ پہنچ جائیں۔“

حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ رات کی تاریکی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ سے نکل کر ثور پہاڑ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے شہر مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”تو بڑا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے بڑا محبوب ہے۔ میری قوم اگر مجھے یہاں سے نکلنے میں مجبور نہ کرتی تو میں تمھارے سوا کسی اور جگہ نہ جاتا“۔ پھر آپ دونوں نے غار ثور کے اندر تین دن تک قیام فرمایا۔

ادھر صبح کے وقت جب کفار نے حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے گھر میں جا کر دیکھا تو رسول الله صَ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے بستر پرحضرت علی رضی اللہ عنہ کو پایا اور ان سے رسول الله صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے متعلق دریافت کرتے رہے اور پھر رسول اللَّهِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی تلاش میں نکل پڑے۔ یہاں تک کہ غار ثور تک آپہنچے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو رسول الله صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نظر نہیں آئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نوجوان بیٹا حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ دن کے حالات معلوم کر کے رات کے وقت آپ کو باخبر کرتا، شام کے وقت روزانہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا غلام عامر بن فہیر و رضی اللہ عنہ بکریاں چراتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ کو دودھ دے جاتا، اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بڑی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کھانا تیار کر کے دینے آتی تھی۔

غار ثور سے مدینہ منورہ روانگی:

چوتھے دن حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ غار سے باہر نکلے ، عبد اللہ بن اریقط نامی شخص کو اجرت پر بطور راستہ دکھانے والا لیا۔ اسی طرح یہ چھوٹا قافلہ ایک دن اور رات مسلسل چلتارہا، دوسرے دن دوپہر کے وقت گرمی اور دھوپ کی تپش کی وجہ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کچھ وقت آرام فرما لیں، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو انھیں ایک بڑے ٹیلے کے قریب کچھ سایہ نظر آیا، چنانچہ وہیں پر پڑاؤ کے لیے رک گئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے قریب ایک بکریاں چرانے والے چرواہے سے کچھ دودھ لے کر آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو پیش کیا ، جب سورج ڈھلنے لگا تو آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے آگے کوچ کیا۔

قبا میں تشریف آوری:

رسول الله صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سن ۱۴ نبوت بمطابق سنہ ایک ہجری کو بحفاظت قبابستی میں پہنچ گئے، جہاں آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے چند دن قیام فرمایا اور وہاں ایک مسجد تعمیر کی اوراس میں نماز پڑھی جس کو “مسجد قبا “کہا جاتا ہے۔ جس کے لیے ارشاد باری تعالی ہے: البتہ جس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر اول روز سے پڑی ہے۔

مدینہ منورہ میں پہلے ہی رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی خبر پہنچ چکی تھی اس لیے تمام شہر والے آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی آمد کے بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے ، وہ روزانہ صبح کو آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا انتظار کرتے اور پھر واپس چلے جاتے تھے۔ ایک دن تمام لوگوں کے واپس ہو جانے کے بعد ایک یہودی نے ( جو اپنے قلعہ پر تھا) آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو دیکھا اور چلا کر مسلمانوں کو بتانے لگا: اے اہل عرب ! تمھارا مہمان آپہنچا۔

مدینہ منورہ میں داخلہ :

حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ جمعہ کے دن اللہ تعالی کے حکم سے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے ، بنو سالم بن عوف کی بستی میں پہنچ کر بطن وادی میں جمعہ کی نماز پڑھائی ، اسی طرح آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ آپہنچے ، اہل مدینہ نے آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا پر جوش استقبال کیا اور آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری پر خوشی کا اظہار کیا اور دل کھول کر آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کیا۔

۲۔ ہجرت مدینہ کے اسباب بیان کریں۔

جواب: مدینہ منورہ عرب کا ایک قدم شہر ہے، جس کا اصلی نام یثرب تھا جو حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی ہجرت کے بعد نبی صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا شہر اور پھر مدینہ منورہ مشہور ہوا۔ مدینہ کی طرف ہجرت کے درج ذیل اسباب ہیں:

ایک طرف مکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مشرکین مکہ کی زیادتیاں عروج پر تھیں، تو دوسری طرف یثرب میں اسلام کی عام مقبولیت کے پیش نظر مسلمانوں کےلیے ماحول سازگار تھا، چنانچہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت عنایت فرمادی۔ تمام مسلمان ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے صرف چند باقی رہ گئے جن کو مشرکین نے قید کر رکھا تھا یا وہ غربت اور مجبوری کی وجہ سے نہیں جا سکتے تھے، ان کے علاوہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علی رضی اللہ عنہما بھی کچھ خاص مصلحتوں کی وجہ سے پیچھے رہنے والوں میں شامل تھے۔

۳۔ مختلف غزوات کا اجمالی تعارف لکھیں۔

جواب: غزوہ کے معنی کسی سے لڑنے کے لیے نکلنے،حملہ کرنے اور جنگ کرنے کے ہیں۔ محدثین اور سیرت نگاروں کے نزدیک غزوہ ایسی جنگی مہم کو کہا جاتا ہے۔ جس میں حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے بذات خود شرکت فرمائی ہو، آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ لشکر کے امیر کی حیثیت میں اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے کوشاں رہے۔

ہجرت کے بعد تمام عرب قبائل مدینہ پر حملے کے لیے کمر بستہ ہوگئے، قریش نے عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھیوں کو کہلا بھیجا کہ تم نے ہمارے آدمی (حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ) کو پناہ دے کر ٹھہرایا ہے، اس سے لڑائی کرو، یا اسے اپنے شہر سے نکال دو ورنہ ہم سب تمہارے اوپر حملہ کر دیں گے اور جوانوں کو قتل کیا جائے گا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا دیا جائے گا۔

دوسری طرف مشرکین مکہ نے مدینہ کے یہود ساز باز کرنا بھی شروع کردی، ان کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے پر اکسانے کے بعد مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ مکہ سے نکل کر تم اپنے آپ کو یثرب میں محفوظ نہ سمجھو، ہم یثرب میں آکر تمہیں ختم کردیں گے۔ چنانچہ ایسی صورتحال کے پیش نظر اور مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنا دفاع کرنے اور ریاست کو بچانے کے لیے انھیں جہاد کرنے کی اجازت دی ارشاد پاک ہے: ترجمہ: جن سے لڑائی کی جارہی ہے ان کواب لڑنے کی اجازت ہے کیوں کہ وہ مظلوم ہیں اور بے شک اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھتا ہے۔ (الحج: ۳۹)چنانچہ ریاست مدینہ کے دفاع کے لیے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے مخالفین اسلام سے اسلحہ کے ساتھ جہاد کیا۔ ان میں چند اہم یہ ہیں:

غزوہ بدر:

حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے مدینہ منورہ ایک سال پورا کیا تھا کہ ماہ رمضان سن ۲ ھ میں مشرکین مکہ نے ابوجہل کی قیادت میں مدینہ پر حملہ کا ارادہ کیا، آنحضرت صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو اطلاح مل گئی تو، آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے آگے بڑھ کر”بدر“ کے مقام پر مشرکین کا مقابلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔

غزوہ احد:

غزوہ بدرکے ٹھیک ایک سال بعد مشرکین مکہ ابو سفیان کی قیادت میں ماہ شوال سن ۳ ھ میں مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے، مسلمانوں نے احد کے مقام پر ان کا مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کا بھاری نقصان ہوا مگر دشمن بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوئے۔

غزوہ خندق:

تیری مرتبہ ماہ ذوالقعد سن ۵ ھ میں پورے عرب کے مشرکین و کفار اکٹھے ہو کر بڑی طاقت کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوئے، اس جنگ کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے طوفان اور آندھی بھیج کر کفار کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔

غزوہ خیبر:

سن ۷ ھ میں خیبر کے یہودیوں نے سخت بغاوت شروع کر دی۔ یہودیوں نے کئی قلعے بنائے تھے۔ سارے قلعے فتح کیے گئے آخری قلعہ قموص تھا، جس کو شیر خدا حیدر کرار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی کمان میں فتح کیا گیا۔

فتح مکہ:

مسلمانوں نے رمضان المبارک سن ۸ھ میں مکہ مکرمہ فتح کیا۔

غزوہ حنین:

سن ۸ھ میں ”غزوہ حنین “ ہوا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو کامیابی ہوئی۔

غزوہ تبوک:

سن ۹ھ میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو اطلاح ملی کہ رومی اور اس کے اتحادی مسلمانوں کے ساتھ لڑائی کرنے کے ارادے سے نکل چکے ہیں، تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ اپنے مجاہد ساتھیوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنےکے لیے تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر جب رومیوں نے مسلمانوں کا عزم دیکھا تو وہ واپس چلے گئے۔ اور اسلامی لشکر بغیر لڑائی کے واپس آگیا۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ ہجرت کا معنی اور مفہوم بیان کریں۔

جواب: ہجرت کے معنی و مفہوم:

عربی زبان میں ہجرت کے معنی جدائی، علیحدگی اور ایک جگہ قطعاً چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جانا ہیں۔ اسلام میں ہجرت کا مفہوم ہے: رضائے الہیٰ کے حصول کے لیے اصل وطن اور گھر بار کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں سکونت اختیار کرنا، خاص طور پر جہاں وہ محکوم اور مظلوم ہوں، ان کو اسلام پر عمل کرنے میں زندگی گذارنا مشکل ہو تو ایسے حالات میں نقل مکانی کرکے ایسی جگہ جائیں، جہاں دین کے تقاضے پورے کیے جا سکیں اور اس پر عمل کرنا آسان ہو۔

اسلام کی پہلی ہجرت حبشہ کی طرف ہوئی اور دوسری ہجرت یثرب مدینہ منورہ کی طرف حکم الہیٰ کے مطابق ہوئی، مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کو وطن بنانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مہاجر اور ان کے مدد کرنے والے اہل مدینہ انصار کہلاتے ہیں۔

۲۔ غزوہ بدر کب اور کیوں ہوا؟

جواب: غزوہ بدر 17 رمضان 2 ہجری بمطابق 13 مارچ 624 کو رسول اللہ حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی قیادت میں مسلمانوں اور ابوجہل کی قیامت میں مکہ کے قبیلہ قریش اور دیگر عربوں کے درمیان میں مدینہ کے جنوب مغرب میں بدر نامی مقام پر ہوا۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔

۳۔ ہجرت کی فضیلت کیا ہے؟ نوٹ تحریر کریں۔

جواب: ہجرت کی فضیلت:

ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو دنیا و آخرت میں فائدہ ہوتا ہے۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت کے بھی حق دار ہوتے ہیں۔ اور ان کے لیے مغفرت ، جنت اور بہترین اجر کا انعام رکھا ہے۔ اور انھیں یقین دلایا گیا ہے کہ ان کے اعمال ضائع نہیں ہوں گے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی اور فرمایا کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ہو ضائع نہیں کرتا۔ تم ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ تو جو لوگ میرے لیے وطن چھوڑ گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور (اللہ کی راہ میں) لڑے اور قتل کیے گئے میں ان کے گناہ دور کردوں گا اور ان کو بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔ یہ اللہ کے ہاں سے بدلہ ہے اور اللہ کے ہاں اچھا بدلہ ہے۔ (آل عمران: ۱۹۵) بجا طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جب تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا، اس وقت سب سے بڑا عمل ”ہجرے“ تھا۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہجرت اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہو اور اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم رہنے اور اس کی دعوت و اشاعت کے لیے ہو۔