اَکمَلَ المُومِنِینَ اِیمَانَا اَحسَنُھُم خُلُقَ،خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ، اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِّنَ الْیَدِ السُّفْلٰی، ترجمہ، تشریح

0
  • سبق نمبر 9:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ مندرجہ ذیل احادیث میں سے کسی بھی دو احادیث کا ترجمہ و تشریح تحریر کریں۔

اَکمَلَ المُومِنِینَ اِیمَانَا اَحسَنُھُم خُلُقَ

ترجمہ:

تم میں سے مکمل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق دوسروں سے اچھے ہوں۔

تشریح:

اس حدیث میں اچھے اخلاق کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ”اچھے اخلاق“ کو کمال ایمان کی شرط بنایا گیا ہے، ایمان و اخلاق کے گہرے تعلق کو واضح کیا گیا ہے۔

حسن اخلاق:

زندگی گذارنے میں دین کے اصول و ضوابط کو بجالانا، اوروں کو تکلیف دینے کے بجائے ان سے اچھا برتاؤ کرنا، خندہ پیشانی سے پیش آنا اور ان کی مالی مدد کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے سرانجام دیں تو یہ ”حسن اخلاق“ کہلاتا ہے۔

حسن اخلاق کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے چنانچہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ”تم میں سےمجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو اچھے اخلاق والے ہیں۔“ (مسند احمد، حدیث، ۶۷۳۵)بسا اوقات آدمی نفلی عبادات کے اعتبار سے سست لگتا ہے تاہم اللہ تعالیٰ کے یہاں ”حسن اخلاق“ کے بدلے بلند مرتبہ پالیتا ہے۔

خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ

ترجمہ:

بہترین انسان وہ ہے جو انسانوں کو زیادہ نفع پہنچائے۔

تشریح:

اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ”لوگوں کے لیے نفع بخش ہونا“ آدمی کے بہتر ہونے کے لیےضروری ہے۔ انسان کی بہتری کا درو مدار لوگوں کے نفع مند ہونے پر موقوف ہے۔ اس حدیث میں حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ایسے آدمی کو پسندیدہ بندہ شمار کیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق انسانوں، چرند، پرند، حشرات اور ہر ایک کو نفع پہنچائے، ان کو تکلیف نہ پہنچائے بلکہ اپنی طرف سے ان کو حتی الامکان نفع پہنچائے، ان کے کھانے پینے اور دیگر سہولتوں کا انتظام کرے۔ اس مذکورہ حدیث میں سب سے اچھے انسان ہونے کی علامت بتائی گئی ہے کہ ”سب سے اچھا شخص وہ ہے جو دوسرے لوگوں (چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم) کے لیے فائدہ مند ہو۔“

اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِّنَ الْیَدِ السُّفْلٰی

ترجمہ:

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔

تشریح:

اس حدیث میں فی سبیل اللہ دینے والے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حدیث میں الید العلیا سے مراد دینے والا ہاتھ ہے اور الید السفلیٰ سے مراد لینے والا ہاتھ ہے۔ ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے جو کچھ آدمی خرچ کرتا ہے اس کو ”صدقہ“ ، ”خیرات“ اور ”انفاق فی سبیل اللہ“ کہاجاتا ہے۔ یہ بہت بڑی عبادت ہے۔ اوپر والا ہاتھ جو، ضرورت مندوں کو ضرورت کی چیزیں مہیا کرتا ہے ، جود و سخا کرتا ہے۔ وہ نیچے والے ہاتھ سے اچھا ہے۔اور اس کا مقام بہت اونچااور بلند ہے اس ہاتھ سے جس ہاتھ کے ذریعہ دوسروں سے سوال کیا جائے۔ اپنی حاجتیں مانگی جاتیں، وہ نچلا ہاتھ اور ذلے کا باعث ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم کو جہاں تک ہو سکے سخاوت کرنے والا، دوسروں کو دینے اور دوسروں کے کام آنے والا بنیں، نہ گدا گر اور دوسرے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والے سائل بنیں جو کہ ایک گھٹیا بات ہے، اور کسی شخص پر باربن کرزندگی گذاریں ایسے کاموں سے بچیں تاکہ فلاح داریں حاصل کرسکیں۔

۲۔ ”رشوت“ کے نقصانات پر تفصیلی نوٹ لکھیں۔

جواب: رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت کی ہے۔

تشریح:

اس حدیث میں راشی (رشوت دینے والا)، مرشی (رشوت لینے والا) اور رشوت کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ اور ایک دوسری حدیث میں ان دونوں کے درمیان ترجمانی کرنے والے پر بھی لعنت کی گئی ہے۔ (مسند احمد: ۲۲۳۹۹)۔ رشوت: ہر وہ رقم یا عوض ہے جس کے ذریعہ کسی کا حق مارا جائے یا وہ رقم کسی ظلم کے عوض سے لی جائے، ناجائز نذرانہ وغیرہ رشوت لینا اور دینا گناہ کبیرہ میں سے ہے۔
رشوت کا سلسلہ اسی وقت کسی قوم میں عام ہو جاتا ہے، جب عدل و انصاف اور مروت ختم ہو جائے اور انسانوں کے جائز حقوق ملنے کی راہ میں ظالم اہل کاروں کے ناجائز مطالبے حائل ہو جائیں، یا کمائی کے حصول میں کسی حق دار کا حق مارا جائے اور لوگوں کو ان کے حقوق و مراعات جائز طریقے سے نہ مل سکیں۔ اس لیے حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ (سنن نسائی: ۲۶۳۱)

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ ”حسن اخلاق“ سے کیا مراد ہے؟ تحریر کریں۔

جواب: حسن اخلاق: زندگی گذارنے میں دین کے اصول و ضوابط کو بجالانا، اوروں کو تکلیف دینے کے بجائے ان سے اچھا برتاؤ کرنا، خندہ پیشانی سے پیش آنا اور ان کی مالی مدد کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے سرانجام دیں تو یہ ”حسن اخلاق“ کہلاتا ہے۔

۲۔ اچھے انسان کی کیا علامات ہیں؟ تحریر کریں۔

جواب: حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ایسے آدمی کو پسندیدہ بندہ شمار کیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق انسانوں، چرند، پرند، حشرات اور ہر ایک کو نفع پہنچائے، ان کو تکلیف نہ پہنچائے بلکہ اپنی طرف سے ان کو حتی الامکان نفع پہنچائے، ان کے کھانے پینے اور دیگر سہولتوں کا انتظام کرے۔ اس مذکورہ حدیث میں سب سے اچھے انسان ہونے کی علامت بتائی گئی ہے کہ ”سب سے اچھا شخص وہ ہے جو دوسرے لوگوں (چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم) کے لیے فائدہ مند ہو۔

۳۔ رشوت کسے کہتے ہیں؟ تحریر کریں۔

جواب: ہر وہ رقم یا عوض ہے جس کے ذریعہ کسی کا حق مارا جائے یا وہ رقم کسی ظلم کے عوض سے لی جائے، ناجائز نذرانہ وغیرہ رشوت لینا اور دینا گناہ کبیرہ میں سے ہے۔