حضر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کا خاندانی تعارف

0
  • سبق نمبر 28:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ حضر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کا خاندانی تعارف کیا ہے؟

نام و نسب:

اسلامی تاریخ میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اپنی کنیت ابوعبیدہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ تاہم آپ رضی اللہ عنہ کا اصل نام عامر بن عبداللہ بن جراح بن ہلال تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کی شاخ ”بنو قہر“ سے تھا، جبکہ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ قبیلہ بنو حارث میں سے تھی۔جو مشرف باسلامی ہوئیں۔ تاہم آپ رضی اللہ عنہ کے والد کفر کی حالت میں جنگ بدر میں قتل ہوگئے۔ اسلام کی حمیت میں آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے نام میں غیر مسلم والد کا نام شامل کرنا گوارا نہ کیا اور دادا کی طرف نسبت کرکے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کہلانے لگے۔

۲۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی پیدائش کب ہوئی اور آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو دادا کی طرف کیوں منسوب کیا؟

جواب: حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کا خاندان اصل سے مکہ کارہائش پذیر تھا، جہاں پر عام الفیل کے گیارہ برس بعد عبداللہ بن جراح فہری کے گھر میں آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی۔ مکہ میں ہی آپ رضی اللہ عنہ پلے بڑھے۔
آپ رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ کفر کی حالت میں جنگ بدر میں قتل ہوئے۔ اسلام کی حمیت میں آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے میں غیر مسلم والد کا نام شامل کرنا گوارانہ کیا اور دادا کی طر نسبت کرکے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کہلانے لگے۔

۳۔حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو ”امین ھذہ الامۃ“ کیوں کہا گیا؟

جواب: حضر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے لیے سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ ایک مجلس میں رسول اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے جن دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خوشخبری دی تھی ان میں سے آپ رضی اللہ عنہ بھی ایک ہیں۔

حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو جنگ بدر میں شرکت نصیب ہوئی اور بدری صحابہ رضی اللہ عنہم تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ممتاز شان رکھتے ہیں جن کی تعریف قرآن کریم میں بھی کی گئی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کرکے دو ہجرتوں کی سعادت حاصل کی۔

ہجرت کے نویں سال جب یمن کی طرف سے علاقے نجران کے بعض اہل کتاب حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں علمی مناظرہ کے لیے حاضرہوئے اور ناکام ہو کر بالآخر جزیہ کے لیے آمادہ ہوئے تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمارے اوپر جو بھی جزیہ مقرر فرمائیں گے ہم وہ ادا کریں گے۔ آپ ہمارے ساتھ ایک امین آدمی بھیجئے تو آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے پکڑکر فرمایا:
ترجمہ: یہ شخص اس امت کا امین ہے۔(صحیح بخاری)

۴۔ ”سریہ سیف البحر“ میں مسلمانوں کی خاص مدد کا کون سا واقعہ پیش آیا؟

سریہ سیف البحر:

اس سریہ کو امام بخاری نے غزوہ سیف البحر کے نام سے ذکر کیا ہے۔ رجب 8ھ میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ابوعبیدہ بن الجراح کو تین سو صحابہ کرام کے لشکر پر امیر بنا کر ساحل سمندر کی جانب روانہ فرمایا کہ یہ لوگ قبیلہ جہینہ کے کفار کی شرارتوں پر نظر رکھیں اس لشکر میں خوراک کی اس قدر کمی پڑ گئی کہ امیرلشکر مجاہدین کو روزانہ ایک ایک کھجور راشن میں دیتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ یہ کھجوریں بھی ختم ہوگئیں اور لوگ بھوک سے بے چین ہو کر دوختوں کے پتے کھانے لگے۔

جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ابوعبیدہ کو امیر بنا کر تین سو آدمیوں کا ایک لشکر ساحل کی طرف بھیجا ہم چل پڑے ہم راستہ ہی میں تھے کہ زادراہ ختم ہو گیا ابوعبیدہ نے تمام لشکر کے توشے حکم دے کر جمع کر لیے تو وہ کھجور کے دو تھیلے ہوئے ابوعبیدہ ہمیں روز تھوڑا تھوڑا دیتے یہاں تک کہ وہ بھی ختم ہو گیا اب ہمیں ایک ایک کھجور ملنے لگی میں نے جابر سے کہا ایک کھجور سے کیا پیٹ بھرتا ہوگا جابر نے کہا اس ایک کھجور کے ملنے کی حقیقت جب معلوم ہوتی کہ جب وہ بھی ختم ہو گئی یہاں تک کہ ہم (ساحل) سمندر پر پہنچ گئے تو دیکھا کہ ایک مچھلی پہاڑ ی کی طرح موجود ہے اس لشکر نے وہ مچھلی اٹھارہ دن تک کھائی پھر ابوعبیدہ نے اس مچھلی کی دو پسلیاں کھڑی کرائیں اور ایک سواری کو اس کے نیچے سے گزارا تو بغیر اس کے لگے ہوئے سواری نیچے سے صاف نکل گئی۔ (صحیح بخاری)

۵۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی سادہ زندگی سے کوئی ایک مثال پیش کریں۔

ذاتی خصائل واوصاف :

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ عمدہ خصائل واوصاف حمیدہ کے مالک تھے، آپ رضی اللہ عنہ پر حد درجہ کا اللہ تعالیٰ کا خوف غالب تھا، طبیعت میں تواضع اور زہد جیسی صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، جرأت و بہادری خاندانی ورثہ میں ملی تھی، آپ رضی اللہ عنہ نہایت سادہ کھاتے اور سارہ اوڑھتے تھے، آپ رضی اللہ عنہ لو اسلامی لشکر کی قیادت اور شام کی ولایت سنبھالنے کے عہدے بھی حاصل ہوئے۔ تاہم آپ رضی اللہ عنہ کے قناعت و زہد پر ان چیزوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب آپ رضی اللہ عنہ شام و فلسطین کی مہم پر لشکر کے سپہ سالار تھے کہ ایک دن امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کے خیمہ میں آپہنچے تو وہاں تلوار اور ڈھال کے علاوہ کوئی اور سامان نہیں پایا تو فرمانے لگے: (اے ابوعبیدہ) ضرورت کا کچھ تو سامان اپنے پاس رکھ لیا کرو۔“ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: (اے امیر المومنین! ہماری یہی (سادگی والی) حالت ہمیں بہت ہماری آسائش گاہ تک پہنچا دے گا۔) (مصنف عبدالرزاق، کتاب الجامع، باب زھدالصحابۃ ۱۱/۳۱۱)

دوسری مرتبہ فلسطین کی فلسطین کی فتح کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب ارض فلسطین میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح کے دولت خانہ پر کھانے کے لیے تشریف لائے تو آپ رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے سامنے سوکھی روٹی کے کچھ ٹکڑے پانی میں بھگوکر پیش کیے جو وہ خود بھی تناول کرتے تھے۔ اس وقت امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا”شام میں آکرسب ہی بدل گئے، لیکن ابوعبیدہ! ایک تم ہی ہو کہ اپنی وضع پر قائم ہو۔الحمد اللہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں (کہ عہدہ و منصب کے باوجود) ان کی نظر میں سیم وزر کی کوئی حقیقت نہیں۔(سنن ابی داؤد)
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کا قد لمبا، پتلااور بدن کمزور و نحیف تھا، آپ رضی اللہ عنہ کی صورت و شکل تو بلاشبہ سادگی اور کمزوری کی عکاس تھی، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی سیرت وکردار سے اسلام کے لیے وہ کارنامے سرانجام دیئے کہ آج بھی آپ رضی اللہ عنہ کا نام اسلام کے عظیم سپہ سالاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔