میر انیس کی رباعیات کی تشریح

0

رباعی کی تعریف

رباعی لفظ ربعہ سے مشتق ہے جس کے معنی چار کے ہیں۔ صنٍِ رباعی چار مصرعوں کی نظم ہوتی ہے۔ اس پہلا دوسرا اور چوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہوتا ہے۔ رباعی کا تیسرا مصرعہ زوردار ہوتا ہے۔ تیسرے مصرعے کا قافیہ الگ یا دوسرے مصرعوں جیسا ہوسکتا ہے۔ رباعی میں عام طور پر حکیمانہ اور عاشقانہ مضامین ادا کیے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ شاعروں نے خود کو ان مضامین کا پابند نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی رباعی ایرانی شاعر رود نے کہی تھی اور اس کے اوزان و بحور مقرر کیے تھے۔ اردو میں رباعی فارسی زبان سے آئی۔

تعارف شاعر

آپ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد بھی شاعر تھے۔ آپ کو عربی و فارسی پر عبور حاصل تھا۔ آپ نے اردو میں مرثیہ گوئی اور مرثیی خوانی کو اعلیٰ فن کا درجہ دیا۔ آپ اعلیٰ قسم کے مرثیہ نگار تسلیم کیے گئے ہیں۔ آپ کو رباعیات گوئی میں بھی استاد تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ کی چست رباعیوں میں علم و حکمت اور اخلاق کے نکتے بیان کئے گئے ہیں۔ آپ کی کچھ رباعیات ضرب المثل کے طور پر دہرائی جاتی ہیں۔ آپ نے لکھنؤ کی تباہی کے بعد پٹنہ، بنارس، حیدرآباد اور آلہ آباد کا سفر کیا۔ ۱۸۷۴ میں آپ نے اس دنیا سے کوچ کیا۔

رباعیات کی تشریح

۱)

رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جادیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ کی
جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے

تشریح :

اس رباعی میں شاعر کہتے ہیں کہ جب کسی انسان کو اللہ تعالیٰ رتبہ عطا کرتا ہے تو اس آدمی دل میں عاجزی موجود ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی ایسے انسان کو اعلیٰ مقام نہیں عطا کرتے جو عاجز نہ ہو۔ شاعر کہتے ہیں کہ جو احمق لوگ ہوتے ہیں وہ ایسے لوگوں کی تعریفیں کرنے لگتے ہیں جو انھیں تب پکارتے ہیں جب ان کے اپنے برتن خالی ہوچکے ہوں یعنی وہ لوگ جو کام کے وقت ہی دوسروں سے بات کریں ایسے لوگوں کی تعریف کرنے والے احمق ہوتے ہیں۔

۲)

ماں باپ سے بھی سوا ہے شفقت تیری
افزوں  ہے تیرے غضب سے رحمت تیری
جنت انعام کر کہ دوزخ میں جلا
وہ رحم تیرا ہے یہ عدالت تیری

تشریح :

اس رباعی میں شاعر کہتے ہیں کہ اے اللہ تیری شفقت اور محبت تو ماں باپ اپنی اولاد پر جو شفقت کرتے ہیں اس سے بھی بہت زیادہ ہے۔ تو بہت رحیم ہے اور تیری رحمت تیرے غضب سے بہت بڑی ہے۔ تو سب کو معاف کردیتا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اے اللہ تو ہمیں جنت عطا کر یا دوزخ میں بھیج دے وہ تیری مرضی ہے کیونکہ ہم تو بہت گناہگار لوگ ہیں۔ اگر تو ہم پر رحم کرےگا تو ہمیں جنت عطا کردے گا اور اگر تو ہمیں اپنی عدالت میں کھڑا کر کے دوزخ میں بھیج دے تو بھی ہم کچھ نہیں کرسکتے۔

۳)

آغوش لحد میں جب کہ سونا ہوگا
جز خاک نہ تکیہ نہ بچھونا ہوگا
تنہائی میں آہ کون ہووے گا انیس
ہم ہوں گے اور قبر کا کونا ہوگا

تشریح :

اس رباعی میں شاعر کہتے ہیں کہ جب ہمیں مرنے کے بعد قبر کی گود میں جانا ہوگا تو ہمارے پاس نہ تکیہ ہوگا نہ ہی بستر ہوگا بلکہ ہمیں خاک میں ملا دیا جائے گا۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس وقت ہمارے پاس کوئ بھی دوست نہیں ہوگا اور اس وقت ہم اپنی قبر میں بالکل اکیلے ہوجائیں گے۔

مشق :

۱) دنیا میں کون لوگ نرمی اور تواضع اختیار کرتے ہیں؟

جواب : ۱) دنیا میں وہ لوگ نرمی اور تواضع اختیار کرتے ہیں جن کے دل میں عاجزی ہوتی ہے، اور جنہیں اللہ ایک مقام عطا کرتا ہے۔

۲) دوسری رباعی کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے :

خلاصہ :

اس رباعی میں شاعر کہتے ہیں کہ اے اللہ تیری شفقت اور محبت تو ماں باپ اپنی اولاد پر جو شفقت کرتے ہیں اس سے بھی بہت زیادہ ہے۔ تو بہت رحیم ہے اور تیری رحمت تیرے غضب سے بہت بڑی ہے۔ تو سب کو معاف کردیتا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اے اللہ تو ہمیں جنت عطا کر یا دوزخ میں بھیج دے وہ تیری مرضی ہے کیونکہ ہم تو بہت گناہگار لوگ ہیں۔ اگر تو ہم پر رحم کرےگا تو ہمیں جنت عطا کردے گا اور اگر تو ہمیں اپنی عدالت میں کھڑا کر کے دوزخ میں بھیج دے تو بھی ہم کچھ نہیں کرسکتے۔

۳) شاعر کا حوالہ دے کر ان اشعار کی وضاحت کیجیے :

آغوش لحد میں جب کہ سونا ہوگا
جز خاک نہ تکیہ نہ بچھونا ہوگا
تنہائی میں آہ کون ہووے گا انیس
ہم ہوں گے اور قبر کا کونا ہوگا

تعارف :

آپ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد بھی شاعر تھے۔ آپ کو عربی و فارسی پر عبور حاصل تھا۔ آپ نے اردو میں مرثیہ گوئی اور مرثیی خوانی کو اعلیٰ فن کا درجہ دیا۔ آپ اعلیٰ قسم کے مرثیہ نگار تسلیم کیے گئے ہیں۔ آپ کو رباعیات گوئی میں بھی استاد تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ کی چست رباعیوں میں علم و حکمت اور اخلاق کے نکتے بیان کئے گئے ہیں۔ آپ کی کچھ رباعیات ضرب المثل کے طور پر دہرائی جاتی ہیں۔ آپ نے لکھنؤ کی تباہی کے بعد پٹنہ، بنارس، حیدرآباد اور آلہ آباد کا سفر کیا۔ ۱۸۷۴ میں آپ نے اس دنیا سے کوچ کیا۔

وضاحت :

اس رباعی میں شاعر کہتے ہیں کہ جب ہمیں مرنے کے بعد قبر کی گود میں جانا ہوگا تو ہمارے پاس نہ تکیہ ہوگا نہ ہی بستر ہوگا بلکہ ہمیں خاک میں ملا دیا جائے گا۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس وقت ہمارے پاس کوئ بھی دوست نہیں ہوگا اور اس وقت ہم اپنی قبر میں بالکل اکیلے ہوجائیں گے۔

۴) میر انیس کی شاعری کے بارے میں مختصر نوٹ لکھیے :

آپ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد بھی شاعر تھے۔ آپ کو عربی و فارسی پر عبور حاصل تھا۔ آپ نے اردو میں مرثیہ گوئی اور مرثیی خوانی کو اعلیٰ فن کا درجہ دیا۔ آپ اعلیٰ قسم کے مرثیہ نگار تسلیم کیے گئے ہیں۔ آپ کو رباعیات گوئی میں بھی استاد تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ کی چست رباعیوں میں علم و حکمت اور اخلاق کے نکتے بیان کئے گئے ہیں۔ آپ کی کچھ رباعیات ضرب المثل کے طور پر دہرائی جاتی ہیں۔ آپ نے لکھنؤ کی تباہی کے بعد پٹنہ، بنارس، حیدرآباد اور آلہ آباد کا سفر کیا۔ ۱۸۷۴ میں آپ نے اس دنیا سے کوچ کیا۔