ڈراما بور کے لڈو کا خلاصہ، سوالات و جوابات

0

سوالات:

سوال: جنگل میں لکڑی کاٹتے ہوئے لکڑ ہارے نے کس کی آوازسنی اور اُس نے اُ س سے کیا کہا ؟

جواب :جنگل میں ایک برگد کے درخت کو کاٹتے ہوئے لکڑہارے نے اُس کی یہ ڈراؤنی آواز سنیکہ”مجھے مت کاٹو میں تمھیں انعام دوں گا۔“

سوال: گھر آنے پر لکڑہارے اور اس کی بیوی میں کیوں تو تو میں میں ہونے لگی؟

جواب:جوں ہی لکڑہارا گھر پہنچتا ہے وہاں پر اس کی بیوی گھر کی صفائی کر رہی تھی۔ لکڑہارا کیچڑ بھرے پاؤں سمیت گھر میں داخل ہوتا ہے جس پر بیوی غصے بھرے لہجے میں کہتی ہے اُف تیری؛ تو نے میری صفائی خراب کردی ہے۔اس بات پرمیاں بیوی کےدرمیاں توتو میں میں ہوجاتی ہے۔

سوال: بوڑھے نے لکڑہارے کے گھر آکر اُس سے کیاکہا ؟

جواب:بوڑھے نےلکڑہارے کے گھر پہنچ کر کہا مجھے ہریاول کےبادشاہ نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔اوراُن کا حکم ہے کہ لکڑ ہارے کی تین منہ مانگی مرادیں پوری کی جائیں۔

سوال: لکڑہارے نے بور کا لڈو کیوں مانگا ؟

جواب: لکڑ ہارے نے بور کا لڈو اسی لئے مانگا تھا کیوں کہ اُسے کافی بڑی زوروں کی بھوک لگی تھی۔

سوال: لکڑ ہارے کی بیوی اُسے کیا مانگنے کےلئے باربار کہتی رہی؟

جواب:لکڑ ہارےکی بیوی اُسے مال ودولت مانگنے کے لئے باربار کہتی رہی۔

سوال: بوڑھے کر نزدیک سب سے بڑی دولت کیا تھی؟

جواب: بوڑھے کے نزدیک سب سے بڑی دولت “ہنسی: یعنی خوشی تھی۔

سوال: اس ڈرامے سے آپ کو کیا سبق حاصل ہوتا ہے؟

جواب: اس ڈرامے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں آپس میں اتحاد وتفاق سے رہنا چاہئیے۔ جلد بازی میں کوئی بھی کا م نہیں کرنا چاہیے، ہمیں ہر کا م سوچ سمجھ کر،کرنا چاہیے ہمیں اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے ماحول کا بھی خیال ہر دم رکھنا چاہیے۔

درج ذیل محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔

پاؤں دھودھو کرپینا نیک اولاد اپنے والدین کے پاؤں دھودھو کر پیتی ہے۔
ڈرکے مارے کانپ اٹھنا آج لوگ کروناوائرس کے خوف کی وجہ سے ڈر کے مارے کانپ رہے ہیں۔‌
منہ دھو رکھنا بغیر منہ دھو کے نماز نہیں ہوتی ہے۔
خاک میں ملنا انسان کو مرنے کے بعد خاک میں ہی ملنا ہے۔
کانٹے بونا ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے نہ کہ کسی کے راستے میں کانٹے بوبے چاہیے۔
بے سرپیراڑنا حق ثابت کرنے کےلے بےسر پیڑ نہیں اڑائے جاتے ہیں۔
پیٹ میں چوہے دوڈنا مجھے اتنی زوروں کی بھوک لگی ہے کہ جیسے پیٹ میں چوہے دوڈرہے ہیں۔

4: اس ڈرامے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

جواب:یہ ڈ رامہ” بور کےلڈو” محمد عمر نور الہی کا تخلیق کردہ ہے اور یہ ڈرامہ ہماری درسی کتا ب”بہارستان اردو” ‘اردو کی دسویں کتاب ‘کے حصہ نثر میں شامل ہے۔ لکڑہارا جوں ہی اپنے گھر پہنچتا ہے وہاں پر لکڑہارے کی بیوی گھر کی صفائی کرتی ہے۔ لکڑہارا جوں ہی لکڑی کی گھڑی نیچے زمیں پررکھتا ہے اور کیچڑ بھرے پیروں سمیت گھر میں داخل ہوتا ہے جس پر میاں بیوی کےبیچ توتو میں میں ہوجاتی ہے۔

لکڑہارے کو زوروں کی بھوک لگتی ہے، وہ بیوی سے کھانا مانگتاہے جس پر بیوی جواب دیتی ہے جس کا شوہر کام چور ہو اس کے گھرمیں بھوک کے سوا اور کیا چیز ہو مل سکتی ہے۔ لکڑہار کہتا ہے میں نے آج جنگل میں جب ایک برگد کے درخت کو کاٹنا چاہا جوںہی میں درخت کاٹنے لگا میں نے ایک ڈراؤنی آ واز سنی۔وہ آ واز مجھ سے کہہ رہی تھی” مجھے نہ کاٹو میں تمھیں انعام دوں گا۔

اسی اثنا میں ایک پیرمرد دروازہ پر دستک دیتا ہوا حا ضر ہوتاہےاور کہتا ہے دروازہ کھولو۔ میں انعام لایا ہوں۔ دونوں میاں بیوں دروازہ کی طرف دوڑتے ہیں پیرِ مرد کہتا ہے کہ مجھے ہریاول کے بادشاہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ تمہاری تین منہ مانگی مرادیں پوری کی جائیں۔پھر دونوں میاں بیوں کے درمیاں تو تو میں میں ہوجاتی ہے کہ پہلے کیا چیز مانگیں اور پھرباقی دو چیزیں کیا مانگیں۔ لکڑہارا کو بہت بھوک پہلے سے لگی ہوئی تھی اور وہ غصےمیں آ کر کہتا ہے مجھےاگر ایک گرما گرمابورکا لڈو مل جائیں یہ کہتےہوئےہی ایک لڈ و اس کے ہاتھ میں آتا ہے۔

بیوی ڈانٹتی ہے جس پر لکڑہا را اپنی دوسری مراد مانگتا ہے کہ یہ لڈ و میری بیوی کے ناک پر چمٹ جائےیہ مراد مانگتے ہی لڈولکڑہارے کی بیوی کے ناک پر چمٹ جاتا ہے جس سےلکڑہارے کی بیوی کو زبردست درد ہوتا ہےلکڑہارا ناک سے لڈوکھینچ کر اٹھانے کی زبردست کوشش کرتا ہے مگر لڈوناک سےاٹھنےکا نام ہی نہیں لیتااور وہ لکڑ ہارےسے کہتی۔کہ آ پ اپنی تیسری مراد بھی مانگےاوروہ تیسری مراد بھی مانگتا ہے کہ میری بیوی کے ناک سے یہ لڈو اٹھ جائےاس طرح ان کی تینوں مرادیں ضائع ہوجاتی ہیں اوروہ دونوں ہاتھ ملتےرہ جاتے ہیں اس ڈ رامے سےہمیں یہ سبق ملتا ہےہمیں اتفاق سے رہنا چاہیے وہ جلد بازی میں کوئی بھی فیصلہ نہیں لیناچاہیے۔

5: جملہ فعلیہ کی ترکیب نحوی

1۔حامد کتاب پڑتا ہے۔

  • پڑھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔فعل ( جملہ فعلیہ خبریہ)
  • حامد۔۔۔۔۔۔۔۔فاعل
  • کتاب۔۔۔۔۔۔مفعول
  • ہے۔۔۔۔۔۔۔حرف ِناقص

2۔بےشک اللہ نیک لوگوں کو نیک بدلہ دے گا

  • دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فعل تام مثبت
  • اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فاعل ( جملہ فعلیہ خبریہ)
  • نیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفت
  • لوگوں ۔۔۔۔۔۔۔۔موصوف(مرکب توصیفی) مفعول
  • کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علامت مفعول
  • نیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفت
  • بدلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔موصوف(مرکب توصیفی) مفعول ثانی)
  • بے شک۔۔۔۔۔متعلق فعل

ترکیب نحوی:

ترکیب نحوی کرنے سے پہلے ہمیں یہ بات ذہن نشیں ہونی چاہیے کہ ہم نے بنیادی گرامرسیکھی ہوئی ہے، تب جا کے ہم اردو کے کسی جملے کی صحیح ترکیب نحوی نکال سکتے ہیں آپ کویاد ہوگاترکیب نحوی کسی جملہ میں اس کے اجزاء کو الگ الگ کرنااور الفاظ کے باہمی تعلقات کو ظاہر کرنا کا نام ہے۔

دھیان رکھنےکی باتیں

جملہ فعلیہ اورجملہ اسمیہ کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے پہلے حروف ، پھر الفاظ کا آپسی تعلق،پھر جاکے جملے کی کیفیت وحالت اور اس کی ترکیب نحوی درست کی جاسکتی ہے۔
جملہ اسمیہ میں پہلے ،فعل ناقص،پھرمبتدایا اسم،پھر”خبر” کا پھر ‘متعلق خبر ‘کا پتہ لگایا جاتا ہے۔
جملہ فعلیہ میں سب سے پہلے’فعل’پھر’فاعل’پھر’مفعول’پھر’متعلقات کاتعین کیا جاتاہے۔
کسی بھی شعر یا مصرعے کی نثر میں تبدیل کر کے ترکیبِ نحوی کی جاتی ہے۔
جملہ اسمیہ کی پہنچان یہ ہے کہ اس میں سبھی الفاظ اسم ہی ہوتے ہیں سوائے فعل ناقص(ہے،ہیں ،تھا ، تھے وغیرہ) الفاط کے۔
مثلاََ احمد بیمار ہے،اس جملہ پرغور کروں،احمد بیمارہےاس جملہ میں احمد ایک شخص کا نام ہے اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے احمد کیسے اسم ہے ہم نے پہلےہی بتا یا ہے کہ کسی بھی اسم کو پہنچاننے کا سپل طریقہ یہ ہے کہ جو بھی کچھ انسان اپنی آنکھوں سے یا جسم سے محسوس یا چھوسکےعموماََ اسم ہی ہوتے ہیں مثلاََ کتاب، ہوا ،سرد،گرم، وغیرہ

جملہ فعلیہ وہ جملہ ہوتا ہے جس میں فعل پایا جائے۔

فعل(verb):

جس سے کسی کام کا کرنا ،ہونا، یا سہنا پایا جائے اس میں کوئی زمانہ بھی پایا جاتا ہے مثلاََ بشیر آیا،نعیم کام کررہا ہے،وغیرہ۔

بناوٹ کے لحاظ سے فعل کی قسمیں

فعل مفرد(simple verb):

ایسے فعل جو مفرد یا مجرد مصادر سے نکلے ہوں جیسے رویا، کھایا، آیا وغیرہ

فعل مرکب(COMPOUND VERB):

ایسے فعل ہوتے ہیں جو دوفعلوں سےمل کر یا اسم اورایک فعل سے مل کر بنتے ہیں جیسےکردیا،کھا چکا،وغیرہ۔

معنی کے لحاظ سے فعل کی قسمیں:

1۔فعل لازم:(TRANSITIVE):

وہ فعل ہوتا ہے جس میں صرف فعل اورفاعل ہوتا ہے مثلاََ بشیر آیا، رام گیا، جانو بھاگا وغیرہ۔

2۔فعل متعدی(INTRANSITIVE ):

یہ وہ فعل ہوتا ہے جس میں فعل کے علاوہ فاعل اور مفعول کی ضرورت پڑتی ہے مثلاََ احمد نے روٹی کھائی، رشید نے کرکٹ کھیلا وغیرہ ؎

3۔فعل ناقص(INCOMPLETE VERB):

یہ وہ فعل ہوتا ہے جو بظاہر لازم معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے کوئی کام ظاہر نہ ہو اور جب تک فاعل کے علاوہ اسم یا صفت ساتھ نہ دے مطلب صاف نہیں ہوتا ہے اس فعل کا فاعل اسم یا مبتدا کہلاتا ہے اور فاعل کے علاوہ جو اسم یا صفت ہو وہ خبر ہے۔
افعالِ ناقصہ : ہے ،ہیں ،تھا،تھے وغیرہ

فاعل کے لحاظ سے فعل کی دو قسمیں : معروف، مجہول

1۔معروف(ACTIVE):

یہ وہ فعل ہوتا ہے جس کا فاعل معلوم ہو جیسے بشیر نے کھانا کھایا، اس جملے میں بشیر فاعل ہے۔

مجہول(PASSIVE):

یہ وہ فعل ہوتا ہے جس کا فاعل معلوم نہ ہو جیسے کتاب پڑھی گئی۔ اس جملےمیں فاعل کاپتہ نہیں ہے۔

جملے کی پہنچان:

کوئی بھی جملہ ،جملہ اسمیہ یا جملیہ فعلیہ ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ جملے کو ایک،دویا تین بارپڑھا جائے۔ جملہ اسمیہ کی نشانی یہ ہے کہ اس کے سبھی الفاظ اسم ہی ہوتے ہیں اس طرح کے جملوں میں اسم، اسم فاعل،اسم مفعول، اسم ظرف ،وغیرہ پائےجاتے ہیں مثلاََ سیار چالاک ہے
مثلاََ سیار چالاک ہے۔
یہ جملہ اسمیہ ہے کیوں کہ ‘سیار’ اسم ہے’چالاک’ اسم صفت اور ‘ہے ‘فاعل ناقص ہے۔
یاد رہے جملہ اسمیہ میں سبھی الفاط اسم ہی ہوتے ہیں سوائے لفظ فعل ناقص کو چھور کر۔

جملہ فعلیہ:

جملہ فعلیہ کو پہنچاننے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی جملے میں فعل ناقص کو چھوڑ کر کوئی اور ایک فعل پائی جائے جملہ فعلیہ کہلاتا ہے۔ پینا، دوڑنا، پڑھنا، کرنا وغیرہ اردو میں جتنے الفاط کے آخرمیں ‘نا: آتا ہے وہ مصدر ہوتے ہیں سوائے چند الفاظ کے مثلاََ نانا،چونا، تانا وغیرہ

جب مصدر کاآ گے والا ‘نا؛ ہٹایا جاتا ہے تو یہ الفاظ فعل امر بن جاتے ہیں مثلاََ پیناسے پی، دوڑنا سے دوڑ، وغیرہ۔

فعل امر کے الفاظ کو کچھ اور حروف آگے جوڑنےسے فعل تام یا دوسری قسم کی فعل بنتے ہیں مثلاََ پی سے پیتا، دوڑ سے پیتا۔ پیتی۔پیتےاوردوڑ سے دوڑتی۔دوڑتے۔دوڑتا ۔دوڑتے وغیرہ۔

3: استاد کی مدد سے مندرجہ ذیل جملوں کی ترکیب نحوی کیجیے۔

  • 1۔حمید میدان میں کھلتا ہے
  • 2۔ لکڑہارا نے خوب کمائی کی
  • 3۔اسلم نے سندلیپ کی مدد کی
  • 4۔ عابد نے کھانا کھایا

جواب:1- حمید میدان میں کھیلتا ہے۔

یاد رہے یہ جملہ لفظ ‘کھیلتا’ سے پتہ چلتہ ہے جملہ فعلیہ ہے کیوں کہ لفظ کھیلتا،مصدرکھیلنا سے بنا ہے اور کھیلنا سےکھلتا ، کھیلتی، کھیلتے وغیرہ افعال بنتے ہیں۔

  • کھیلتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فعل تام
  • حمید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسم/مبتدا
  • میدان۔۔۔۔۔۔۔۔مجرور
  • میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔حرف جار( میدان میں) مرکب جاری/مفعول جملہ فعلیہ خبریہ
  • ہے۔۔۔۔۔۔۔۔فعل ناقص

2،۔لکڑہارا نے خوب کمائی کی۔

  • کمائی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔فعل مرکب/فعل تام ۔ ۔جملہ فعلیہ خبریہ
  • لکڑہارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فاعل
  • نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔علامت فاعل؎
  • خوب۔۔۔۔۔۔۔صفت

3۔اسلم نےسندلیپ کی مدد کی۔

  • مدد کی۔۔۔۔۔۔۔فعل مرکب/فعل تام ۔۔جملہ فعلیہ خبریہ
  • اسلم ۔۔۔۔۔۔۔فاعل
  • نے۔۔۔۔۔۔علامت فاعل
  • سندلیپ۔۔۔۔مفعول
  • کی ۔۔۔۔۔۔۔علامت مفعول

4۔ عابد نے کھانا کھایا۔

  • کھایا۔۔۔۔۔۔فعل تام
  • عابد۔۔۔۔۔۔۔فاعل
  • نے ۔۔۔۔۔علامت فاعل۔۔۔ جملہ فعلیہ خبریہ
  • کھانا۔۔۔۔۔مفعول

سوال :نور عمر الٰہی کی حالات زندگی اور خدمات پر روشنی ڈالیے۔

جواب:محمد عمر الٰہی اصل میں دو ادبی شخصیات کا ایک ہی مشترکہ ادبی نام ہے اور اردو زبان و ادب میں اسی نام سے جانے و پہنچانے جاتے ہیں۔ ان دونوں کی حالاتِ الگ الگ ہیں۔

محمدعمرکی حالات زندگی:

محمدعمر کی پیدائش جموں میں 1882ء میں ہوئی۔ بچپن میں ہی باپ کا سایہ اُٹھ گیا۔پھر آپ کی پرورش آپ کی بے اولاد خالہ نے کی۔1905ء میں رنیر ہائی اسکول سے میڑک کا امتحان اعزازی نمبرات کے ساتھ پاس کیا۔مزید تعلیم حاصل کرنےکےلیے لاہور چلے آئے۔ 1908ءمیں جمو ںمیں جموں کشمیر ہائی کورٹ میں مترجم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سرکاری نوکری کے دوران بھی اپنی تعلیم جاری رکھ کے منصفی کی اعزازی سند حاصل کی۔اس کے بعد بطورِجج کے عہدے پرگیارہ سال تک اپنے فرائض انجار دیتے رہے۔ جج کے عہدے سے رٹائر ہونے کے بعد وکالت شروع کی۔1946ءآپ اس فانی دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیےچھوڑ گئے۔

نورالٰہی حالات ِزندگی:

نور الٰہی کی پیدائش 1883ءمیں لاہور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں سے حاصل کی۔گورنمنٹ کالج لاہور سےبی اےکیا۔آپ کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی تھے اسی لئے مہاراجہ پرتاب سنگھ نے آپ کو کرکٹ میں شامل کیا۔تعلیم سے دستبردار ہوکے مہاراجہ سنگھ کے دربار میں ملازمت اختیار کی۔آپ پہلے کسٹم وابکاری میں تعینات ہوئے۔ پھر ترقی کرتے کرتے تحصیلدار اورپھر ڈپٹی کمشنر کے عہدےتک پہنچے۔قدرت الٰہی نے ایک بارپھر آپ کولاہور پہنچایا ۔وہاں پر کافی عرصے تک بیماررہے۔ بالآخر آپ کا انتقال17اپریل1935ءکو لاہور میں ہی ہوا۔

ادبی خدمات:

ان دونون شخصیتوں کی ملاقات لاہور میں طالبِ علمی کے زمانے میں ہوئی تھی اور آپس میں ایک دوسرے کے گہرے دوست بن گئے تھے جو بعد میں رشتہ داری میں بدل گئی۔یہ دونوں جب بھی کوئی ادبی کا م انجام دیتے تھے آپس میں رابط رکھتے تھے۔ دونوں ادیبوں نے کئی ادبی کارنامے انجام دیے۔ ان کے تما م ادبی کام مشترکہ قلمی نام سے شائع ہوتے تھے یہاں تک کہ منشی نورالٰہی کا انتقال ہوا۔ محمد عمر نے اپنی تمام تصنیفات مشترکہ قلمی نام کے ساتھ شائع کئے۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ”ناٹک ساگر” کی تالیف ہے۔ اس ڈرامے کو عالمی تاریخ اور تنقید قرار دیا جاسکتا ہے۔