نظم جگنو کی تشریح

0

تعارف شاعر

علامہ اقبال ۹ نومبر کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم مکتب میں ہوئی۔ آپ نے لاہور کے کالج سے بی اے اور فلسفہ ایم اے کیا۔ آپ انگلستان میں تین سال رہے۔ اس دوران آپ نے وہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ ان کو عربی، فارسی، انگریزی اور اردو زبان پر عبور حاصل تھا۔ اقبال اردو اور فارسی کے مشہور اور اعلیٰ پایہ شاعر ہیں۔ آپ کے آباؤ اجداد کشمیر سے سیالکوٹ جابسے۔ آپ کا انتقال ۱۹۳۸ میں ہوا اور آپ کو لاہور شاہی مسجد میں دفن کیا گیا۔

نظم جگنو کی تشریح

کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ وہ چمن جہاں بہت سے کیڑے اور حشرات موجود ہوں وہاں جگنو کی روشنی اسے سب میں منفرد بناتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پھولوں کے باغ میں ایک شمع جل رہی ہے۔

آیا ہے آسمان سے اڑ کر کوئی ستارہ
یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جگنو کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آسمان سے کوئی ستارہ آگیا ہو یا چاند کی کرن میں جان آگئی ہو اور وہ یہاں وہاں اڑ رہی ہو۔

یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا
غربت میں آکے چمکا گمنام تھا وطن میں

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جگنو کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے رات کی بادشاہی میں کوئی دن کا سفیر آگیا ہے یعنی وہ بالکل الگ سا محسوس ہوتا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جو اس جگہ آکر چمک رہی ہے اور اپنے وطن میں یہ گمنام سی شے تھی۔

تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جگنو کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے چاند کے پاس کسی کپڑے کا ایک بٹن ٹوٹ کر نیچے آگرا ہے یا پھر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ چیز سورج کے لباس کا ایک نمایاں حصہ ہے۔

حسن قدیم کی اک پوشیدہ یہ جھلک تھی
لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ کہ جگنو تو اللہ کی صرف ایک ہی تخلیق ہے جو خوبصورت تخلیقوں کی مثال بھی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے قدرت نے خیالی دنیا سے جگنو کو اس دنیا میں بھیج دیا ہو۔

چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی
نکلا کبھی گہن سے آیا کبھی گہن میں

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ چاند بہت چھوٹا ہوتا ہے لیکن اس میں روشنی اور اندھیرا دونوں موجود ہوتے ہیں اور اسی طرح دنیا کی ہر شے میں اچھائی اور برائی موجود ہے۔ شاعر کہتے ہیں چاند کبھی گہن میں چلا جاتا ہے اور کبھی گہن سے نکل آتا ہے یعنی کبھی وہ ہمیں روشنی فراہم کرتا ہے اور کبھی اندھیرا۔

پروانہ اک پتنگا، جُگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ پروانہ اور جگنو دونوں ہی پتنگے ہیں لیکن پروانہ وہاں ہوتا ہے جہاں روشنی ملے اسے اور جگنو جہاں جاتا ہے ہر جگہ روشنی لے کر جاتا ہے۔ یعنی سب اللہ کی ہی تخلیق ہے لیکن ایک دوسرے بالکل الگ ہے۔

ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانے کو تپش دی، جُگنو کو روشنی دی

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اگر پروانے کے پاس روشنی نہیں تو وہ کم تر ہوگیا بلکہ ہر چیز کو اللہ نے ایک الگ خصوصیت سے نوازا ہے جیسے جگنو کو روشنی دی ہے تو پروانے کو تپش دی ہے۔

رنگیں نوا بنایا مُرغانِ بے زباں کو
گُل کو زبان دے کر تعلیمِ خامشی دی

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اللہ نے بےزبان پرندوں کو خوبصورت بنایا ہے اور پھول بےزبان ہے لیکن وہ محبت کی نشانی ہے اور وہ بات کرسکتا ہے۔

نظّارۂ شفَق کی خوبی زوال میں تھی
چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ سورج جب غروب ہونے لگتا ہے یعنی جب اسے زوال آنے لگتا ہے وہی وقت اس کی خوبصورتی کا ہوتا ہے تو اس خوبصورتی  کو اللہ نے چمکا دیا اور اسے تھوڑی زندگی دے دی کہ لوگ ان منظر سے لطف اندوز ہوسکیں۔

رنگیں کِیا سحَر کو، بانکی دُلھن کی صورت
پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ پھر اللہ نے صبح کو دلہن کی طرح لال جوڑا پہنا کر خوبصورت و رنگیں بنادیا اور شبنم بھی گرنے لگی جس سے خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے۔

سایہ دیا شجَر کو، پرواز دی ہوا کو
پانی کو دی روانی، موجوں کو بے کلی دی

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اللہ نے درخت کو سایہ عطا کیا اور ہوا کو پرواز عطا کی۔ پانی کو روانی دی اور موجوں کو بےکلی دی یعنی ہر چیز کو کچھ نہ کچھ خاصیت عطا کی۔

یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری
جُگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جگنو اور ہم میں ایک فرق یہ ہے کہ جو ہمارے لیے رات ہے وہ جگنو کے لیے دن ہے کیونکہ دن کی روشنی میں تو جگنو کی روشی چھپ جاتی ہے جب کہ رات کے اندھیرے میں ہی وہ اپنی روشنی کو محسوس کرسکتا ہے۔

حُسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ قدرت کی ہر تخلیق میں اس کی خوبصورتی نظر آتی ہے جیسے کہ انسانوں کی گفتگو انھیں خوبصورت بناتی ہے اور پھولوں کا رنگ انھیں خوبصورت بناتا ہے۔

یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہے جو کچھ، یاں درد کی کسک ہے

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ چاند کا آسمان میرے دل جیسا ہے کیونکہ وہاں جتنی چاندنی ہے میرے دل میں درد کی اتنی ہی کسک موجود ہے اور وہاں چاند اور یہاں میرا دل دونوں ہی بالکل تنہا ہیں۔

اندازِ گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بُوئے بُلبل، بُو پھول کی چہک ہے

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ گفتگو کے انداز نے ہمیں دھوکے دیے ہیں ورنہ پھول میں تو صرف خوشبو ہھ اور بلبل تو گیت بھی گاتی ہے  لیکن لوگ پھولوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔

کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جُگنو میں جو چمک ہے، وہ پھول میں مہک ہے

تشریح :

اس شعر میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اب قدرت نے ہر چیز کو واحدانیت دی ہے اس کی بہت سی مثالیں میں نے دے دی ہیں اور ایک مثال یہ بھی ہے کہ جگنو کی چمک اسے خاص بناتی ہے تو پھول کی مہک اسے خاص بناتی ہے۔

یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشیِ ازل ہو

تشریح :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب ہر شے ایک دوسرے سے مختلف ہے تو اس بات پر ہنگامے کیوں ہوں کہ کون زیادہ بہتر ہے جب کہ قدرت نے ہر شے کو خاموشی سے ایک خاصیت عطا کردی ہے۔ اور قدرت خود بھی اس بات پر خاموش ہے کہ کون زیادہ بہتر ہے۔

مشق :

۱) نظم جگنو کا خلاصہ مختصر الفاظ میں کیجیے :

تعارف : علامہ اقبال ۹ نومبر کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم مکتب میں ہوئی۔ آپ نے لاہور کے کالج سے بی اے اور فلسفہ ایم اے کیا۔ آپ انگلستان میں تین سال رہے۔ اس دوران آپ نے وہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ ان کو عربی، فارسی، انگریزی اور اردو زبان پر عبور حاصل تھا۔ اقبال اردو اور فارسی کے مشہور اور اعلیٰ پایہ شاعر ہیں۔ آپ کے آباؤ اجداد کشمیر سے سیالکوٹ جابسے۔ آپ کا انتقال ۱۹۳۸ میں ہوا اور آپ کو لاہور شاہی مسجد میں دفن کیا گیا۔

خلاصہ :

اس نظم میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ وہ چمن جہاں بہت سے کیڑے اور حشرات موجود ہوں وہاں جگنو کی روشنی اسے سب میں منفرد بناتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پھولوں کے باغ میں ایک شمع جل رہی ہے۔

شاعر کہتے ہیں کہ جگنو کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آسمان سے کوئی ستارہ آگیا ہو یا چاند کی کرن میں جان آگئی ہو اور وہ یہاں وہاں اڑ رہی ہو۔ شاعر کہتے ہیں کہ جگنو کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے رات کی بادشاہی میں کوئی دن کا سفیر آگیا ہے یعنی وہ بالکل الگ سا محسوس ہوتا ہے۔

شاعر کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جو اس جگہ آکر چمک رہی ہے اور اپنے وطن میں یہ گمنام سی شے تھی۔ شاعر کہتے ہیں کہ کہ جگنو تو اللہ کی صرف ایک ہی تخلیق ہے جو خوبصورت تخلیقوں کی مثال بھی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے قدرت نے خیالی دنیا سے جگنو کو اس دنیا میں بھیج دیا ہو۔

شاعر کہتے ہیں کہ پروانہ اور جگنو دونوں ہی پتنگے ہیں لیکن پروانہ وہاں ہوتا ہے جہاں روشنی ملے اسے اور جگنو جہاں جاتا ہے ہر جگہ روشنی لے کر جاتا ہے۔ یعنی سب اللہ کی ہی تخلیق ہے لیکن ایک دوسرے بالکل الگ ہے۔

شاعر کہتے ہیں کہ پھر اللہ نے صبح کو دلہن کی طرح لال جوڑا پہنا کر خوبصورت و رنگیں بنادیا اور شبنم بھی گرنے لگی جس سے خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اللہ نے درخت کو سایہ عطا کیا اور ہوا کو پرواز عطا کی۔ پانی کو روانی دی اور موجوں کو بےکلی دی یعنی ہر چیز کو کچھ نہ کچھ خاصیت عطا کی۔

شاعر کہتے ہیں کہ جب ہر شے ایک دوسرے سے مختلف ہے تو اس بات پر ہنگامے کیوں ہوں کہ کون زیادہ بہتر ہے جب کہ قدرت نے ہر شے کو خاموشی سے ایک خاصیت عطا کردی ہے۔ اور قدرت خود بھی اس بات پر خاموش ہے کہ کون زیادہ بہتر ہے۔

۲) تشریح کیجیے :

شعر :

رنگیں نوا بنایا مُرغانِ بے زباں کو
گُل کو زبان دے کر تعلیمِ خامشی دی

تشریح :

اس شعر میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اللہ نے بےزبان پرندوں کو خوبصورت بنایا ہے اور پھول بےزبان ہے لیکن وہ محبت کی نشانی ہے اور وہ بات کرسکتا ہے۔

شعر :

ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانے کو تپش دی، جُگنو کو روشنی دی

تشریح :

اس شعر میں علامہ اقبال یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اگر پروانے کے پاس روشنی نہیں تو وہ کم تر ہوگیا بلکہ ہر چیز کو اللہ نے ایک الگ خصوصیت سے نوازا ہے جیسے جگنو کو روشنی دی ہے تو پروانے کو تپش دی ہے۔

۳) شاعر نے یہ کیوں کہا ہے؟

حُسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے

جواب : علامہ اقبال نے اس لیے کہا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں واحدانیت ہے۔ ہر چیز دوسری چیز سے الگ ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خصوصیت اسے نمایاں بناتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ قدرت کی ہر تخلیق میں اس کی خوبصورتی نظر آتی ہے جیسے کہ انسانوں کی گفتگو انھیں خوبصورت بناتی ہے اور پھولوں کا رنگ انھیں خوبصورت بناتا ہے۔

۴) وحدت میں کثرت سے کیا مراد ہے؟

جواب : وحدت میں کثرت سے مراد ہے کہ یکسانیت کی بہت سی مثالیں دی جاچکی ہیں۔

۵) ان اشعار میں سے تشبیہ تلاش کیجیے :

تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں
رنگیں کِیا سحَر کو، بانکی دُلھن کی صورت
پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی
  • تکمہ : جگنو
  • لال جوڑا : شفق پر پھیلی لالی