نظم اولوالعزمی کی تشریح سوالات و جوابات

0

تعارف شاعر

محمد حسین آزاد دلی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مولوی محمد باقر تھا۔ اردو زبان کا پہلا اخبار ”اردو اخبار“ مولوی محمد باقر نے ہی دلی سے نکالا تھا۔ آزاد نے عربی و فارسی کی تعلیم دلی کالج سے حاصل کی۔ آپ کی تحریک پر انجمن پنجاب لاہور کے زیرِ اہتمام ایک نئی  طرح کے مشاعرے کی بنیاد رکھی گئی جو ہر مہینے منعقد ہوتا تھا۔ اسی انجمن کے تحت انگریزی کتابوں کی طرز پر کتابیں لکھی جانے لگیں۔ ان میں آزاد کی نیرنگِ خیال بہت اہم ہے۔ شب قدر ، موسمِ زمستان، صبح امید، حُب وطن وغیرہ اس طرز کی نظمیں ہیں۔ آپ کی مشہور تصنیف آبِ حیات ہے۔ اردو شاعری کی تاریخ میں یہ کتاب سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

نظم اولوالعزمی کی تشریح

ہے سامنے کھلا ہوا میداں چلے چلو
باغِ مراد ہے ثمر افشاں چلے چلو
دریا ہو بیچ میں کہ بیاباں چلے چلو
ہمت یہ کہہ رہی ہے کھڑی ہاں چلے چلو
چلنا ہی مصلحت ہے مری جاں چلے چلو

تشریح :

اس نظم میں شاعر ہمت و سربلندی کی اہمیت بتارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے انسان تمھارے سامنے پورا میدان خالی ہے ، تم جاؤ اور فتح یاب ہوجاؤ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر تمھارے پاس مرادوں اور خواہشات کا ایک باغ موجود ہے جو تم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمھیں محنت کرنی پڑے گی۔ وہ کہتے ہیں اب تمھیں محنت اور جنگ کرنے کے لیے دریا عبور کرنا پڑ جائے یا بیاباں اس سے فرق نہیں پڑتا بس تمھیں اب رکنا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں سامنے دیکھو تمھاری ہمت تمھیں کہہ رہی ہے کہ تمام رکاوٹوں کا پار کرتے چلے جاؤ کیونکہ چلنے میں ہی مصلحت ہے بغیر چلے یعنی بغیر جنگ کیے تم اپنے حق کو حاصل نہیں کرسکتے۔

ہمت کے شہسوار جو گھوڑے اٹھائیں گے
دشمن فلک بھی ہوں گے تو سر کو جھکائیں گے
طوفان بلبلوں کی طرح بیٹھ جائیں گے
نیکی کے زور اٹھ کے بدی کو دبائیں گے
بیٹھو نہ تم مگر، کسی عنواں چلے چلو

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب بہادر لوگ ہمت کے ساتھ گھوڑوں پر شہسواری کرتے ہوئے جنگ پر نکلیں گے تو دشمن چاہے فلک جتنا بلند ہی کیوں نہ ہو  اسے جھکنا ہی پڑے گا۔ چاہے پھر سامنے کتنے ہی طوفان کیوں نا سر اٹھائے کھڑے ہوں سب بلبلوں کی طرح بیٹھ جائیں گے۔ شاعر کہتے ہیں کہ جب نیکی زور و شور سے کھڑی ہوجائے گی تو وہ بدی کو دبا دے گی۔ شاعر کہتے ہیں کہ اب بیٹھنے کا وقت نہیں رہا ہے اب تم بیٹھو مت بلکہ اٹھ کر کسی طرف کو چلنا شروع کردو۔

رکھو رفاہِ قوم پہ اپنا مدار تم
اور ہو کبھی صلے کے نہ امید وار تم
عزت خدا جو دیوے تو پھر کیوں ہو خوار تم
دو رُخ کو آبِ فخر سے رنگ بہار تم

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اپنی قوم کی خوشی اور اس کی کامیابی کو ہی تم اپنا مدار رکھو یعنی جو کام کرو اپنی قوم کی بھلائی کے لیے کرو۔ شاعر کہتے ہیں کہ قوم کی بھلائی کے کام کرنے کے بعد تم کبھی بھی اس کے صلے کی امید نہ کرو، تم کبھی یہ نہ سوچو کہ تمھیں لوگوں سے بدلہ ملے گا بلکہ ایسے لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ عزت سے نوازتے ہیں تو جب اللہ تمھیں عزت سے نواز رہے ہیں تو تمھیں کسی اور سے بدلہ کیوں چاہیے۔ شاعر کہتے ہیں کہ  تمھاری بہادری کی وجہ سے سب کو تم پر فخر ہے۔

آؤ سفید و سیاہ کا فعل حساب ہے
چمکایا چہرہ صبح نے باآب و تاب ہے
ظلمت پہ نور ہونے لگا فتحیات ہے
اور شب کے پیچھے تیغ بہ کیف آفتاب ہے
تم بھی ہو آفتابِ درخشاں چلے چلو

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اب سفید و سیاہ یعنی گناہ و ثواب کا حساب ہوگا۔ شاعر کہتے ہیں جب سفید و سیاہ کا حساب ہوگا تو سورج اپنی آب و تاب سے صبح کے چہرے کو چمکانے لگے گا یعنی ہر طرف روشنی ہی روشنی ہوگی۔ کیونکہ اس دن ظلم کے اندھیروں پر نور کو فتحیابی حاصل ہوگی۔ اور شاعر کہتے ہیں کہ ہر رات کے پیچھے صبح کا اجالا چھپا ہوتا ہے یعنی ہر ظلم کے پیچھے انصاف کی روشنی بھی ہوتی ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ تم بھی آسمان پر چمکنے والے سورج کی طرح ہی ہو جو ہر چیز کو روشن کردیتا ہے۔ اس لیے تم رکو مت اور چلتے رہو۔

نیکی بدی کے دیر سے باہم تھے معرکے
اب خاتموں پہ آگئے ہیں ان کے فیصلے
قسمت کے یہ نوشتے نہیں جو نہ مٹ سکے
وہ گونجا طبلِ فتح کہ میدان کے لیے
کرنائے جنگ کی ہے یہ الحاں چلے چلو

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ نیکی اور بدی کے آپس میں بہت وقت سے معرکے یعنی لڑائی جھگڑے چل رہے تھے اور اب ان جھگڑوں کا اختتام ہونے کو ہے۔ اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچنے کو ہے۔ شاعر کہتے ہیں یہ نیکی اور بدی قسمت میں لکھی جاچکی شے نہیں جو ختم نہ ہوسکے یعنی نیکی و بدی انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ شاعر کہتے ہیں دیکھو جنگ کے میدان میں فتح یابی کا طبل ابھی سے گونج رہا ہے اب ہمیں جنگ کرنی چاہیے اور جنگ کا اعلان کرتے ہوئے چلتے رہنا چاہیے۔

  • مشق :

۱) اس نظم کا موضوع کیا ہے؟

جواب : اس نظم کا موضوع اعلیٰ ہمتی ہے۔

۲) اس نظم کا خلاصہ بیان کیجیے :

تعارف شاعر

محمد حسین آزاد دلی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مولوی محمد باقر تھا۔ اردو زبان کا پہلا اخبار ”اردو اخبار“ مولوی محمد باقر نے ہی دلی سے نکالا تھا۔ آزاد نے عربی و فارسی کی تعلیم دلی کالج سے حاصل کی۔ آپ کی تحریک پر انجمن پنجاب لاہور کے زیرِ اہتمام ایک نئی  طرح کے مشاعرے کی بنیاد رکھی گئی جو ہر مہینے منعقد ہوتا تھا۔ اسی انجمن کے تحت انگریزی کتابوں کی طرز پر کتابیں لکھی جانے لگیں۔ ان میں آزاد کی نیرنگِ خیال بہت اہم ہے۔ شب قدر ، موسمِ زمستان، صبح امید، حُب وطن وغیرہ اس طرز کی نظمیں ہیں۔ آپ کی مشہور تصنیف آبِ حیات ہے۔ اردو شاعری کی تاریخ میں یہ کتاب سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

نظم اولو العزمی کا خلاصہ

اس نظم میں شاعر ہمت و سربلندی کی اہمیت بتارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے انسان تمھارے سامنے پورا میدان خالی ہے ، تم جاؤ اور فتح یاب ہوجاؤ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر تمھارے پاس مرادوں اور خواہشات کا ایک باغ موجود ہے جو تم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمھیں محنت کرنی پڑے گی۔ وہ کہتے ہیں اب تمھیں محنت اور جنگ کرنے کے لیے دریا عبور کرنا پڑ جائے یا بیاباں اس سے فرق نہیں پڑتا بس تمھیں اب رکنا نہیں ہے۔

شاعر کہتے ہیں کہ جب بہادر لوگ ہمت کے ساتھ گھوڑوں پر شہسواری کرتے ہوئے جنگ پر نکلیں گے تو دشمن چاہے فلک جتنا بلند ہی کیوں نہ ہو  اسے جھکنا ہی پڑے گا۔ شاعر کہتے ہیں کہ اپنی قوم کی خوشی اور اس کی کامیابی کو ہی تم اپنا مدار رکھو یعنی جو کام کرو اپنی قوم کی بھلائی کے لیے کرو۔

شاعر کہتے ہیں کہ قوم کی بھلائی کے کام کرنے کے بعد تم کبھی بھی اس کے صلے کی امید نہ کرو، تم کبھی یہ نہ سوچو کہ تمھیں لوگوں سے بدلہ ملے گا بلکہ ایسے لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ عزت سے نوازتے ہیں تو جب اللہ تمھیں عزت سے نواز رہے ہیں تو تمھیں کسی اور سے بدلہ کیوں چاہیے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اب سفید و سیاہ یعنی گناہ و ثواب کا حساب ہوگا۔

شاعر کہتے ہیں جب سفید و سیاہ کا حساب ہوگا تو سورج اپنی آب و تاب سے صبح کے چہرے کو چمکانے لگے گا یعنی ہر طرف روشنی ہی روشنی ہوگی۔ شاعر کہتے ہیں دیکھو جنگ کے میدان میں فتح یابی کا طبل ابھی سے گونج رہا ہے اب ہمیں جنگ کرنی چاہیے اور جنگ کا اعلان کرتے ہوئے چلتے رہنا چاہیے۔

۳) اس نظم کا کونسا شعر آپ کو پسند ہے؟

جواب : ہمت کے شہسوار جو گھوڑے اٹھائیں گے
دشمن فلک بھی ہوں گے تو سر کو جھکائیں گے
طوفان بلبلوں کی طرح بیٹھ جائیں گے
نیکی کے زور اٹھ کے بدی کو دبائیں گے
بیٹھو نہ تم مگر، کسی عنواں چلے چلو