عرشؔ صہبائی کی غزلیں تشریح، سوالات و جوابات

0

غزل نمبر ایک

کون سا وہ زخمِ دل تھا جوتروتازہ نہ تھا
زندگی میں اتنےغم تھے جن کا اندازہ نہ تھا

تشریح :

یہ شعر عرشؔ صہبائی کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ مجھے اس زندگی میں اتنے غم ملے ہیں کہ اُن کا حساب کرنا مشکل ہے۔ میرا دل ہر ایک غم کا درد ہرگھڑی اور ہر وقت محسوس کرتا رہتاہے۔

ہم نکل سکتے بھی تو کیوں کرحصار ِ ذات سے
صرف دیواریں ہی دیواریں تھیں دروازہ نہ تھا
  • حصارِ ذات:اپنے وجود کی چار دیواری

تشریح:

یہ شعرعرشؔ کی ایک غزل سے لیا گیا ہے اس شعر میں شاعر صوفیہ کا نظریہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں اورانسانی وجود کو ایک مکان سے مشاہبت دے دیتا ہے اور کہتے ہیں جس طرح ایک گھر کی کھڑکیاں و دروازے ہوتے اور دروازے سے ایک انسان کا آنا جانا رہتا ہے اسی طرح انسانی وجود کے جوسات سراغ ہیں ان کو گھر کی کھڑکیوں سے تشبیہ دیتا ہے، جس طرح ایک گھر کا دروازہ ہوتا ہے مگراس طرح انسانی جسم کا کوئی دروازہ نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو انسان اس دروازہ سے نکل کر کسی بھی مقا م تک آناََ فاناََ میں پہنچ جاتا۔

اُس کی آنکھوں سے نمایاں تھی محبت کی چمک
اُس کے چہرے پر نئی تہذیب کا غازہ نہ تھا
  • غازہ :خوشبو دار پاؤڈر ( ایک قسم کاخوشبودار گلابی سفوف جو عورتیں خوبصورتی کے لیے رخساروں پر ملتی ہیں

تشریح :

یہ شعرعرشؔ کی ایک غزل سے لیا گیا ہے، اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے محبوب کی آنکھوں سے محبت کی چمک ودمگ نہایت نمایاں تھی، اوپر سے میرے محبوب کے چہرے پر کوئی مغر بی طرز کا کوئی بناؤ سنگار نہ تھا۔

عرشؔ اُن کی جھیل سی آنکھوں کا اس میں کیا قصور
ڈوبنے والوں کوگہرائی کا اندازہ نہ تھا

تشریح :

اس مقطع والے شعرمیں شاعر فرماتے ہیں کہ میرے محبوب کی آنکھیں ایک خوبصورت گہرےجھیل جیسی ہیں اگر غفلت سے کوئی فریفتہ ہوکر ان جھیل جیسی آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے تو وہاں سے واپس لوٹ آ کےکنارے تک پہنچ پانا مشکل ہے۔

غزل نمبر 2

ہرایک رنگ میں کاٹیں گے ہم سز ا ہی سہی
یہ زندگی کسی مفلس کی بد دُعا ہی سہی

تشریح:

یہ شعر عرشؔ کی ایک غزل سے لیا گیا ہے، اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ مجھے اس زندگی میں صر ف غم ہی غم ملے ہیں کبھی راحت یا آرام کے دو پل بھی نصیب نہ ہوئے جیسے لگتا ہےکہ یہ زندگی میری جیسے کسی لاچارو مجبورزدہ انسان کی بد دعا ہے۔

نہ اس کو بھول کہ میں نے تجھے کیا تخلیق
یہ اور بات ہے تو وقت کا خدا ہی سہی
  • تخلیق : پیدا کرنا

تشریح :

یہ شعرعرشؔ کی ایک غزل سے ماخوذ ہے ، اس شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کا وعدہ انسان کو یاد دلاتا ہے کہ اے انسان تجھے اللہ نے ہی پیدا فرما دیا ہے۔ تجھے اُسی کا کہنا اور اسی وحدہ لاشریک خدا کی عبادت کرنی چاہئے تھی، مگر افسوس تو نے یہاں آکر اور خدا بنالیے اور خود بھی یہ دعویٰ میں وقت حاضر میں پیش پیش رہتا ہے۔

یہی بہت ہے کہ مجھ پر تری توجہ ہے
تری نگاہ کا اندازہ دوسرا ہی سہی
  • توجہ: دھیان
  • نگاہ: نظر

تشریح :

عرشؔ اس غزل کے شعر میں اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے محبوب مجھے ساری کائنات کی خوشیاں مل چکی ہیں کیوں کہ تمہاری نظرِ کرم اب مجھ پر ہوتی ہے یہی میرے لئے سب سے بڑ ی دولت ہے اگرچہ تمہاری نظروں میں میرے لئے بغاوت و نفرت اورعداوت ہی دِکھتی ہیں پھربھی میں اسے اپنے لئے تیرا کرم ہی سمجھتا ہوں۔

وہ میری روح میں تحلیل ہوچکا ہےعرشؔ
اگر وہ مجھ سے جدا ہے، چلو جدا ہی سہی

تشریح:

اس مقطع والے شعرمیں عرشؔ فرماتے ہیں کہ روحانی طور پر میرا محبوب میری روح کے ساتھ گُھل مل کرضم ہوچکا ہے اگرچہ دنیا طور وہ مجھ سے دور ہی رہتا ہے۔

3: سوالات

سوال: صہبائی کی حیات اور شاعری پر نوٹ لکھیے۔

حالاتِ زندگی:

عرشؔ صہبائی نے اپنی آنکھیں پہلی بار سرزمیں جموں وکشمیر،تحصیل اکھنو کے ایک گاؤں سہری میں 6 ستمبر 1930ٰء میں کھولیں۔آپ کا بنیادی اسمِ گرامی ہنس راج ابرول ہے اور تخلص عرش صہبائی کیا کرتے ہیں۔ ابھی آپ صرف 22 دن کے ہوئے تھے کہ ماں کا انتقال ہوگیا۔ ننہال والوں نے7 سال تک پرورش کی۔ 7 سال گذارنے کے بعد پھر اپنےگھر لوٹ آئے رنبیرگورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیکردسویں کاامتحان پاس کیا مزید تعلیم حاصل کرنے کےلئے جموں کالج میں داخلہ لیا ۔آگے کی تعلیم جاری نہ رکھ سکے ۔ ریڈیو کشمیر جموں(آج کا آل انڈیا ریڈیو جموں) میں نوکری حاصل کی اور اسی ریڈیواسٹیشن سے سبکدوشی بھی حاصل کی۔

شاعری :

یوں تو شاعری کا ذوق بچپن سے ہی تھا۔ عبد اللہ نامی ایک استاد جس کی تعیناتی گورنمنٹ رنبیرہائی اسکول میں تھی جس سے اس کی شاعر ی نکھرنے وسنورنے لگی لیکن اپنی شاعری کا باقاعدہ آغاز 1951ء میں پٹھانکوٹ کے ایک مشاعرے میں اپنی ایک غزل سناکے کی۔ اردو کی ہر اصناف پر طبع آزمائی کی لیکن زیادہ تر شعری تخلیقات کا حصہ غزلوں پرمشتمل ہے۔ آپ کی زبان صاف اور رواں ہے ، سادگی آپ کے کلام کا جوہر ہے۔ آپ کی غزلیں تاثیر سے لب ریز ہیں، اب تک آپ کے “شکستِ جام “،شگفتِ گل”، اور “صلیب” مجموعےشائع ہوچکے ہیں۔ ” شگفتِ گل” کو کلچرل اکاد می کی طرف سے انعام بھی ملا۔

سوال: شاعرنے حصار ِ ذات سے نکل نہ سکنے کیا وجہ بتائی ہے؟

جواب: شاعر نے حصارِ ذات سے نہ نکلنے کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی ہے کہ انسانی وجود ایک ایسےگھر کے مانند ہے جس کی تو چاروں اطراٖ ف دیواریں ہیں مگر گھر کے جیسا انسانی جسم کا کوئی دروازہ نہیں ہے۔

سوال: دوسری غزل کےمقطع کی تشریح کیجیے۔

وہ میری روح میں تحلیل ہوچکا ہے عرشؔ
اگر وہ مجھ سے جدا ہے، چلو جدا ہی سہی
  • تحلیل : ضم ہونا 
  • گُھل مل جانا

تشریح

اس مقطع والے شعر میں عرش فرماتے ہیں کہ روحانی طور پر میرا محبوب میری روح کے ساتھ گُھل مل کر ضم ہوچکا ہے اگرچہ جسمانی طور پر وہ مجن سے دور ہی رہتا ہے۔