خوشامد ، خلاصہ، سوالات و جوابات

0

سوال: سرسید احمد خان کی حالات زندگی اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالیے۔

حالات زندگی:

سرسید احمد خان کی پیدائش 17اکتوبر1817ء میں دہلی کے ایک معزز خاندان میں ہوئی آپ کا اصلی نام سرسید احمد خان تھا اور سر خطاب تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے زمانے کے مشہو ر اہل کمال سے عربی اور فارسی زبانوں میں حاصل کیں۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1839 ء؁ انگریزی سرکار کے ملازم مقر ر ہوئے اور اس سلسلے میں مختلف شہروں میں ان کی تقرری ہوئی رہی۔ اپنی لیاقت اور قابلیت کی وجہ سے جج کے عہدے تک پہنچ گئے1862ء؁ میں جب آپ غازی پور چلے آئے تو یہاں پر سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک انجمن قائم کردی جس کا مقصد اہل وطن کو مختلف علوم وفنون سے روشناس کرانا تھا علی گڑھ میں 1857ء؁میں ایک اسکول کھولایہ اسکول 1858ؔء؁ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، پھر 1920ء؁ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہندوستان کی ایک نمایاں تعلیمی ادارہ بن گیاآخری عمر تک اس کالج کی ترقی کے لیے کا م کرتے رہے اور آخر کا ر1898 ء؁ میں علی گڑھ میں اللہ کو پیارے ہوگئے اورو ہیں کالج جو اس کے مرنے کے بعد ایک یونیورسٹی بن گئی کے صحن میں سپردِ خاک کئے گئے۔

ادبی خدمات :

سید احمد خان ایک اعلیٰ پائے کے ادیب تھے اردوشاعری و اردونثر پر سرسید کا بڑا احسان رہا ہے۔ سرسید نے لمبی لمبی تحریروں کے بجائے چند صفحات میں کام کی بات کہنے کا طریقہ رائج کیا۔ اردو انشائیہ نگاری کی روایت کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا۔ انھوں نے زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں جن میں اُن کی متعدد تصانیف میں ”آثار الصنادید“ ”اسبابِ بغاوتِ ہند“ خطباتِ احمدیہ“ اور”سرکشی ضلع بجنور“خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیں۔

3: سوالات

سوال: خوشامد کو بدتر چیز کیوں کہا جاتا ہے؟

جواب:خوشامد کو بدترین چیز اسی لئے کہا جاتا ہے کیوں اس سے ایک اچھے بھلے انسان کا دل و دماغ، عادات واطوار، طبیعت۔ شخصیت بُری طرح متاثر ہوجاتے ہیں۔ ایک خوشامد پسند انسان خود کو دوسروں سے اعلیٰ اور باقیوں کو اپنے سے کمتر سمجھ لیتا ہے۔

سوال: خوشامدی میں کیا کیا عیب ہوتے ہیں؟

  • جواب:خوشامدی سے انسان کے اندر طرح طرح کے عیب در آتے ہیں؛ جیسے:
  • (١) ایک انسان اپنی تعریفیں اور خود ستائی حدسے زیادہ سننا پسند کرتا ہے
  • (٢)دل خوشامدکی مہک بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
  • (٣) دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنے لگتا ہے۔
  • (٤) خوشامدی انسان مکار اور فریبی ہوتا ہے۔
  • (٥) خوشامدی انسان دوسروں کی جھوٹی تعریفیں کرکے انہیں بے وقوف بناتا ہے۔

سوال: سرسید کے مضمون ”خوشامد“ کا خلاصہ لکھیے۔

جواب:”خوشامد“سرسید احمد خان کا لکھا ہوا ایک انشائیہ ہے۔ اس انشائیہ میں سرسید احمد خان خوشامد کی بُرائیوں کو مختلف مثالوں کے ذریعے اُجاگر کرتے ہیں۔ انسان کے دل کو جو جسمانی و روحانی بیماری لگ جاتی ہیں اُن میں سب سے زیادہ خطرناگ بیماری’خوشامد‘ کی بیماری کا اچھا لگنا ہوتا ہے۔ اورجسے یہ بیماری لگ جاتی ہے اس کے دل ودماغ کو بری طر ح سے متاثرکردیتی ہے۔ جب کسی کو ایک بار لگ جاتی ہے تو عمر بھراُس کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔

جب ایک انسان اس مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ اپنی حیثیت و اپنا مقام کھو دیتا ہے اور وہ ہر طرف اپنی بڑائی دیکھنا چاہتا ہے۔ مگروہ اس کا اہل نہیں ہوتا ہے۔ جس طرح دوسروں کے کپڑے ہمارے جسم پہ سجتے نہیں اُسی طرح خوشامد کااچھا لگنا ہوتاہے۔ اسی طرح ایشیا کے شاعر دوسروں کی ایسے بے جا خوشامد کر دیتے ہیں جن سے ان کی ذہنیت بگڑجاتی ہے۔ اچھے اوصاف بیان کرنا عمدہ خوشبو کی مانند ہے۔ الغرض خوشامد ایک بری چیز ہے اس سے ایک انسان کو بچنا چاہیے۔

4: درج ذیل اقتباس کو پڑھ کر سوالات کے جوابات دیجیے۔

ناموری کی مثال نہایت عمدہ خوشبو کی ہے۔ جب ہوشیاری اور سچائی سے ہماری واجب تعریف ہوتی ہیں تو اس کا ویسا ہی اثر ہوتا ہے جیسے عمدہ خوشبو کا۔ مگر جب کسی کمزور دماغ میں زبردستی سے وہ خوش بو ٹھونس دی جاتی ہے تو ایک تیز بد بو کی طرح دماغ کو پریشان کر دیتی ہے۔ فیاض آدمی کو بدنامی اور نیک نامی کا زیادہ خیال ہوتا ہے اور عالی ہمت طبیعت کو مناسب عزت اور تعریف سے ایسی ہی تقویت ہوتی ہے جیسے کہ غفلت اور حقارت سے پست ہمتی ہوتی ہے۔

(۱)فیاض آدمی کوکس چیز کا زیادہ خیال رہتا ہے؟

جواب:فیاض آدمی کو سب سے زیادہ اپنی بدنامی اور نیک نامی کا خیال رہتا ہے۔

(۲) عالی ہمت طبیعت کو کس چیز سے تقویت ملتی ہے؟

جواب:عا لی ہمت طبیعت کو مناسب عزت اور تعریف سے ہی تقویت ملتی ہے۔

(۳)پست ہمتی کا سبب کیا ہے؟

جواب: پست ہمتی کا سبب غفلت اور حقارت ہے۔

(۴) اوپر دیے گئے اقتباس میں سے ان لفظوں کے ہم معنی تلاش کیجیے۔
(شہرت ، سخی ،طاقت ، نیچے ،موزوں ،لاپرواہی)

الفاظ ہم معنی
شہرت ناموری
سخی فیاض
طاقت تقویت
نیچے پست
موزوں مناسب
لاپرواہی غفلت

(۵) درج بالا اقتباس کا ما حصل اپنے الفاط میں لکھیے۔

یہ اقتباس ہماری درسی کتاب”بہارستانِ اردو“’اردو کی دسویں کتاب‘ کے حصۂ نثر میں بعنوان ”خوشامد“ جو سرسید احمد کے قلم سے جنم پایا ہے، سے نکالاگیا ہے۔ درج بالا اقتباس کا ماحصل خلاصہ کچھ اسطرح سے ہے۔

شہرت کی مثال اُس اعلیٰ خوشبو کی طرح ہے اور جب کوئی بندہ ہماری جائز تعریفیں سچائی کے ساتھ کرتا ہے تو یہ تعریفیں نہایت عمدہ خوشبو کی طرح اپنا اثر دکھاتی ہیں، جسے ایک انسان کا دل و دماغ معطر ہوجاتا ہے۔ مگر دوسری طرف اگر کسی انسان کی وہ تعریفیں کی جائیں جن کا وہ حقدار نہ ہو اس سے اُس کا اندرون بگڑ جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کسی بیمار انسان کو عمدہ خوشبو بری لگتی ہے۔ نیک انسان کو ہمیشہ اپنی عزت کا خیال رہتا ہے اور وہ بدنامی سے خوف کھاتا ہے اور اُسے جائز تعریفات سے حوصلہ افزائی ملتی ہے۔ بے عزتی اور جاہلہ پن سے کم ہمتی اور پستی حاصل ہوجاتی ہے۔

(۶)صحیح جواب چُن لیجئے۔

۱۔”خوشامد“ سے کیا مُراد ہے:
١- خوشی ٢- خوش آنے والی چیز ٣- دوسروں سے اپنی جھوٹی تعریفیں سُن کر خوش ہونا۔

جواب:دوسروں سے اپنی جھوٹی تعریفیں سُن کر خوش ہونا۔

5: انشائیہ کے لئے:

۱۔ موضوعات مقرر ہوتے ہیں۔ ۲۔ موضوع کی کوئی پاپندی نہیں۔ ۳۔طنزومزاح کا عنصر لازمی ہے۔

جواب: موضوع کی کوئی پاپندی نہیں۔

6: خوشا مد ایک بُری /اچھی/فائدہ مند چیز ہے۔

جواب:خوشامد ایک بُری چیز ہے

7: علی گڑھ کالج مولانا شبلی/مولانا ابوالکلام آزاد/سرسید احمد خان / نے قائم کیا تھا۔

جواب:علی گڑھ کالج سرسید احمد خان نے قائم کیا تھا۔

8: سرسید نے۔۔۔۔میں انتقال کیا۔ ۱۔1898ء ٢- 1899ء ٣- 1898ء

جواب:۔سرسید نے۔۔1898ء میں انتقال کیا۔

9: افسانہ اور انشائیہ پر مختصر نوٹ لکھیے۔

افسانہ:

لفظ افسانہ ’فسوں‘ نے نکلا ہوا لفظ ہے جس کے معنی من گھڑت بات کے ہیں۔ افسانہ بھی ناول کی طرح مغربی ادب کی دین ہے۔ اردو میں شارٹ سٹوری(SHORT STORY) کو افسانہ کہا گیا ہے۔ افسانے سے مراد وہ نثری کہانی ہے جس میں کوئی واقعہ یا بہت چھوٹے واقعات منظم طریقے سے بیان کئے گئے ہوں کہ جن کی ابتدا ہو،ارتقاء ہو،خاتمہ ہو اور جو زندگی کی بصیرت میں اضافہ کریں۔

ایچ-جی -ویل افسانہ کے بارے میں یوں لکھتے ہیں ”قصے کی ایسی طوالت ہو۔جسے آدھہ گھنٹہ میں پڑھا جاسکے“

عالمی ادب کا پہلا افسانہ امریکہ کے ایک مصنف واشنگٹن ارون نے انیسویں صدی کے بالکل آغاز میں ”ا سکیچ بک“ لکھ کر اس کی بنیا د ڈالی۔ اردو کا پہلا افسانہ ”دنیا کا سب سے انمول رتن“ پریم چند ر نے لکھا۔ یہ افسانہ”رسالہ زمانہ“کانپور میں شائع ہوا۔ اردو کے دوسرے مشہور افسانہ نگاروں میں سجاد حیدر یلدرم،سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ اردو کے مشہور ترین افسانوں میں کفن،سوتیلی ماں،بڑے گھر کی بیٹی،ٹھنڈا گوشت،دو ہاتھ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

انشائیہ:

انشائیہ کی صنف اردو میں انگریزی سے آئی ہے۔ انگریزی میں اسے ”ایسے“ (ESSAY) کہتے ہیں۔ انشائیہ انشاہ سے نکلا ہوا لفظ ہے جس کے معنی عبارت یا تحریر کے ہیں لیکن لغوی معنی میں جو بات دل سے پیدا ہوجائے انشائیہ کہلاتا ہے۔ انشائیہ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کی کوئی شرط نہیں کوئی اصول نہیں۔جو کچھ کہو اس طرح کہو کہ پڑھ کر جی خوش ہوجائے اور پڑھنے والے کے ذہن میں گدگد سی ہونے لگے۔

ڈاکٹرجانسن نے انشائیہ کے متعلق یہ بلیغ بات کہی ہے”it is a loose sally of mind“یہ انسانی دماغ کی ڈھیلی اور بے پرواہ قسم کی اُڑان ہے“

بقول ِڈاکٹر ویز آغا”انشائیہ کا خالق اس شخص کی طرح ہے جو دفتر کی چھٹی کے بعد اپنے گھر پہنچتا ہے چست وتنگ کپڑے اتار کرڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن لیتا ہے اور ایک آرام دہ مونڈھے پر نیم دراز ہو کر حقہ ہاتھ میں لیے انتہائی بشاشت اور مسرت سے اپنے احباب سے محو ِگفتگو ہوجاتا ہے۔ اردو ادب میں اس صنف کا آغاز کب اور کس کے ہاتھوں ہوا اس بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے البتہ ملا وجہی کی ”سب رس“ میں اس کی اولین جھلک نظر آتی ہے۔ اردو میں جن انشائیہ نگاروں نے انشائیہ نگاری میں اپنا لوہا منوا ہے اُن میں مولانا محمد حسین آزادؔ، عبدالحلیم شررؔ،سرسید احمد خان،حسن نظامی،رشید احمد صدیقی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

10: گرامر

حروف جار:حروف جار وہ حروف ہیں جو اسم اور فعل کو آپس میں ملاتے ہیں مثلاََ پر،تک،اندر،باہروغیرہ۔

مجرور:جن اسموں اور فعلوں کے ساتھ حروف جار لگے ہوں انھیں مجرور کہتے ہیں مثلاََ دہلی،مسجد؛ گھر وغیرہ۔

مرکب جاری:وہ مرکب جو جار اور مجرور سے مل کر بنے مرکب جاری کہلاتا ہے مثلاََ بات سے، دہلی تک،دہلی میں، گھر سے، کتاب پر وغیرہ

ان مرکبات میں سے مرکب جاری تلاش کریں۔

کالا سانپ، دلی سے، سفیدگھوڑا، اسلم کی ٹوپی، میز، ٹھنڈا پانی، کولکتہ تک، سُرخ اونٹ، کتاب میں، آپ کے ساتھ،گلاب کا پھول،درخت پر؛ رشید کا بھائی

دلی سے
درخت پر
کتاب میں
کولکتہ تک
میز پر