فانی بدایونیؔ کی غزل کی تشریح،سوالات و جوابات

0
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تومفت نہ لوں ہنستی کی کیا ہستی ہے
  • ہنستی: زندگی

تشریح:

یہ شعر فانیؔ کی قلم کی نوک سے جنم پایا ہے۔ اس غزل کے مطلع والے شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ میرے لئے دنیا کی زندگی کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے کیوں کہ میں نے اس دنیا اوراس دنیا کی زندگی کو خوب جانا۔ یہ خواب غفلت کے سو ا کچھ بھی نہیں۔ دوسری طرف موت جو ہر ایک کو مفت میں آتی ہے مگر میرے نزدیک زندگی کی وقعت اتنی گر گئی ہے کہ موت کو پیسے دے کر خرید لوں گا کیوں کہ یہ زندگی میرے کام کی اب نہیں رہی ہے۔

آبادی بھی دیکھی ہے، ویرانی بھی دیکھی ہے
جو اُجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے

تشریح:

فانی اس غزل کے شعر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر میں نے ویران بستیوں کو آباد ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ مگر دوسری طرٖف انسانی دل کی بستی کو بھی دیکھا جو ایک بار اجڑ جاتی ہے پھر کبھی آباد نہیں ہوتی ہے‌۔ دل کی بستی ایک شیشے کی مانند ہوتی ہے جو ایک بار ٹوٹ جائے پھر اس کا جوڑ ‌اور آباد ہونا ممکن نہیں ہے۔

جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں
آگے مرضی گاہک کی ، ان داموں توسستی ہے
شے چیز
بک فروخت ہونا
دام قیمت

تشریح:

یہ شعر فانیؔ کی ایک غزل کا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ محبوب کی ایک نظر نے میری ہی جان مجھ سے چھین لی ہے، اب محبوب کو اختیار ہے کہ میر ی جان کو اپنے پاس رکھے یا نہ رکھے کیوں کہ اے میرے محبوب! جان کی کوئی قیمت ادا نہیں کرسکتا ہے مگر تمہاری ایک نظر نے مجھ سے میری جان مفت میں مجھ سے چھین کر لی ہے۔

جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی،اب بھی دنیا بستی ہے
  • جگ: دنیا

تشریح :

یہ شعر فانیؔ کی ایک غزل کا ہے اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب جب تم میرے پاس ہوتے ہو تو یہ دنیا جنت لگتی ہے اور جب تم دور ہوتے ہو تو یہ دنیا جہنم لگتی ہے، تمہاری غیر موجودگی میں، میں نے رو رو کے اپنا برا حال کیا ہے یعنی بہت رو لیتا ہوں۔

آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ اُمڈ آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے

تشریح:

فانی ؔغزل کے اس شعرمیں اپنے محبوب کےظلم وستم کا حال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے محبوب نے مجھ پر اتنے ظلم وستم ڈھائے ہیں کہ رو رو کے میرا برا حال ہوا ہے، میری آنکھوں کا پانی سوکھ چکا ہے، دل پرغم کی ایسی گھٹا چھائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے میرا انگ انگ تڑپتا رہتا ہے۔

دل کا اُجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں،بستے بستے بستی ہے

تشریح:

یہ شعر فانیؔ کو ایک غزل کا ہے، اس شعر میں شاعر ایک حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک انسان کو چاہیے کہ کبھی بھی کسی دوسرے انسان کا دل نہ دُکھائے کہ اگر یہ دل کی بستی ایک بار برباد ہوگئی تو زندگی بھر یہ دل کی نگری کبھی آباد وشاداب نہیں ہوتی ہے۔

فانیؔ ! جس میں آنسو کیا دل کے لہو کا کال نہ تھا
ہائے! ہو آنکھ اب پانی کی دوبوندوں کو ترستی ہے
کال قحط
لہو خون
ہائے افسوش

تشریح:

اس مقطع والے شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ میرے محبوب نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جس کی وجہ سے میرا دل رنجیدہ ہوا ہے اورمیرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے آنکھیں بھی رو رو کے خشک ہوچکی ہیں۔

3: سوالات:

سوال: شاعر کس کی نظر کے بدلے میں اپنی جان جیسی قیمتی چیز دینا چاہتا ہے؟

جواب: شاعر اپنے محبوب کی نظر کے بدلے میں اپنی جان جیسی قیمتی چیز دینا چاہتا ہے۔

سوال: دوسرے شعر میں دل کی بستی کو ” نرالی بستی” کیوں کہا گیا ہے؟

جواب: دنیا کی ہر ویران بستی اگر ایک بار اجڑ جائے تو دوبارہ پھرآباد ہوسکتی ہے مگر انسان کے وجود کے اندر جو دل کی بستی ہے، اگر ایک بار ویران ہوجائے تو دوبارہ اس کا آباد ہونا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ اسی لئےشاعر نے اس کو” نرالی بستی “سے تعبیر کیا ہے۔

4: تشریح کریں:

آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ اُمڈ آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے

تشریح:

فانی ؔغزل کے اس شعرمیں اپنے محبوب کےظلم وستم کاحال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے محبوب نے مجھ پر اتنے ظلم وستم ڈھائے ہیں کہ رو رو کے میر ا برا حال ہوا ہے میری آنکھوں کا پانی سوکھ چکا ہے دل پرغم کی ایسی گھٹا چھائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے میرا انگ انگ تڑپتا رہتا ہے۔

5: فانیؔ بدایونی کی شاعری کے بارے میں ایک مختصرنوٹ لکھیے۔

فانیؔ بدایونی کی شاعری:

فانی کو شاعری کاشوق بچپن میں ہی گھر کرگیا تھا۔ والد شاعری کے خلاف تھے اس لیے چھپ کر شاعری کرتے تھے۔ اس وجہ سے ان کا کافی کلام ضائع ہوگیا اس لیے جو کلام بچا وہ “عرفانیاتِ فانیؔ” کے نام سے شائع ہوا۔ فانی اردو کے اعلیٰ غزل گو شمار کئے جاتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں اعلیٰ پائے کی فن کاری پائی جاتی ہے۔ آپ کی شاعری میں احساس کی شدت، خیال کی گہرائی،غم و یاس کی اہم اوصاف پائے جاتے ہیں‌۔ آپ کی شاعری میں موت ایک اہم موضوع رہا ہے اس لئے آپ کو “یاسیات” کا امام کہا جاتاہے۔

6: فانیؔ بدایونی کی حیات کا تذکرہ کیجیے۔

حالاتِ زندگی:

فانیؔ بدایونی کا نام شوکت علی خان تھا۔ آپ کے والد کا نام محمد شجاعت علی خان تھا۔ آپ نے پہلے شوکت اوربعد میں فانیؔ تخلص اختیار کیا۔ آپ کی پیدائش 13 ستمبر 1779 میں قصبہ اسلام نگر ضلع بدایوں میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم ایک مکتب میں حاصل کی۔1897ء میں میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی اسکول بدایوں سے پاس کیا۔1901ٰء میں بریلی کالج سے گریجویشن حاصل کی۔محکمہ تعلیم میں استاد کے عہدے پرنوکری مل گئی۔ترقی کرتے کرتے ڈپٹی انسپکٹر مدارس بھی بنائےگئے۔

نوکری کرنے سے دل اُکتا گیا۔ نوکر ی چھوڑدی 1907ء موجودہ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کر ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصے تک وکالت کا پیشہ اپنایا مگر جلدی ہی اس پیشے سے کنارہ کشی اختیار کی۔ اس کے بعد ایک ماہنامہ ” نسیم ” جاری کیا مگر دوسال کے بعد یہ بھی بند کرنا پڑا۔کشن پرشاد نے حیدرآباد بلا کر استا د کی نوکری پھر دلادی۔1940ء پہلے بیوی کا پھر اپنی جوان سال بیٹی کے انتقال نے تو فانی کی کمر ہی توڑ دی۔ دل پر زیادہ غم ویاس رہنے کی وجہ سے ان کاانتقال27 اگست1941ء میں سرزمیں حیدر آباد میں ہوا۔