غالب کی غزلوں کی تشریح ، سوالات و جوابات

0

غزل نمبر ایک (1)

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی

مشکل الفاظ کے معانی

  • ابن مریم: حضرت مریم رضی اللہ عنھا کا بیٹا یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام

تشریح :

یہ شعر غالب کی ایک غز ل سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعرتلمیح کا اظہا ر کرتے ہوئے تمنا کرتے ہیں کہ کاش! اس وقت دنیا میں بھی کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسا پیغمبر صاحبِ کرامات پیدا ہوجائے تا کہ میں اُس کے پاس اپنے دُکھوں کا مداوا کرسکتا کیوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے مردوں کو زندہ کرنے اوربیمار لوگوں کو شفا دینے کا معجزہ عطاکیا تھا۔

بک رہا ہوں جنوں میں کیاکیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خداکرےکوئی

تشریح:

اس شعر میں مرزا غالبؔ اپنے عشق اور اپنے کلام کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں عشق کی وجہ سے اپنی زبان سے و قلم سے ایسا کلام بیان کرتا ہوں جسے عام لوگ سمجھنے سے قا صر رہتے ہیں۔ اللہ سے دُعا ہے کہ آگےبھی ایسا ہی چلتا رہے میری زبان و کلام کا اصل مقصد کسی کی سمجھ میں نہ آئے۔

نہ سنو گر بُرا کہے کوئی
نہ کہو گر بُرا کرے کوئی

تشریح :

یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر ایک نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ دنیا اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگوں کی رہنے کی جگہ ہے۔ کوئی جب آپ کی اچھائی یا بُرائی بیان کرے تو دونوں صورتوں میں آپ کو چاہیے ایک بااخلاق انسان کی طرح اپنا برتاو کا ثبوت دیں۔ یہی سب سے بڑی بات ہے۔

روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرےکوئی

تشریح :

یہ شعر غالبؔ کی ایک عمدہ غزل کا شعر ہے۔ اس شعر میں شاعر اپنے اندر اشرف المخلوقات کی صفتیں پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے کہ اگر کبھی کسی بندگانِ خدا سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اُسے پیارومحبت کے ساتھ سمجھاؤ۔ اُسے راہِ راستہ پر لاؤ، اس کی غلطی کومعاف کرکے درگذر کرو یہی ایک صا لح انسان کی نشانی ہے۔

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی

تشریح :

یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل سے لیا گیا ہے اور یہ شعر ہماری درسی کتاب” بہارستانِ اردو” اردو کی دسویں کتاب کےحصہ نظم میں شامل ہے۔ اس شعر میں شاعر ایک حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ دنیا مسبب الاسباب کی جگہ ہے یہاں ہر کام کوکرنےکےلئے کوئی سبب یا اسباب ہونے چاہئے تب جاکے کوئی کام نکلتا ہے۔ غرض یہاں ہر انسان دوسرے انسان کا سبب اور حاجت مند ہے۔

کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسےرہنما کرے کوئی

تشریح :

یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر تلمیح کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ عطا کیا تھا کہ انہوں نے آبِ حیا ت نوش کرکے حیاتِ جاوِداں کا شرف حاصل کیا تھا۔ دوسری طرف بادشاہ سکندر انہیں کا مرید بن گیا تھا مگر افسوس بادشاہ ِسکندر وہ علم و ہنر پانے میں کامیاب نہ ہوسکا جسے اُسےبھی حیاتِ جاوِدان کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ اب دنیا میں کیا باقی رہا جس کو ایک انسان اپنا رہنما بنا کر حیات جاوداں کا شرف حاصل کر پاتا، اب ایسا ممکن نہ رہا۔

جب توقع ہی اُٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

تشریح :

یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل کا مقطع ہے۔ اس میں شاعر فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں کبھی بھی کسی کا اعتبار نہیں رکھنا چاہیے، کیوں کہ نہ جانے کب کس کا دل بدل جائے اس لئے بہتر یہی ہے کہ کسی پر حد سے زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے تاکہ زندگی میں یہ نوبت کبھی نہ آئے کہ شکوہ شکائت کا ماحول گرم ہوجائے۔

غزل نمبر 2

کوئی امید برنہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

تشریح :

یہ شعر غالب کی ایک مشہور غزل کا مطلع ہے۔اس میں غالبؔ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے زندگی میں صرف ناامیدوں کاسامنا کرنا پڑا اور آگے کی زندگی میں کوئی ایسا طریقہ یا راہ نظر نہیں آتی کہ جس سے میری تمنائیں اور آرزوئیں پوری ہوجائیں گی۔

موت کا ایک دن مُعین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

تشریح:

غالب ؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی اورموت کو پیدا فرمایا ہے۔ ہر چیز کا اپنا مقرر وقت ہے، موت کی بھی ایک ساعت مقرر ہے اور یہ اپنے مقرر وقت پر ہی آئے گی انسان کو رات کا آرام اچھی طرح سے کرنا چاہئے اس فکر میں اپنی راتوں کی نیدیں خراب نہیں کرنی چاہئے۔

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پرنہیں آتی

تشریح:

اس شعر میں غالبؔ فرماتے ہیں کہ پہلے پہل مجھے بہت ہنسی آتی تھی میں مست مدہوش رہتا تھا، کسی چیز کی کوئی فکر نہیں رہتی تھی۔ اب دنیا کے راز مجھ پرکھل گئے ہیں اور میں حقیقت سے واقف ہوگیا ہوں۔ اب ہم نے ہنسی مذاق کرنا چھور دیا ہے۔

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پرنہیں آتی

تشریح:

یہ شعر مرزاغالبؔ کا ہے اس شعرمیں شاعر فرماتے ہیں کہ مجھ پر دنیا کے اتنے ستم پڑے ہیں کہ اب میں مرنے کی تمنا کرتا ہوں مگر میری تمنا پوری نہیں ہوتی ہے۔ غرض دنیا کی مصیبتوں نے مجھے نیم موت کی حالت میں ڈال دیا مگر ہائے افسوس حقیقی موت مجھ سے اب بھی دور ہے۔

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب ؔ
شرم تم کو مگرنہیں آتی

تشریح:

غالب ؔ اس غزل کے مقطع میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ ایک بار خانہ کعبہ یعنی اللہ کے گھر کی زیارت کرے کیونکہ خانہ کعبہ کی زیارت سے مسلمانوں کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔ مگر غالب یہاں نیستی دکھاکر کہتے ہیں، تو کس منہ کے ساتھ اللہ کے گھر کی زیارت کو جائے گا۔ تو خود کو گناہوں سے دورنہیں رکھتا ہے، کیا تجھے کعبہ جاکے شر م نہیں آئے گی؟

یا

تشریح: غالبؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اے غالب کیا تو ایسے ہی گناہوں کے بوجھ تلے خانہ کعبہ کی زیارت کو جائے گا کیا تمہیں وہاں اللہ کے گھر جاکے شرم نہیں آئی گی۔ مگر اے غالب تجھے شرم کیوں اور کیسے آئی گی کیوں کہ تجھ میں شرم نام کی چیز ہی نہیں ہے۔

3: سوالات

غالبؔ حالات زندگی اور غزل گوئی پر مختصر نوٹ لکھیے۔

حالاتِ زندگی:

شہنشائے سخن مرزا غالب ؔ کا اصلی نام اسداللہ بیگ خان تھا۔ آ پ کا تخلص پہلے اسد تھا پھر مستقل طور پر غالبؔ رکھ لیا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ آ پ کی پیدائش آگرہ میں27 دسمبر1797ء کو ہوئی۔ ابھی صرف پانچ سال کے ہوئے تھے کہ والد ایک معرکہ میں مارے گئے۔ چچا نصر اللہ بیگ نے کفالت کی ذمہ داری سنبھالی۔ آٹھ برس کے ہوئے تھے چچا بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ 13 سال کی عمرمیں یعنی 1810 ء میں آپ کی شادی امراؤ بیگم سے طے ہوئی۔ شادی کے بعد آگرہ کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ کرچھوڑنا پڑا۔مستقل سکونت دہلی میں اختیا رکی۔ دہلی میں شاہی دربار میں ملازمت حاصل کی، بہادرشاہ ظفر نے نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا کیا۔ بالآخر یہیں دہلی میں آپ کا انتقال 15 فروری 1869 ء میں ہوا۔

غزل گوئی:

غالب فارسی اور اردو کے بہت بڑے شاعر تھے مگر جس زبان میں غالب کا نام چمکنے لگا وہ زبان اردو ہے۔ اردو نثر کے علاوہ غالب نے اردو غزل کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ غالب نے غزل میں نئے تجربے کیے، غزل میں استفہام، آپ کی ہی دین ہے۔ آپ کے کلام میں مضامین کی ندرت،خیال کی بلندی،فلسفہ ،اخلاق ،انسان دوستی کا سبق جابجا ملتا ہے۔ بقول آل احمد سرور” غالب سے پہلے اردو شاعری دل والوں کی دنیا تھی غالب نے اسے نیا ذہن دیا”غالب کی تصانیف میں اردو ئے معلی،عود ہندی، قاطع برہان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

شاعر کا حوالہ دیکر ان اشعار کی وضاحت کریں:

نہ سنو گر بُرا کہے کوئی
نہ کہو گر بُرا کرے کوئی

تشریح :

یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر ایک نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ دنیا اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگوں کی مسکن ہے۔ کوئی جب آپ کی اچھائی وبُرائی بیان کرے تو دونوں صورتوں میں آپ کو چاہیے ایک بااخلاق انسان کی طرح اپنے برتاو کا ثبوت دیں، یہی سب سے بڑی بات ہے۔

روک لو گرغلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرےکوئی

تشریح :

یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر تلمیح کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ عطا کیا تھا کہ انہوں نے آبِ حیا ت نوش کرکے حیاتِ جاوِداں کا شرف حاصل کیا تھا۔ دوسری طرف بادشاہ سکندر انہیں کا مرید بن گیا تھا مگر افسوس بادشاہ ِسکندر وہ علم و ہنر پانے میں کامیاب نہ ہوسکا جسے اُسےبھی حیاتِ جاوِدان کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ اب دنیا میں کیا باقی رہا جس کوایک انسان اپنا رہنما بناکر حیات جاوداں کا شرف حاصل کرپاتا اب ایسا ممکن نہ رہا۔

4: غزل نمبر دو کے قافیے اپنی نوٹ بک پر لکھیے

جواب: بر ، نظر ،بھر، غزل نمبر دو کے قافیہ ہیں

5۔مصرع جوڑ کر شعرمکمل کریں:

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب کسے رہنما کرے کوئی
کعبہ کس منہ سے جاؤں گے غالبؔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • جواب: کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند ..کس کی حاجت روا کرے کوئی
  • ابن مریم ہوا کرے کوئی..میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
  • کیا کیا خضر نے سکندر سے…اب کسے رہنما کرے کوئی
  • کعبہ کس منہ سے جاؤں گے غالبؔ ….شرم تم کو مگر نہیں آتی

6۔ وضاحت کریں

کیا کیاخضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی

تشریح :

یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر تلمیح کا اظہار کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ حضرت خضرعلیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ انہوں نے آبِ حیا ت نوش کرکے حیاتِ جاوِ داں کا شرف حاصل کیاتھا دوسری طرف بادشاہ سکندراسی کا مرید بن گیا تھا مگر افسوس بادشاہ ِسکندر وہ علم و ہنر پانے میں کامیاب نہ ہوسکا جسے اُسےبھی حیاتِ جاوِدان کا شرف حاصل ہوتا ہےاب دنیا میں کیا باقی رہا جس کوایک انسان اپنا رہنما بناکر حیات جاوداں کا شرف حاصل کرپاتا اب ایسا ممکن نہ رہا۔

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

تشریح :

غالب ؔ اس مقطع والے شعر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ ایک بار اللہ کے گھر کی زیارت کرے اس کے لئے ایک مسلمان گناہوں سے دور رہتا ہے مگر غالب یہاں نیستی دکھاکر کہتے ہیں تو کس منہ کے ساتھ اللہ کے گھر کی زیارت کو جائے گا تو خود کو گناہوں سے دورنہیں رکھتا ہےکیا تجھے کعبہ جاکے شر م نہیں آئے گی

یا

تشریح: غالبؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اے غالب کیا تو ایسے ہی گناہوں کے بوجھ تلے خانہ کعبہ کی زیارت کو جائے گا کیا تمہیں وہاں اللہ کے گھر جاکے شرم نہیں آئی گی مگر اے غالب تجھے شرم کیوں اور کیسے آئی گی کیوں کہ تجھ میں شرم نام کی چیز ہی نہیں ہے۔