حیدرعلی آتشؔ کی غزل کی  تشریح، سوالات و جوابات

0
دہن پر ہیں اُن کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

مشکل الفاظ کے معانی

  • چمن: باغ
  • گل کھلانا:کوئی فساد برپاکرنا

تشریح :

یہ شعر خواجہ حیدرعلی آتش ؔ کی ٖغزل سے گیا ہے اور یہ شعر ہماری درسی کتاب” بہارستانِ اردو” ‘اردو کی دسویں کتاب’ کے حصہ نظم میں شامل ہے۔ اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب! جب آپ مجھ سے گفتگو کرتے ہو مجھے بھروسہ ہوتا ہے کہ آپ مجھ سے ٹھیک طرح سے بات کرو گے مگر افسوس ایسا نہیں ہوتا ہے۔آہ! آپ کامزاج گفتگو کےدرمیاں ایسا سخت ہو جاتا ہے اورآپ ایسی ایسی باتیں کرنے لگتے ہو جس سے میرا نازک دِل دکھی ہوجاتا ہے۔

زمین چمن گل کھلاتی ہے کیاکیا
بدلتا ہےرنگ آسماں کیسے کیسے

مشکل الفاظ کے معانی

  • چمن: باغ
  • گل:گلاب

تشریح :

یہ شعر آتشؔ کی ایک خوبصورت غزل سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر دُنیا کے بدلتے ہوئے حالات کا احاطہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ دنیا کبھی ایک ہی ڈگر پر قائم نہیں رہتی۔ یہ دور بلند بالا آسماں پر کبھی چاند کی چاندنی ،کبھی گھن گھور گٹھائیاں،کھبی سورج کی تیز کرنیں ،کبھی خزاں کی دھیمی شعاعیں ، اسطرح زمیں پر کبھی گلستان میں گل و بلبل کا ملن ، کبھی خزان کا چمن کو ویراں کرنے کا سماں ،اسی طرح انسان کی زندگی میں غم وخوشی، امیری غریبی یہی زندگی کے دو بول ہیں۔

یا

آتش ؔ اس شعرمیں فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں ایک طرح کے حالات واقعات نہیں رہتے ہیں۔ کبھی انسان کی زندگی میں خوشی کے دو لمحات تو کبھی غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں یعنی عالم ِ کائنات ایک ہی ڈگر پر نہیں رہتی ہے۔

نہ گورِ سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

مشکل الفاظ کے معانی

گورِ قبر
سکندر ایک عظیم نادشاہ کا نام
دارا ایک بادشاہ جس کا نام دارا شکوہ تھا
نامی شہرت

تشریح:

یہ شعر آتشؔ کی ایک غزل کا ہے اس شعر میں شاعر دنیا کی تلخ حقیقت کو بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے۔ سدا رہنے کی جگہ یا ٹھکانہ نہیں، یہاں ہر ایک چیز کو ایک دن فنا ہونا ہے۔ کتنے پیغمبر و عام لوگ یہاں آئے سب کے سب کو ایک دن یہ دنیا چھوڑ کے جانا ہے۔ یہاں تک دنیا کے دو عظیم بادشاہ یعنی سکندر اور دارا شکوہ ،اب ان کی قبروں کےنشان بھی باقی نہ رہے۔

دل و دیدہ اہل عالم میں گھر ہے
تُمھارے لیے ہیں مکاں کیسے کیسے

مشکل الفاظ کے معانی

  • دیدہ: نظر ، آنکھ
  • اہلِ عالم: دنیا کے لوگ

تشریح:

یہ شعر آتش کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے۔ اس شعر میں آتش اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب یہاں دنیا میں ہر جاندار کا اپنا اپنا آشیانہ ہوتا ہے جہاں پر وہ اپنی اپنی زندگیوں کے دن گزار لیتے ہیں۔ مگر اے میرے محبوب تیری شان کچھ الگ ہے کیوں کہ آپ کا ٹھکانہ ومقام اور مکان اہل دنیا کے دلوں و دماغوں میں ہے یعنی آپ کے رہنے کی جگہ بھی سب سے ہٹ کر اور نرالی ہے۔

غم و غصہ ، رنج واندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہر بان کیسے کیے

مشکل الفاظ کے معانی

رنج غم ـ الم -پریشانی،
اندوہ غم
حرماں مایوسی ؛ نااُمیدی

تشریح :

یہ شعر آتش کی ایک غزل سے ماخوذ ہے۔ اس شعر میں شاعراپنی بد نصیبی کو کوستے ہوئے فرماتے ہیں کہ خوشیاںمیرے آنگن میں کبھی بھول کر بھی نہیں آتی ہیں، وہ جیسے مجھ سے سدا کے لئے روٹھ گئی ہیں۔ مگر اس کے برعکس غم ،پریشانیاں ،مصیبتیں میری پرچھائیاں بن گئی ہیں کبھی ہم سے دور ہی نہیں ہوتی ہیں یہ غم والم میری زندگی کے ایسے مہماں و مہربان بن گئے جن کہ بدولت میں اپنی زندگی کے چار دن گذار لیتاہوں

3َ۔ سوالات :

٭ اس غزل میں اُس شعر کی نشاندہی کیجیے جس میں انسان کی بے ثباتی کا ذکر ہے۔

جواب: وہ شعر یہ ہے؛

نہ ہے گورِ سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

٭شاعر نے غم وغصہ رنج واندوہ کو اپنے مہربانوں میں کیوں شمار کیا ہے؟

جواب:جس طرح دنیا میں رہتے ہوئے ایک انسان دھن ودولت،مال واسباب،زر وزمین کے سہارے زندگی گذارتا ہے اسی طرح شاعر کے لئے یہ کام غم وغصہ ،رنج واندوہ انجام دیتے ہیں اسی لئے شاعر نے ان کو اپنےمہربان شمار کیا ہے۔

سوال : آتش کی حالاتِ زندگی اورشاعری(غزل گوئی) پر ایک نوٹ لکھیے۔

حاالات ِ زندگی:

خواجہ حیدر علی آتش ؔ کا اصلی نام حیدر علی تھا اور آتشؔ تخلص تھا۔ آپ کے والد صاحب کا نام خواجہ علی بخش تھا۔ آپ کی پیدائش فیض آباد میں 1777ء میں ہوئی۔ بچپن میں ہی والد کا انتقال ہو گیا تھا جس کی بنا پر آپ کی تعلیم مکمل نہ ہوسکی۔ آپ کا مزاج فقیرانہ تھا اور یہ فقیرانہ انداز عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی گیا۔ ان کی زندگی تنگ دستی میں گذر گئی۔ مگر کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکہ خدا کی مرضی پر راضی رہے۔

آخری عمر میں بیوی کی وفات کے بعد آنکھوں کی روشنی بھی چلی گئی جس کی وجہ سے اپنی تما م تر زندگی اپنے ہی گھر میں سمٹ کے رہ گئی۔البتہ شاگردوں کا آنا جانا ہوتا رہا۔آخر کار 70 سال کی عمر پاکے اپنےخالقِ حقیقی سے 1847 ء میں لکھنؤ کی سرزمین میں جا کے ملے۔

ادبی خدمات:

آتشؔ کے مزاج میں جو قلندارنہ شان تھی وہ ان کی شاعری میں بھی پائی جاتی ہے۔ آپ بنیادی طور پر صرف غزل کےشاعر تھے۔ آپ نے صرف صنف ٖغزل میں ہی طبع آزمائی کی اوراپنی شیریں زبان سےغزل کو زندہ جاویدبنا دیا۔ ان کے کلیات میں سوائے غزلوں کے کسی دوسری صنف کانشان نہیں ہے۔ آپ کی بڑی خوبی یہ تھی کہ چھوٹی سے چھوٹی بات کو بڑی دھوم دھام کے ساتھ کہہ دیتے تھے۔

5۔اس شعر کی تشریح کریں

نہ گورِ سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
گورِ قبر
سکندر ایک عظیم نادشاہ کا نام
دارا ایک بادشاہ جس کا نام دارا شکوہ تھا
نامی شہرت

تشریح:

یہ شعر آتشؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر دنیا کی تلخ حقیقت کو بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے۔ سدا رہنے کا ٹھکانہ نہیں۔ یہاں ہر ایک چیز کو ایک دن فنا ہونا ہے۔ کتنے خاص و عام لوگ اس دنیا میں آئے اور سب وصال پا کے چلے گئے یہاں تک دنیا کےدو عظیم بادشاہوں یعنی سکندر اور دارا شکوہ کی قبروں کے نشان بھی باقی نہ رہے۔