شبیبؔ رضوی کی غزل، تشریح ، سوالات و جوابات

0

سوال: شبیب رضوی کی حالات زندگی اور شاعری پر نوٹ لکھیے۔

حالات زندگی:

شبیب رضوی کی پیدائش 25 جون 1935 ء کو قصبہ زیر پورضلع بارہ بنکی اتر پردیش میں ہوئی۔ابھی آپ کی عمر صرف پانچ سا ل کی تھی کہ والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ دینی تعلیم گھر پر ہی اپنی ماں سے حاصل کی۔ عربی وفارسی میں فاصل تفسیر کامل اورصدرالافاضل کی اسناد یں حاصل کیں۔

ہندی میں پرویش اور اردو میں ادیب ماہرعلی گڑھ کے امتحانات پاس کیے۔ 1959ٰء میں طبیہ کالج لکھنؤ سے ایف ایم بی ایس(طب) کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1993 ء میں آپ کی تعیناتی گورنمنٹ طبیہ کالج سرینگر میں ہوئی۔ 1968ء میں آپ کا نکاح سرینگر میں ہوا اوریہیں مستقل سکونت اختیار کی اور بعد میں میڈیکل آفیسر کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔

ادبی خدمات

شبیب رضوی ایک نثر نگار کے ساتھ ایک بہتریں شاعر ہیں۔ شاعری کا ذوق گھر کے ماحول میں پیدا ہوا۔ گیارہ سال کی عمر سے ہی شعر کہنے لگے۔ شبیب نے ہر اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزلیں، نظمیں اورقطعات و رباعیات خاصی تعدار میں کہیں۔ آپ کی شاعری کا رنگ اخلاقی اور تہذیبی ہے۔ لہجہ میں متانت اور اسلوب میں سادگی ہے۔ آپ کے مشہورمجموعے “آتش چنار” “حروف فروزاں” ” بچوں کے مشاعرے ” لہولہو غزل ” شامل ہیں۔

غزل نمبر 1

کتاب بند سہی،حرف تر کھلا رکھنا
مباحثے کا ہمیشہ ہی درکھلا رکھنا

تشریح :

یہ شعر ہماری درسی کتاب” بہارستانِ اردو” اردو کی دسویں کتاب کے حصے نظم میں ،شبیبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب اگرچہ آپ نے مجھ سے خط وکتابت کا سلسلہ بند کیا ہے مگرعلم وآگاہی ، بحث ومباحثہ کادروازہ کبھی بند نہیں کرنا کیوں کہ اسی طریقہ سے مجھےآپ کے بارے میں واقفیت حاصل ہوتی رہتی ہے۔

سکوتِ شب سے بھی اکتا کے لوٹ سکتا ہوں
میں کہہ کے آیا ہوں بچو ں سے گھر کھلا رکھنا

اس غزل کے شعر میں شاعر اپنے محبوب کی بے رخی کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں اپنے محبوب کی جدائی کی وجہ سے راتوں کو گھر سے باہر بے خبری میں نکل جاتا ہوں اس لئے میں نے اپنے اہل گھر سے کہہ دیا ہے کہ جب شب کی تاریکیوں میں میرے ساتھ یہ واقع پیش آئے تو تم میرے لئے میرے گھر کا دروازہ کھلا رکھنا۔

ہماری شرط کہ ہم پر ہو سایہ رحمت
تمہاری ضد ہےکہ کوفے میں سر کھلا رکھنا

اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ میں اپنے اللہ سے دُعا کرتا ہوں کہ مجھے ہمیشہ دکھ درد ومصیبتوں سے دور رکھنا مگر میری دعا میر ے حق میں الٹا ہوجاتی ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام اوران کے اہل وعیال کےساتھ اہل کوفہ نےبرا سلوک کیا اگرچہ امام حسین علیہ السلام کاپورا گھرانہ رحمت و عزت کا مستحق تھا۔

شکستگی ہوئی ظاہر تو موت لازم ہے
کھلی ہواؤں کے دھارے پہ پر کھلا رکھنا

اس غزل کے اس شعر میں شبیب فرماتے ہیں کہ جب انسان کا جسم عمر بڑھ جانے کی وجہ سے کمزور و ناتواں ہو جاتا ہے تو بس انسان کو سمجھنا چاہیے کہ اب اس جسم پر کبھی بھی موت آسکتی ہے، اس لئے انسان کو اس کے لئے تیا ر رہنا چاہئے۔

کسی کاہاتھ بڑھے یا کھچے یہ اسکا نصیب
ہمارا فرض ہے دست ہنر کھلا رکھنا

اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ میں اپنے شعروں میں علم وہنر کی باتیں بیان کرتا ہوں یہ اب ایک قاری پر منحصر ہے کہ وہ میرے اشعار سےفائدے اُٹھاے یا نہ اُٹھائے۔ میں نے اپنے اشعار کے ذریعے علم وآگاہی کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔

غزل نمبر 2

کتنی بھوکی ہے کتنی پیاسی ہے
زندگی دشتِ کربلا سی ہے

یہ شعرشبیبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ انسان کی دنیاوی زندگی دُکھوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کربلا کی زمین تھی جو حضرت امام حسیں علیہ السلام و ان کی آل کے لیے مصیبت کا سبب بنی۔

سب گئےشمع دل جلائے ہوئے
خیمہ خیمہ بہت اداسی ہے

اس شعرمیں شبیب ؔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور اُن کے اہل عیال کی طرف سے ظلم و مظالم کے خلاف اپنی اپنی جانوں کے نذرانہ کا واقعہ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں، جب امام حسین علیہ السلام اور ان کے اکثر اہل عیال والے شہید ہوگئے تو اس وقت امام کے خیموں میں غم و اداسی کا منظر چھا گیا۔

اس نے کتنی لطیف بات کہی
خود شناسی خدا شناسی ہے

خود شناسی : خود کو پہنچاننا
خُدا شناسی: خُدا کو پہنچاننا

یہ شعر شبیبؔ کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر ایک قیمتی بات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس انسان نے اپنے نفس و وجود کو پہنچانا اسی نے حقیقت میں ذاتِ باری تعالیٰ کو پہنچان لیا ہے۔

پھیل جائے تو اک کتاب بنے
بات کہنے میں جو ذرا سی ہے

یہ شعرشبیبؔ کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اس دنیا میں بہت بڑے دانشور و فلسفی پیدا ہوئے ہیں جن کو اللہ نے اتنی قدرت عطا کی، وہ ایک معمولی بات کو بھی اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ان کے اس بیان سے بڑی سے بڑی کتابیں چھپ سکتی ہیں۔

زندگی خودکشی نہ کر لے کہیں
ہرتمنا خفا خفا سی ہے
  • خود کشی : اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتارنا

یہ شبیبؔ کی غزل کا ایک شعر ہے۔ اس شعرمیں شاعر ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے اب محسوس ہونے لگا ہے کہ میں بہت جلد اپنی زندگی کا خاتمہ خودکشی کے ذریعے کرجاؤں گا کیونکہ اس دنیا میں رہتے ہوئے میری جائز تمنائیں پوری نہیں ہوپاتی ہیں اور نہ اُن کے پورا ہونے کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔

3 سوالات

سوال: ایسے تین اشعار قلمبند کیجئے جن میں واقعہ کربلا کی طرف اشارہ کیا گیا ہو۔

ہماری شرط کہ ہم پر ہو سایہ رحمت
تمہاری ضد ہےکہ کوفے میں سرکھلا رکھنا
کتنی بھوکی ہے کتنی پیاسی ہے
زندگی دشتِ کربلا سی ہے
سب گئےشمع دل جلائے ہوئے
خیمہ خیمہ بہت اداسی ہے

سوال: پہلی غزل کے دوسرے شعر میں کیوں بچوں کو گھر کھلا رکھنے کے لئے کہا گیا ؟

جواب : کیوں کہ شاعر کی طبیعت رات کے وقت محبوب کی جدائی کی وجہ سے ٹھیک نہیں رہتی ہے اور وہ بے ہوشی کی وجہ سے رات کو اپنا گھر چھوڑ دیتا ہے اسی لئے وہ اپنے گھر والوں سے کہتا ہے کہ رات کے دوران بھی گھر کا دروازہ کھلا رکھنا۔

سوال: پہلی غزل کے تیسرے شعر میں شاعر نے جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے، اسے مختصر طور پر بیان کیجئے۔

جواب: اس شعر میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی بہن حضرت زینب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جب یزیدوں نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو کوفے کے شہر میں ننگے سرچلایا۔