مولوی عبدالحق کا خاکہ: حالیؔ

0

سوال: خاکہ ”حالی“کا مختصر خلاصہ لکھیے۔

جواب: ”حالیمولوی عبدالحق کا ایک لکھا خاکہ ہے۔ اس خاکہ میں مولوی عبدالحق نے حالی کے مختلف عادات واطوار اور اوصاف پر روشنی ڈالی ہے۔ عمادالمک کہتے ہیں کہ سرسید کی جماعت میں حالی جیسا کوئی بلند پایہ شحص نہ تھا۔ حالی ؔبامروت،بااخلاق اوربہت انصاف پسند شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ہر ایک سے خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ 

ایک بار مولوی حمیدالدین ملنے کو گئے حالی اُن کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے۔ آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کے سفیر مولوی انوار احمد جب ایک دن اُن سے ملنے آئے رات کو حالی کے یہاں ٹھہرے۔ حالی نے اسکی خوب مہمان نوازی کی۔ رات کو خود ایک کمبل اوڑھنے کو دی۔حالی ہندووں و مسلمانوں میں اتحاد دیکھنا چاہتے تھے۔وہ ملک کے ہر فرد کی ترقی کے خواہش مند تھے۔ دوسرے شاعروں کی طرح اپنی شہرت کے خلاف نظر آتے ہیں۔ 

حالی انگریزی سے واقف نہ تھے۔ عملی میدان میں اُن کی دو یادگاریں ہیں۔ ایک پانی پت میں اُن کا مدرسہ، ددم پانی پت میں ہی ان کی اورنیٹل لائبریری کا قائم کرنا تھا۔ حالی جدید تعلیم کے حامی تھے‌۔ وہ اردو میں اچھے ڈرامے و ناولوں کو لکھنے کے خواہش مند تھے۔ آخر پر اُن کی دو بڑی تمنائیں تھی کہ اردو میں تذکروتانیث کے قواعد وضوابط بڑی اچھی طر ح سے وضع کیے جائیں۔

3-سوالات:

سوال: قومی اتحاد کے بارے میں مولانا حالی کا کیا خیال تھا؟

جواب:قومی اتحاد کے بارے میں مولانا حالیؔ کا خیال بڑا صاف و پاک اور ہمدردانہ نوعیت کا تھا۔ وہ ملک کے ہر فرد میں ذات پات کو چھوڑ کر قومی اتحاد دیکھنا چاہتا تھے لیکن جب بھی ہندؤوں ومسلمانوں میں کہیں کوئی ان بن ہوجاتی تھی تو اُن کا دل برداشتہ ہو جاتا تھا۔ وہ اپنی تحریروں میں ہر قوم وملت کے افراد کا خیال رکھتے تھے۔

سوال: مولانا حالی نے عملی میدان میں کون سی دو یادگاریں چھوڑی ہیں؟

جواب: مولانا حالی نے عملی میدان میں جو دو یادگاریں چھوڑی ہیں اُن میں پہلی یادگار پانی پت میں ایک مدرسے کا قیام کرنا تھا جو اب حالی ہائی سکول کے نام سے جانا وپہنچاناجاتا ہے۔ دوسری یادگار اُن کی پانی پت میں اورنیٹل لائبریری کا قیا م عمل میں لانا شامل ہے۔

3- مندرجہ ذیل تین نثری اصناف کس طرح ایک دوسرے سے مختلف ہیں:

1-خاکہ نگاری:کسی شخصیت یا شخص کے بارے میں کچھ حالات و واقعات،عادتیں و خصلتیں وغیر ہ لکھنا”خاکہ نگاری“کہلاتا ہے۔

2- سوانح نگاری:کسی شخصیت یا شخص کے بارے میں پیدائش سے لیکر موت تک تمام حالات و واقعات ترتیب وار لکھنے کو ”سوانح نگاری“ کہتے ہیں۔

3- شخصیت نگاری:کسی شخصیت یا شخص کے بارے میں اپنے تاثرات کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کے خیالات و افکار لکھنے ”کو شخصیت نگاری“‘کہتے ہیں۔

4- مندرجہ ذیل بیانات کے ثبوت کے طور پر سبق میں سے ایک ایک واقعہ تلاش کر کے لکھیے:

۱۔مولانا حالی شہرت اور خود نمائی پسند نہیں کرتے تھے۔

جواب: لوگ مولانا حالی سے اُن کا کلام سننے کی فرمائش کرتے تھے مگر وہ کسی نہ کسی طرح ٹال دیتے تھے اور اکثر یہ عذر پیش کر دیتے تھے کہ”میرا حافظہ بہت کمزور ہے اپنا لکھا بھی یاد نہیں رہتا۔“ یہ عذر ِلنگ ہی تھا اس میں کچھ حقیقت بھی تھی لیکن اصل بات یہ تھی کہ وہ خودنمائی سے بچتے تھے۔

۲۔مولاناحالی ؔزبردست مہمان نواز تھے۔

جواب: یہ کمبل لایا تھا اور آپ کو اُوڑھا رہا تھا۔انور احمد صاحب کہتے ہیں کہ”مجھ پر اُن کی شفقت کا ایسا اثر ہوا کہ عمر بھر نہیں بھول سکتا“۔مہمان کے آنے سے (اور اکثر ایسا ہوتا تھا)وہ بہت خوش ہوتے تھے اور سچے دل سے خاطر تواضع کرتے تھے اور ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

۳۔مولانا حالیؔ بعض اوقات چھوٹوں کا بھی ادب کرتے تھے۔

جواب: مرحوم حمیدالدین اُن سے ملنے گئے تو وہ سروقد تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے۔ ہم اپنے دل میں بہت شرمندہ ہوگئے۔ مولوی حمیدالدین نے کہا بھی کہ آپ ہمیں تعظیم دے کر محجوب کرتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ آپ لوگوں کی تعظیم نہ کروں،تو کس کی کروں؟ آئندہ آپ ہی قوم کے ناخدا ہونے والے ہیں۔

5- مصنف کا حوالہ دے کر سیاق وسیاق کے ساتھ درج ذیل اقتناس کا ماحصل لکھیے۔

”جدید تعلیم کے بڑے حامی تھے۔ اُس کی اشاعت وتلقین میں مقدور بھر کوشش کرتے رہے لیکن آخری عمر میں ہمارے کالجوں کے طلبہ کو دیکھ کر اُنھیں کسی قدر مایوسی ہونے لگی تھی۔مجھے خوب یاد ہے کہ جب اُن کے نام حیدر آباد میں ایک روز ”اولڈ بوائے“ آیا تو پڑھ کر بہت افسوس کرنے لگے کہ اُس میں سوائے مسخر ے پن کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔اُنھوں نے کہا علی گڑھ کے طلبہ سے اُس سے اعلی توقع تھی۔“

جواب:یہ اقتباس ہماری درسی کتاب”بہارستانِ اردو“ ’اردو کی دسویں کتاب‘ کے حصہ نثر میں، بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ایک لکھے ہوئے خاکہ”حالی“سے لیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا اقتباس کا ماحصل کچھ اس طرح سے ہے۔

تشریح: مولانا حالی جدید تعلیم کے زبردست حامی تھے اور اس کی بھرپور اشاعت کرنے میں ہمیشہ مگن رہتے تھے۔ آخری عمر میں کالجوں کے دو طالب علموں کو دیکھ کر حالی کو بڑا غم و دُکھ ہوا۔بابائے اردو کہتے ہیں جب ایک دن حیدر آباد میں ایک رسالہ ”اولڈ بواے“ چھپ کر آیا اُس کو پڑھ کر حالی کو بڑا دکھ ہوا اور کہا کہ اس رسالہ میں ہنسی مزاق کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے اورفرمایا مجھے علی گڑھ طلبہ سے اس قسم کی امید نہیں تھی۔

6- خالی جگہیں پُر کریں۔ واحد کے جمع لکھیں۔

واحد جمع
کتاب کتابیں
ادب آداب
قلم قلمیں
وقت اوقات
بات باتیں
سبب اسباب
رات راتیں
فلک افلاک
نظم نظمیں
  • مندرجہ ذیل الفاظ کو اس طرح جملوں میں استعما ل کیجیے کہ ان کی تذکر و تانیث واضح ہوجائے۔
  • ﴿دہی، مالا، برف، چاند، آبشار، دل﴾
  • مثال: عید کا چاند نظر نہیں آیا (مذکر)
دہی: دہی بہت کھٹا ہے۔(مذکر)
مالا: میں نے بازار سے ایک مالا خریدی ہے۔( مونث )
برف: آج کشمیر میں برف باری ہو رہی ہے۔ ( مونث)
آبشار: اہر بل کا آبشا ر بہت مشہور ہے۔(مذکر)
دل: ہر ایک جاندار اپنا ایک دل رکھتا ہے۔ (مذکر)
  • چاند
  • عید کا چاند نظر نہیں آیا (مذکر)
  • وہ مرکب جو اسم اشارہ اور مشارالیہ سے مل کر بنے مرکب اشاری کہلاتا ہے۔مثلاََ یہ کتاب، وہ قلم ان میں ’یہ‘ اور’وہ‘ اسم اشارہ ہیں جب کہ کتاب اور قلم مشار الیہ ہیں۔ مشارالیہ سے مراد وہ چیز جس کی طرف اشارہ کیا جائے اور اسم اشارہ سے مراد وہ اسم ہے جو کسی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بولا جائے۔

    درج ذیل جملوں میں سے مرکب اشاری تلاش کریں۔

    (۱) وہ کتاب بہت دلچسپ ہے۔(وہ کتاب)
    (ب)یہ لڑکا ذہین ہے۔ (یہ لڑکا)
    (ج) یہ قلم اوروہ پنسل میں نے سری نگر سے خریدے ہیں۔(یہ قلم ، وہ پنسل)

    7- مثال دیکھ کر خالی جگہیں پُر کریں۔ مذکر کے مونث لکھیں۔

    مُنشی منشاین
    ٹھاکر ٹھاکرائن
    حلوائی حلوائن
    کھیتری کھیترائن
    قصائی قصائن
    نائی نائن
    فرنگی فرنگن

    8- مثال دیکھ کر متضاد الفاظ لکھیے۔

    الفاظ مُتضاد
    قریب دُور
    باہر اندر
    اُوپر نیچے
    دِن رات
    وسیع تنگ
    پہلا آخری
    نرم سخت
    اعلیٰ ادنی

    سوال:مولوی عبدالحق کی حالات زندگی اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالیے۔

    حالات زندگی:

    مولوی عبدالحق کی پیدائش قصبہ ہاپوڑ کے قریب سراوہ میں 20اگست1870ء؁ کو ہوئی۔ بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا زبردست شوق تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں ہی حاصل کی اس کے بعد علی گڑھ کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد حیدر آبادمیں معلم کا پیشہ اختیار کیا۔اس عہدے سے ترقی کرتے کرتے انسپکٹر مدارس کے عہدے تک پہنچ گئے۔ عثمانیہ کالج میں بطورپرسنل کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔

    عثمانیہ یونیورسٹی کے قائم ہوتے ہی شعبہ اردو کے صدر اور پروفیسرمقرر ہوئے اور اسی عہدے سے نوکری سے سبکدوش ہوئے۔ اس کے بعد آپ دہلی چلے آئے اور اردو کی ترقی کے لئے انجمن ترقی اردو کے لیے کتابوں کی بڑی اشاعت شروع کی۔ الہ آباد اور علی گڑھ یونیورسٹیوں سے۔ایل۔ایل۔ڈی اور ڈاکڑیٹ کی اعزازی ڈگریاں حاصل کیں۔ملک کا بٹوارہ ہونے کے بعد آپ کراچی چلے آئے جہاں پر آپ کا انتقال 16اگست 1961ء میں ہوا۔؁

    ادبی خدمات:

    مولوی عبدالحق کو بابائے اردو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے اردو کی بڑی خدمت کی۔کئی سالوں تک سہ ماہی رسالہ ”اردو“ نکالاجس میں خاص کر تحقیقی اور تنقیدی مضامین چھبتے تھے۔ ہر بات سوچ سمجھ کر لکھتے تھے۔ عبارت میں الجھاؤ نہیں جو کچھ لکھتے تھے صاف ستھرے اور عام فہم انداز میں وضاحت سے لکھتے تھے۔ مشکل زبان لکھنے والوں کو وہ اردو کا دشمن کہتے تھے اور آسان زبان لکھنے پر زور دیتے تھے۔