نوکروں پر سخت گیری کرنے کا انجام | قطعات کی تشریح

0

قطعہ :

قطعہ کے لغوی معنی ٹکڑے کے ہیں لیکن اصطلاح شعر میں قطعہ غزل کی ہئیت میں کہے گئے ان دو یا دو سے زیادہ اشعار کو کہتے ہیں جو معنی کے اعتبار سے باہم مربوط ہوں۔ غالب ، حالی ، اکبر و اقبال جیسے شعراء کی وجہ سے قطعہ نے باقاعدہ ایک صنف کا درجہ پالیا۔ قطعے میں مطلع نہیں ہوتا البتہ قافیہ اور ردیف کا خیال رکھا جاتا ہے۔  میر، سودا اور نظیر اکبر آبادی کے قطعہ معروف ہیں۔

تعارف شاعر

خواجہ الطاف حسین حالی پانی پت میں پیدا ہوئے۔ آپ فارسی کے استاد تھے۔ آپ نے لاہور کے تعلیمی بک ڈپو میں کام کیا جہاں آپ کو مولوی محمد حسین آزاد کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا۔ بک ڈپو کی ملازمت کے دوران سر سید  نے حالی کو علی گڑھ بلایا۔  شعر کی طرف آپ کا فطری میلان تھا۔ آپ نے سر سید کی تحریک سے متاثر ہو کر مسدس مدو جزر اسلام لکھا۔ اردو نثر میں ان کی قابلِ قدر تصانیف یادگارِ غالب، حیات سعدی اور حیات جاوید ہیں۔ آپ کا دیوان مقدمہ شعر و شاعری کے نام سے شائع ہوا ہے۔ غزلوں میں مقابلے میں آپ کی نظمیں زیادہ مقبول ہوئیں۔

قطعات کی تشریح

ایک آقا تھا ہمیشہ نوکروں پر سخت گیر
درگزر تھی اور نہ ساتھ ان کے رعایت تھی کہیں
بےسزا کوئی خطا ہوتی نہ تھی ان کے معاف
کام سے مہلت کبھی ملتی نہ تھی ان کے تئیں

تشریح :

اس نظم میں شاعر لوگوں کو یہ تلقین کررہے ہیں کہ اپنے نوکروں کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں کیونکہ وہ بھی انسان ہوتے ہیں۔ اگر ہم نوکروں کا خیال نہیں رکھیں گے تو وہ مصیبت کے وقت ہمارے کام نہیں آئیں گے۔ اس قطعے میں شاعر کہتے ہیں کہ ایک آقا تھا وہ ہمیشہ اپنے نوکروں کے ساتھ سخت رویہ اپنائے رکھتا تھا۔ نہ وہ کبھی اپنے نوکروں کو غلطی کرنے پر رعایت دیتا تھا اور نہ ہی ان کی غلطی کو درگزر کرتا تھا۔ شاعر کہتے ہیں ان کی کسی غلطی کو وہ معاف نہیں کرتا تھا بلکہ ان کو ہمیشہ سزا دیتا تھا۔ وہ ایسا ظالم تھا کہ اپنے نوکروں کو کبھی بھی کام سے فرصت نہیں لینے دیتا تھا بلکہ ہمیشہ ان سے کام کرواتا رہتا ہے۔

قطعہ :

حسنِ خدمت پر اضافہ یا صلہ تو درکنار
ذکر کیا نکلے جو پھوٹے منہ سے اس کے آفریں
پاتے تھے آقا کو وہ ہوتے تھے جب اس سے دوچار
نتھنے پھولے منہہ چڑھا ماتھے پہ بل ابرو پہ چیں

تشریح :

اس نظم میں شاعر لوگوں کو یہ تلقین کررہے ہیں کہ اپنے نوکروں کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں کیونکہ وہ بھی انسان ہوتے ہیں۔ اگر ہم نوکروں کا خیال نہیں رکھیں گے تو وہ مصیبت کے وقت ہمارے کام نہیں آئیں گے۔ اس قطعے میں شاعر کہتے ہیں کہ جب کوئی نوکر اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا تھا تو اس صورت میں اس کی حوصلہ افزائی کرنا یا اسے انعام تو دور کی بات ہے بلکہ وہ اس نوکر کے اچھے رویے کا ذکر تک کرنا گوارا نہیں کرتا تھا۔ شاعر کہتے ہیں کہ نوکر جب بھی اپنے آقا کو دیکھتے تھے تو آقا کا نتھنے پھولے ہوئے ہوتے تھے، اس کا منہہ چڑھا ہوتا تھا، اس کے ماتھے پر بل ہوتے تھے اور ابرو پر چیں ہوتا تھا۔ یعنی کہ وہ ہر وقت منہ بنا کر رکھتا تھا۔

قطعہ :

تھی نہ جز تنخواہ نوکر کے لیے کوئی فتوح
آگے ہوجاتے تھے خاین جوکہ ہوتے تھے امیں
رہتا تھا اک اک شرائط نامہ ہر نوکر کے پاس
فرض جس میں نوکر اور آقا کے ہوتے تھے تعیں

تشریح :

اس نظم میں شاعر لوگوں کو یہ تلقین کررہے ہیں کہ اپنے نوکروں کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں کیونکہ وہ بھی انسان ہوتے ہیں۔ اگر ہم نوکروں کا خیال نہیں رکھیں گے تو وہ مصیبت کے وقت ہمارے کام نہیں آئیں گے۔ اس قطعے میں شاعر کہتے ہیں کہ کسی بھی نوکر کو وہ آقا کوئی انعام نہیں دیتا تھا بلکہ صرف تھوڑی سی تنخواہ دے دیتا تھا۔ شاعر کہتے ہیں کہ جب کوئی اس کے پاس کام کرنے آتا تو ایمانداری سے کام کرتا لیکن اس کے رویے کی وجہ سے سب اس سے خاین ہوجاتے تھے۔ شاعر کہتے ہیں اس آقا نے ہر نوکر کو ایک شرائط نامہ دیا تھا جس میں نوکر اور آقا کے فرائض لکھے ہوئے تھے۔

قطعہ :

گر رعایت کا کبھی ہوتا تھا کوئی خواستگار
زہر کے پیتا تھا گھونٹ آخر بجائے انگبیں
حکم ہوتا تھا شرائط نامہ دکھلاؤ ہمیں
تاکہ یہ درخواست دیکھیں واجبی ہے یا نہیں

تشریح :

اس نظم میں شاعر لوگوں کو یہ تلقین کررہے ہیں کہ اپنے نوکروں کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں کیونکہ وہ بھی انسان ہوتے ہیں۔ اگر ہم نوکروں کا خیال نہیں رکھیں گے تو وہ مصیبت کے وقت ہمارے کام نہیں آئیں گے۔ اس قطعے میں شاعر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نوکر کبھی اپنے آقا سے کام میں رعایت مانگتا تھا تو آقا اسے کوئی رعایت نہیں دیتا تھا بلکہ کہتا تھا کہ اپنا شرائط نامہ لے آؤ تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ تم جو رعایت مانگ رہے ہو وہ تمھارا حق ہے یا نہیں لیکن اس کا جواب سن کر ہر نوکر خوش ہونے کے بجائے زہر کے گھونٹ ہی کر رہ جاتا تھا۔

قطعہ :

واں سوا کے تنخواہ کے تھا جس کا آقا ذمہ دار
تھیں کریں جتنی وہ ساری نوکروں کے ذمے تھیں
دیکھ کر کاغذ کو ہوجاتے تھے نوکر لاجواب
تھے مگر وہ سب کے سب آقا کے مارِ آستیں

تشریح :

اس نظم میں شاعر لوگوں کو یہ تلقین کررہے ہیں کہ اپنے نوکروں کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں کیونکہ وہ بھی انسان ہوتے ہیں۔ اگر ہم نوکروں کا خیال نہیں رکھیں گے تو وہ مصیبت کے وقت ہمارے کام نہیں آئیں گے۔ اس قطعے میں شاعر کہتے ہیں کہ اس شرائط نامے کے مطابق آقا کو اپنے نوکر کو صرف تنخواہ ہی دینی تھی اور کسی قسم کی رعایت نہیں دینی تھی۔ بلکہ اس شرائط نامے میں صرف نوکروں کی ہی ذمہ داریاں لکھی ہوئی تھیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس کاغذ کو دیکھ کر سب نوکر ہی چپ رہ جاتے تھے لیکن وہ سب ہی اپنے آقا سے پریشان تھے۔

قطعہ :

ایک دن آقا تھا اک منہ زور گھوڑے پر سوار
تھک گئے جب زور کرتے کرتے دستِ نازنیں
دفعتاً قابو سے باہر ہو کے بھاگا راہوار
اور گرا اسوار صدر زیں سے بالائے زمیں

تشریح :

اس نظم میں شاعر لوگوں کو یہ تلقین کررہے ہیں کہ اپنے نوکروں کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں کیونکہ وہ بھی انسان ہوتے ہیں۔ اگر ہم نوکروں کا خیال نہیں رکھیں گے تو وہ مصیبت کے وقت ہمارے کام نہیں آئیں گے۔ اس قطعے میں شاعر کہتے ہیں کہ ایک دن وہ آقا ایک گھوڑے پر سوار تھا۔ کچھ دیر بعد اسکے ہاتھ گھوڑے کی لگام کو تھامے ہوئے ہونے کی وجہ سے تھک گئے اور وہ گھوڑا بےقابو ہوگیا جس کی وجہ سے وہ آقا گھوڑے پر سے نیچے جاگرا۔

قطعہ :

کی بہت کوشش نہ چھوٹی پاؤں سے لیکن رکاب
کی نظر سائیس کی جانب کی ہو آکر معیں
تھا مگر سائیس ایسا سنگ دل اور بے وفا
دیکھتا تھا اور ٹس سے مس نہ ہوتا تھا لعیں

تشریح :

اس نظم میں شاعر لوگوں کو یہ تلقین کررہے ہیں کہ اپنے نوکروں کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں کیونکہ وہ بھی انسان ہوتے ہیں۔ اگر ہم نوکروں کا خیال نہیں رکھیں گے تو وہ مصیبت کے وقت ہمارے کام نہیں آئیں گے۔ اس قطعے میں شاعر کہتے ہیں کہ آقا نے گرنے کے بعد کوشش کی کہ ان کا پیر رکاب سے نکل جائے لیکن ایسا نہ ہوسکا تب ہی ان کی نظر اپنے نوکر پر پڑی اور انھیں لگا کہ ان کا نوکر انھیں بچا لے گا۔ لیکن اب ان کے نوکر کی باری تھی اور بھی بالکل ویسا ہی ظالم بن گیا جیسا اس کا آقا ظالم تھا اور وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔

شعر :

دور ہی سے تھا اسے کاغذ دکھا کر کہہ رہا
دیکھ لو سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں

تشریح :

اس نظم میں شاعر لوگوں کو یہ تلقین کررہے ہیں کہ اپنے نوکروں کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں کیونکہ وہ بھی انسان ہوتے ہیں۔ اگر ہم نوکروں کا خیال نہیں رکھیں گے تو وہ مصیبت کے وقت ہمارے کام نہیں آئیں گے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ نوکر نے وہی شرائط نامہ دور سے لہرایا اور اپنے آقا سے کہا کہ اس میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ جب آپ گھوڑے سے گریں تو میں آپ کو بچاؤں۔

  • مشق :

۱) یہ کہانی بیان کرنے سے حالی کا کیا مقصد ہے؟

جواب : اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنے نوکروں کی بھی عزت کرنی چاہیے ان کے کام آنا چاہیے تاکہ وہ مشکل وقت میں ہمارے کام آئیں اور دل سے ہماری عزت کریں۔

۲) ہمیں اپنے ماتحتوں سے کس قسم کا برتاؤ کرنا چاہیے؟

جواب : ہمیں اپنے ماتحتوں سے اچھا برتاؤ رکھنا چاہیے اور ان کی عزت کرنی چاہیے۔

۳) اس قطعے میں جو کہانی بیان کی گئی ہے اسے اپنے الفاظ میں لکھیں :

جواب : اس قطعے میں یہ کہانی بیان کی گئی ہے کہ ایک آقا اپنے نوکروں پر بہت ظلم کرتا تھا۔ ایک دن وہ گھوڑے کی سواری کرتے ہوئے گِر گیا۔ اس کے مظالم سے تنگ اس کے نوکر جو دل سے اس کی عزت نہیں کرتے تھے انھوں نے اپنے آقا کو گرنے سے نہیں بچایا۔

۴) مندرجہ ذیل اشعار کو نثر میں بدل دیں:

کی بہت کوشش نہ چھوٹی پاؤں سے لیکن رکاب
کی نظر سائیس کی جانب کی ہو آکر معیں
تھا مگر سائیس ایسا سنگ دل اور بے وفا
دیکھتا تھا اور ٹس سے مس نہ ہوتا تھا لعیں

جواب : اس نے بہت کوشش کی لیکن اس کا پاؤں رکاب سے نہیں نکل سا۔ اس کی نظر اپنے نوکر پر جاپڑی، لیکن اس کا نوکر بھی بےوفا اور سنگ دل تھا جو اسے دیکھتا رہا لیکن ٹس سے مس نہ ہوا۔

۵) اردو شاعری کی اہم صنف قطعہ پر نوٹ لکھیے :

قطعہ :

قطعہ کے لغوی معنی ٹکڑے کے ہیں لیکن اصطلاح شعر میں قطعہ غزل کی ہئیت میں کہے گئے ان دو یا دو سے زیادہ اشعار کو کہتے ہیں جو معنی کے اعتبار سے باہم مربوط ہوں۔ غالب ، حالی ، اکبر و اقبال جیسے شعراء کی وجہ سے قطعہ نے باقاعدہ ایک صنف کا درجہ پالیا۔ قطعے میں مطلع نہیں ہوتا البتہ قافیہ اور ردیف کا خیال رکھا جاتا ہے۔  میر، سودا اور نظیر اکبر آبادی کے قطعہ معروف ہیں۔

۶) حالی حیات کا تذکرہ کیجیے :

جواب : آپ پانی پت میں پیدا ہوئے۔ آپ فارسی کے استاد تھے۔ آپ نے لاہور کے تعلیمی بک ڈپو میں کام کیا جہاں آپ کو مولوی محمد حسین آزاد کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا۔ بک ڈپو کی ملازمت کے دوران سر سید  نے حالی کو علی گڑھ بلایا۔  شعر کی طرف آپ کا فطری میلان تھا۔ آپ نے سر سید کی تحریک سے متاثر ہو کر مسدس مدو جزر اسلام لکھا۔ اردو نثر میں ان کی قابلِ قدر تصانیف یادگارِ غالب، حیات سعدی اور حیات جاوید ہیں۔ آپ کا دیوان مقدمہ شعر و شاعری کے نام سے شائع ہوا ہے۔ غزلوں میں مقابلے میں آپ کی نظمیں زیادہ مقبول ہوئیں۔

۷) حالی کی ادبی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کا مقام متعین کیجیے :

جواب : ان کی ادبی خدمات بےتحاشا ہیں اس لیے ان کا مقام بھی اردو ادب میں بہت اونچا ہے۔