سیر چوتھے درویش کی

0

سوال (1): میر امن کے حالات زندگی اور ادبی خدمات لکھیں۔

حالاتِ زندگی

میر امن دہلوی کا اصلی نام میر امان اللہ تھا۔ آپ کی ولادت دہلی میں ہوئی۔ آپ اپنا تخلص پہلے لطف کیا کر تے تھے لیکن بعد میں میر امن رکھ دیا اور آپ کے آباواجدا د مغلیہ سلطنت میں بڑھے بڑھے عہدوں پر فائز تھے۔ دہلی پر جب احمد شاہ ابدالی نے حملہ کیا تو آپ کا خاندان دہلی سے ہجرت کر کے پہلے پٹنہ آیا لیکن بعد میں کلکتہ میں اپنی سکونت اختیار کی اور یہاں پر نواب دلاور جنگ نے آپ کو اپنے چھوٹے بھائی میر محمّد کاظم کو تعلیم دینے پر مامور کیا۔

یہ کام دو سال تک جاری رکھا پھر میر بہادر علی حسینی کے ذریعے ڈاکٹر جان گلکریسٹ تک رسائی حاصل کی اور فورٹ ولیم کالج میں ملازم مقرر ہوئے۔ یہاں انہیں ترجمہ کا کام ّ ماہانہ چالیس روپیو ں کے عوض سونپا گیا۔

ادبی خدمات

جب تک اردو زبان و ادب کا نام باقی رہے گا تب تک میر امن دہلوی کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا جاےگا اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ میر امن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے فورٹ ولیم کالج میں رہ کر فارسی قصہ ”چہار در ویش“ کا ترجمہ اردو زبان میں باغ و بہار کے نام کے ساتھ کیا اور یہ کتاب بہت مقبول ہوئی۔

باغ و بہار سے ہی دقیق اردو لکھنے کے بجائے عام فہم اردو لکھنے کا رواج شروح ہوا۔ میر امن کی تحریر سادہ ، صاف ، بامحاورہ ہے۔ سر سیداحمد خان نے میر امن کی ادبی خدمات کا احترا ف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ” میر امن دہلوی کو اردو نثر میں وہی مرتبہ حاصل ہے جومیر تقی میر کو شاعری میں حاصل ہے۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے لکھا ہے کہ جہاں وہ آسانی سے عربی اور فارسی کے الفاظ لکھ سکتے تھے وہاں پر بھی انہوں نے سیدھے سادے لفظ کو ترجیح دی ہے۔ مثلاً خوشی کی جگہ آنند ، رونق کی جگہ روبٹ ، پیام کی جگہ سندیسہ، جسے لفظو ں کا انتخاب کیا ہے تاکہ ہر آدمی اس کتاب کو پڑھ کر لطف حاصل کر سکے۔

میر امن کی تحریر کردہ ”باغ و بہار“ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں جو پانچ قصے پیش ہوئے ہیں وہ آسان اور دلنشین زبان میں ہیں۔ ان قصوں میں اخلاقی رنگ بھی ہے اور حسن و عشق کی داستان بھی، لیکن یہ سب خوبیاں اسی وقت قابل ذکر ہوتی ہیں جب قصے کی زبان میں صفائی اور زور ہو۔ میر امن کی زبان اتنی سادہ نہیں ہے جتنی بظاھر معلوم ہوتی ہے لیکن اس میں خواہ مخواہ کی رنگینی اور پیچیدگی بھی نہیں ہے۔ ان کے پاس عربی فارسی اور دیسی ہر طرح کے الفاظ کا ذخیرہ ہے اور اسے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ میر امن کو محاکات اور جزئیات نگاری پر بھی کمال کا عبور حاصل تھا۔

سوال(4) : ”سیر چوتھے درویش“ کو اپنے الفاظ میں تحریر کیجیے۔

جواب: ”سیر چوتھے درویش کی“ میر امن کی مشہور کتاب ”باغ و بہار“ میں لکھے گئے پانچ مشہور قصوں میں سے ایک قصہ ہے۔میر امن نے جان گلکرسٹ کی فرمائش پر فارسی کے مشہور قصہ ”چہار درویش“ کو اردو میں ”باغ و بہار“ کے نام سے 1802ء تحریر کیا۔ ”باغ و بہار“ میں پیش کیے گئے باقی چار قصوں میں ”سیر پہلے درویش کی“ ، ”سیر دوسرے درویش کی“ ، ”سرگزشت آزاد بخت بادشاہ کی “ اور ”سیر تیسرے درویش کی “ شامل ہیں۔ ہمیں اس کہانی میں صرف ”سیر چوتھے درویش کی“ سے سروکار ہے جو باغ و بہار کا سب سے آخری قصہ ہے۔ آئیے ”سیر چوتھے درویش کی“ کا خلاصہ پڑھتے ہیں۔

چوتھا درویش بادشاہ چین کا بیٹا ہے۔ درویش کا باپ مرتے وقت اپنے بھائی کو وصیت کرتا ہے کہ جب میرا بیٹا بڑا ہو جائے تو اس سے اپنی لڑکی کی شادی کرکے تخت و سلطنت اسے دے دینا لیکن چچا اسے مروانے کا حکم دیتا ہے اور مبارک نامی غلام کو یہ کام سونپتا ہے۔ مبارک شہزادے کا دل سے وفادار تھا۔ اسے قتل کرنے کے بجائے وہ جنوں کے بادشاہ ملک صادق کے پاس لے جاتا ہے جو اس کے باپ کا دوست تھا۔

ملک صادق اس شرط پر مدد کرنے کو تیار ہوتا ہے کہ درویش اس کی محبوبہ کو، جس کی تصویر اس کے پاس ہے، تلاش کر کے لائے۔ مبارک اور درویش اسی لڑکی (محبوبہ) کے ملک پہنچتے ہیں۔ وہاں ایک فقیر، لڑکی پر آسیب کا قصہ اسے سناتا ہے جس کے گھر میں اس کے باپ (بادشاہ) نے اسے ڈال دیا ہے۔ درویش خود اس لڑکی پر عاشق ہو جاتا ہے مگر مبارک کی ہدایت پر اس کے قریب نہیں جاتا اور جب اسے لے کر ملک صادق کے پاس آتا ہے تو مبارک ایک ایسا تیل اس لڑکی کے جسم پر مل دیتا ہے کہ جب وہ ملک صادق کے سامنے آتی ہے تو بدبو سے اس کا دماغ پر خراب ہو جاتا ہے۔

طیش میں آ کر ملک صادق مبارک اور بادشاہ زادہ (درویش) کو مارنے کی دھمکی دیتا ہے۔ بادشاہ زادہ ملک صادق کا خنجر چھین کر اس کی توند میں گھونپ دیتا ہے۔ غصے میں آ کر ملک صادق اس کو ایک لات رسید کرتا ہے اور جب بادشاہ زادہ (درویش) ہوش میں آتا ہے تو خود کو خار دار جنگل میں پاتا ہے۔ مایوسی کے عالم میں وہ جان دینے والا ہی تھا کہ ایک برقع پوش آ کر کہتے ہیں کہ جلد ملک روم کو جا، تین شخص ایسے ہی آگے گئے ہیں ان سے ملاقات کر۔

چوتھے درویش کے قصے کے بعد ہی آزادبخت کے ہاں لڑکا پیدا ہونے کی خبر آتی ہے اور کچھ دیر بعد یہ خبر بھی آتی ہے کہ جس وقت شہزادے کو نہلا دھلا کر دائی کی گود میں دیا، ایک ابر کا ٹکڑا آیا اور دائی کو گھیر لیا اور شہزادہ غائب ہو گیا۔ تیسرے دن وہی بادل پھر آتا ہے اور شہزادے کو جڑاؤ پنکھولے میں واپس کر جاتا ہے۔ ہر جمعرات کو یہی ہوتا ہے۔ آزاد بخت ایک جمعرات کو ایک شقہ پنکھولے میں رکھ دیتے ہیں اور اس کے جواب میں ایک ہوادار آ کر آزاد بخت اور چاروں درویشوں کو ساتھ لے جاکر جنوں کے بادشاہ ملک شہپال کے ہاں پہنچا دیتا ہے۔ یہاں آکر شہپال کے وسیلے سے سب کی مرادیں بر آتی ہیں اور سارے قصوں کے بھید کھل جاتے ہیں اور اس دعا کے ساتھ کہ الہی جس طرح یہ چاروں درویش اور پانچوں بادشاہ آزاد بخت اپنی مراد کو پہنچے اسی طرح ان قصوں کو پڑھنے والا ہر ایک نامراد کا مقصد دل اپنے فضل و کرم سے بھر لا۔

(2) ان فقروں کے معنی پر غور کریں۔

بخوبی تربیت ہوا۔ اچھی طرح سے پرورش ہوئی۔
حادثہ رو بکار ہوا۔ حادثہ پیش آیا۔

اب استاد کی مدد سے اس سبق میں درج اسی قسم کے چند اور فقرے تلاش کریں اور ان کے معنی بھی لکھیں۔

سلطنت سے کنارہ پکڑنا۔ تخت و تاج سے الگ ہو جانا۔
یہ کیا طلسم ہے۔ یہ کیسا عجیب نظارہ ہے۔
محنت کچھ نیک نہ لگی۔ محنت کسی کام نہ آئی۔
یہ وصیت میری تم بجا لائیو۔ میری باتوں پر عمل کیجئے۔
ارادہ کوچ کا کیا۔ سفر کرنے کا ارادہ کیا۔

(3)سوالات:

١: فرش پر سے پتھر ہٹانے کے بعد شہزاد نے زمین کے اندر کیا دیکھا؟

جواب: فرش پر سے پتھر اٹھانے کے بعد شہزادے نے زمین کے اندر ایک تہہ خانہ دیکھا جس میں چار مکان تھے۔ ہر ایک کے دالان میں دس دس مٹکے تھے جو سونے کی زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے اور ہر ایک گولی کے منہ پر ایک سونے کی اینٹ اور ایک بندر رکھا ہوا تھا۔ چاروں مکانوں میں کل 39 گولیاں تھیں صرف ایک مٹکا ایسا تھا جو اشرفیوں سے تو بھرا پڑا تھا لیکن اس کے منہ پر نہ اینٹ رکھی تھی اور نہ بندر تھا۔ اس کے علاوہ شہزادے نے ایک حوض دیکھا جو لعل و جواہرات سے بھرا پڑا تھا۔

٢: ملک صادق کون تھا اور شہزادے کے ساتھ ان کا کیا رشتہ تھا؟

جواب: ملک صادق جنوں کا ایک بادشاہ تھا جو شہزادے کے والد مرحوم کا دوست تھا۔

٣: شہزادے کے چچا کے لئے کیوں کہا گیا ہے کہ ”وہ بجائے ابوجہل کے“ تھا؟

جواب: ابوجہل حضرت محمدﷺ کا چچا تھا لیکن اس نے آپﷺ کے ساتھ بہت زیادتیاں اور تکلیف دیں۔ چونکہ شہزادے کا چچا بھی اس کے ساتھ برا سلوک کرتا تھا اور اس کا تخت و تاج چھین کر اسے مار ڈالنا چاہتا تھا، اسی لیے اسے بجائے ابوجہل کے کہا گیا تھا۔

(5) خالی جگہوں کو پُر کیجئے۔

  • مبارک شہزادے کا (ہمدرد) تھا۔
  • بادشاہ شہزادے کو (مارنا چاہتا) تھا۔
  • ملک صادق نے شہزادے کو (خوش) کیا۔
  • شہزادہ (چالیسواں) بندر لانا چاہتا تھا۔

(6) سیاق و سباق کے ساتھ مصنف کا حوالہ دے کر درج ذیل پیراگراف کاماحاصل لکھیے۔

” جب تلک شہزادہ جو مالک اس تخت و چتر کا ہے جو جوان ہو اور شعور سنبھالے اور اپنا گھر دیکھے بھالے تم اس کی نیابت کیجیو اور سپاہ ورعیت کو خراب نہ ہونے دیجو۔ جب وہ بالغ ہو اس کو سب کچھ سمجھا بجھا کر تخت حوالے کرنا اور روشن اختر جو تمہاری بیٹی ہے، کی اس سے شادی کر کے تم سلطنت سے کنارہ پکڑنا۔ اس سلوک سے بادشاہت ہمارے خاندان میں قائم رہے گی، کچھ خلل نہ آوے گا۔ یہ کہہ کر آپ تو جاں بحق تسلیم ہوئے۔“

جواب: یہ اقتباس میر امن دہلوی کی داستان ”باغ و بہار“ کے ایک قصے ” سیر چوتھے درویش کی “سے لیا گیا ہے۔ اس میں بادشاہ مرنے سے پہلے اپنے بھائی یعنی شہزادے کے چچا کو وصیت کرتا ہے کہ شہزادہ چونکہ ابھی چھوٹا اور نابالغ ہے اس لیے اس کے جوان ہونے تک حکومت کا کام کاج آپ کو سنبھالنا ہوگا اور جب شہزادہ جوان ہو گا تو تخت و تاج اس کےحوالے کر دینا اور اپنی بیٹی روشن اختر کی شادی شہزادے سے کروا دینا اور خود حکومت سے کنارہ کشی اختیار کرلینا۔ ایسا کرنے سے ہماری بادشاہت کی یہ خاندانی روایت قائم رہے گی اور اس میں کچھ خلل نہیں آئے گا۔ اپنے بھائی کو یہ وصیت کرنے کے بعد بادشاہ وفات پا جاتا ہے۔

(7) داستان پر مختصر نوٹ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

گرامر

مفرد: ایسا لفظ جس سے ایک منی سمجھے جائیں مفرد کہلاتا ہے۔ جیسے بادشاہ، برس، شہزادہ، تخت وغیرہ۔

مرکب: دو یا دو سے زیادہ الفاظ مل کر مرکب بنتا ہے۔ جیسے اگلے برس، مبارک گھڑی، گرم پانی وغیرہ۔
مرکب کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔( ١) مرکب ناقص (٢) مرکب تام

(١) مرکب ناقص وہ مرکب ہے جس سے سننے والے کو پورا مطلب حاصل نہ ہو۔ جیسے ظالم بادشاہ، گرم پانی، مبارک گھڑی، ملک صادق وغیرہ۔

(٢) مرکب تام ایسے مرکب کو کہتے ہیں جس سے سننے والے کو پورا مطلب سمجھ میں آجائے۔ جیسے ملک صادق جنوں کا بادشاہ تھا، میں نے گرم پانی سے وضو کیا، میں دسویں کلاس میں پڑھتا ہوں۔ وغیرہ۔

(8) درج ذیل الفاظ کو ملا کر صحیح جملے بنائیے۔

غلط جملے صحیح جملے
تھا ملک صادق جنوں کا بادشاہ۔ ملک صاحب جنوں کا بادشاہ تھا۔
دسویں پڑھتا میں جماعت ہوں میں۔ میں دسویں جماعت میں پڑھتا ہوں۔
کنارے دریا میرا مدرسہ واقع کے ہے‌۔ میرا مدرسہ دریا کے کنارے واقع ہے۔
کشمیر بھر دنیا میں مشہور ہے۔ کشمیر دنیا بھر میں مشہور ہے۔
داستان میر امن باغ و بہار نے لکھی ہے۔ داستان باغ و بہار میر امن نے لکھی ہے۔