شرک کی تعریف اور اقسام، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 03

سوال۱:شرک کیسے وجود میں آیا؟

جواب: دنیا کا پہلا انسان عقیدہ توحید کا قائل تھا۔ پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام تھے۔ جو اللہ تعالیٰ کے پہلے نبی تھے۔آپ علیہ السلام نے اپنی اولاد کو بھی توحید کے عقیدے کی تعلیم دی مگر جیسےجیسے انسانی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا اور لوگ ادھر ادھر بکھرنے لگے تو آہستہ آہستہ لوگوں نے سچی تعلیمات کو جھٹلا دیا اور گمراہی کا شکار ہو کر ایک اللہ تعالیٰ کی بجائے خدا ماننے لگے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ انھیں بھی معبود بنا لیا۔اس طرح لوگوں نے جس چیز کو ہیبت ناک دیکھا، اس سے ایسے خوفزدہ ہوئے کہ اسے دیوتا سمجھ لیا اور اس کی پوجا پاٹ شروع کر دی۔

سوال۲: لوگوں نے شرک کرتے ہوئے کن کن کو پوجنا شروع کردیا؟

جواب: لوگوں نے جس چیز کو ہیبت ناک دیکھا، اس سے ایسے خوفزدہ ہوئے کہ اسے دیوتا سمجھ لیا اور اس کی پوجا پاٹ شروع کر دی۔ اس طرح انھوں نے آگ کا دیوتا، سمندر کا دیوتا اور آندھیوں کا دیوتا گھڑ لیے۔

سوال۳: شرک کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کریں؟

جواب: شرک کے لغوی معنی ہیں ”حصہ داری“ اور ساجھے پن کے ہیں۔ دین کی اصطلاح میں شرک کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات یاصفات کے تقاضوں میں کسی کو اس کا حصہ دار اور ساجھی ٹھہرایا جائے۔

سوال۴:شرک کی کتنی اقسام ہیں؟ نام لکھیں۔

  • جواب: شرک کی تین اقسام ہیں:
  • ۱) ذات میں شرک
  • ۲) صفات میں شرک
  • ۳) صفات کے تقاضوں میں شرک

سوال۵: قرآن پاک کی ایسی آیات درج کیجیے جن میں شرک کی مذمت کی گئی ہے۔

جواب:قرآن پاک کی سورۃ سورۃ القمان کی آیت نمبر ۱۳ میں ارشاد ہے:
”بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے“
قرآن پاک کی سورۃ النساء کی آیت میں ارشاد ہے:
”اللہ تعالیٰ(یہ بات) معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے۔ لیکن اس کے علاوہ (وہ گناہ) جس کسی کو بھی چاہے گا بخش دے گا۔“

تفصلی سوالات:

سوال۱: شرک کی اقسام کی وضاحت کیجیے۔

  • جواب: شرک کی تین اقسام ہیں:
  • ۱) ذات میں شرک
  • ۲) صفات میں شرک
  • ۳) صفات کے تقاضوں میں شرک

(۱) ذات میں شرک:

اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کا ہمسر اور ا سکے برابر سمجھا جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی اولاد یا کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد سمجھا جائے، کیونکہ والد اور اولاد کی حقیقت ایک ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا جس طرح دو خداؤں کو ماننا شرک ہے اسی طرح کسی کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا یا بیٹی سمجھنا بھی شرک ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: ”نہ اس کی کوئی اولاد ہے، نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے“ (سورۃ الاخلاص: ۴، ۳)

(۲)صفات میں شرک:

اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسی صفات کسی دوسرے میں ماننا اور اس جیسا علم قدرت یا ارادہ کسی دوسرے کے لیے ثابت کرنا، کسی دوسرے کو ازلی و ابدی سمجھنا یا دوسرے کو قادر مطلق تصور کرنا یہ سب (اللہ تعالیٰ کی صفات میں) شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: کوئی چیز اس کی مثل نہیں۔ (سورۃ الشوریٰ: ۱۱)
کیونکہ ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی محتاج ہےاور جس کسی میں جو صفت بھی پائی جاتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتی ہیں۔ کسی کی عطا کردہ نہیں۔

(۳) صفات کے تقاضوں میں شرک:

اللہ تعالیٰ عظیم صفات کا مالک ہے۔ ان صفات کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اس کی عبادت کی جائے، اور اسی کے سامنے پیشانیاں جھکائی جائیں۔ حقیقی اطاعت و محبت کا صرف اسی کو حق دار سمجھا جائے اور یہ ایمان رکھا جائے کہ وہی کارساز ہے۔ اقتداراعلیٰ صرف اس کے ہاتھ میں ہے۔ اسی کو قوانین پر عمل کرنا ضروری ہے اور اس کے قوانین کے مقابلے میں کسی کا قانون کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے:
ترجمہ: تم صرف اس کی عبادت کیا کرو۔ ( سورۃ بنی اسرائیل: ۲۳)
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
ترجمہ: اور تمہارا معبود اایک ہی ہے۔ بجز اس کے کوئی معبود نہیں ہے۔(سورۃ البقرۃ: ۱۶۳)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
ترجمہ: اور جو کوئی اللہ کے نازل کیے ہوئے (احکام) کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو یہی لوگ تو کافر ہیں۔( سورۃ المائدہ: ۴۴)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے۔

اللہ تعالیٰ ہی کو منعم حقیقی سمجھا جائے اور خلوص دل سے اس کا شکر بجالایا جائے یہ شرک صرف یہی نہیں کہ زبان سے ”یا اللہ تیرا شکر ہے“ کہہ دیا جائے بلکہ اس کی حقیقی صورت یہ ہے کہ اپنی اطاعت و بندگی کا رخ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف پھیر دیا جائے اور غیر اللہ کی اطاعت و بندگی کا اپنی عملی زندگی میں کوئی شائبہ تک نہ رہنے دیا جائے۔

ہمیں یہ خوب خیال رکھنا چہائے کہ شرک صرف یہی نہیں کہ پتھر یا لکڑی کے بت بنا کر ان کو پوجا جائے بلکہ یہ بھی شرک ہے کہ ہر چھوٹی بڑی حاجت پوری کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے لولگائی جائے۔ ہر مشکل میں اللہ تعالیٰ ہی کو قادر مطلق اور مسبب الاسباب سمجھ کر اسی کے فیض و کرم سے اپنی مجبوریوں کا حل تلاش کرنا چاہئے۔ بے شمار مسلمان ایسے ملتے ہیں جو زبانی طور پر تو اللہ تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن عملاً اپنی اولاد، روزگار، صحت اور دیگر مسائل کو انسانوں کے سامنے اسی عاجزی اور امید سے پیش کرتے ہیں جس طرح صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ انسان کی کمزوری کا بیان اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں۔

ترجمہ: اور پکڑتے ہیں اللہ کے سوا دوسرے کارساز کہ شاید (ان کی طرف سے) ان کو مدد پہنچے۔ (حالانکہ ) وہ ان کی مدد کی (کوئی) طاقت نہیں رکھتے اور یہ ان کی فوج ہو کر پکڑے آئیں گے۔ (سورۃ یٰسین: ۷۴، ۷۵)
آگے فرماتے ہیں:
ترجمہ: بھلا وہ کون ہے جو روزی دے تم کو۔ اگر اللہ روک لے اپنی روزی۔ (سورۃ الملک : ۲۱)