ہجرت کا لغوی معنی ، مفہوم، فضیلت

0

سوال۱: ہجرت پر تفصیلی مضمون لکھیں۔

ہجرت کا مفہوم:

ہجرت کے معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ کوچ کر جانا ہے۔ یعنی ایک جگہ یا مقام کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہو جانا ہجرت کہلاتا ہے۔ اسلام میں ہجرت کے معنی ہیں کہ مسلمان جہاں محکوم و مظلوم ہوں وہاں سے منتقل ہو کر کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں انھیں مذہبی آزادی ہو۔اسلام کے اوائل میں جب مسلمان تعداد میں چند ایک تھے تو کفار نے مسلمانوں کو نبی کریمﷺ کی پیروی کرنے کی پاداش میں ظلم کا نشانہ بنایا۔ مسلمانوں پر اذیتیوں کے پہاڑ توڑ دیئے گئے اور عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ مسلمانوں کو ہرگز مذہبی آزادی نہ تھی مسلمان اپنی عبادات چھپ چھپ کرکرتے تھے۔ جب انھوں نے پایا کہ اب کوئی چارہ نہیں مکہ میں ان کا جینا دو بھر ہو گیاتو اللہ کے حکم پر انھوں نے مکہ سے ہجرت کرلی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنےلگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز و ناتواں تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے“ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے ہاں جو مرد اور عورتیں اور بچے بے بس ہیں کہ وہ کوئی چارہ کر سکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں، قریب ہے کہ اللہ ان کو معاف کر دے اور اللہ معاف کرنے والو اور بخشنے والا ہے۔

ہجرت کی فضیلت:

ہجرت کے نتیجے میں ایک مسلمان کو دنیا میں بھی فائدہ ہے اور آخرت میں بھی جیساکہ ارشاد پاک ہے کہ:
”جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے لیے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے، اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے، کاش وہ (اسے) جانتے یعنی وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔“
اس طرح ہجرت کرنے والے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت کے بھی حق دار قرار پاتے ہیں، اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

”پھر جن لوگوں نے بلائیں اٹھانے کے بعد ترک وطن کیا پھر جہاں کیا اور ثابت قدم رہے، بے شک تمہارا پروردگار ان کے بعد بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔“
اللہ تعالیٰ نے ہجرت کرنے والوں کےلیے مغفرت، جنت اور بہترین اجر کا انعام رکھا ہے، اور انہیں یقین دلایا ہے کہ انہیں بخش دیا جائے گا، ان کے اعمال ضائع نہیں ہوں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد کچھ اس انداز میں ہوا ہےکہ:
”تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کرلی کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا، تم ایک دوسرے کی جنس ہو۔تو جو لوگ میرے لیے وطن چھوڑ گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور لڑے اور قتل کیے گئے ہیں ان کے گناہ دور کر دونگا، اور ان کو جنت میں داخل کرونگا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہ اللہ کے ہاں بدلا ہے اور اللہ کے ہاں اچھا بدلا ہے۔“
اس لیے بجا طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جب تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا اس وقت تک سب سے افضل اور بڑا عمل یہی ہجرت کا عمل تھا۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہجرت اللہ کی راہ میں اور اللہ کے دین پر قایم رہنے اور اس کی دعوت و اشاعت کے لیے ہو۔