اجزء الثالث: من ھدی الحدیث

0

سوال۱ : ایمان کی تکمیل کے اصول لکھیں۔

جواب: ترجمہ: ”جس نے اللہ تعالیٰ کے لیےمحبت کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے بغض رکھا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عطا کیا اور روکا تو اس نے ایمان مکمل کر لیا۔“ (سنن ابوداؤد درقم الحدیث: ۴۶۷۱)

مفہوم:

  • اس حدیث مبارکہ میں تکمیل ایمان کے چار بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔
  • انسان کسی سے محبت کرے تو اللہ تعالیٰ کے لیے کرے۔
  • کسی سے بغض رکھے تو اللہ تعالیٰ کے لیے رکھے۔
  • کسی کو کچھ عطا کرے تو محض اللہ تعالیٰ کے لیے۔
  • کسی کو عطا کرنے سے ہاتھ روکھے تو اللہ تعالیٰ کے لیے۔

نبی کریمﷺ نے ان چاروں اعمال کو ایمان کی تکمیل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ انسان سے بے حد محبت رکھتاہے لہٰذا انسان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی محبت و الفت کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کو رکھے۔ دنیا میں جس سے محبت رکھے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے۔ اس کے علاوہ اول تو کسی بغض نہ رکھے اور اگر کسی سے بغض ہو بھی تو اس کی بنیاد محض یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو ناپسند کرتا ہے۔ لہٰذا جب کسی سرکش و ظالم کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرمایا تو ہم کیوں اسے پسند کریں؟
اگر کسی کو مال دینا ہو تو اس کی بنیاد بھی ریاکاری یا دنیوی غرض نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہو اور اگر کسی سے ہاتھ روکنا ہو تو محض اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے ہاتھ روکنے کا حکم دیا ہے۔

سوال : اسلامی معاشرے کی تباہی کا ایک بڑا سبب کیا ہے؟

جواب: ”جس شخص نے کسی ناجائز کام میں اپنی قوم کو مدد کی تو وہ اس اونٹ کی طرح جو کنویں میں گر پڑا اور پھر دم پکڑ کر نکالا جا رہا ہو۔“ (سنن ابی داؤد: حدیث ۵۱۱۷)

مفہوم:

اس حدیث میں اسلامی اخوت کی بربادی اور اسلامی معاشرے کی تباہی کا ایک بڑا سبب بیان کیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص کسی جھوٹے اور ناحق معاملے میں اپنی قوم قبیلے کا ساتھ دیتا ہے وہ اپنی قوم کے ساتھ اپنے آپ کو بھی تباہ و برباد کرتا ہے۔اس کی مثال اس اونٹ کی طرح ہے جو کنوئیں میں گر گیا ہو اور جسے دم سے پکڑ کر باہر نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ لیکن جس طرح کنوئیں میں گرے ہوئے اونٹ کو دم سے پکڑ کر نکالنا ممکن نہیں ہے، ایسے ہی متعصب شخص کا جہنم سے نکلنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے ہمیں چاہئے کہ بھلائی اور نیکی کے کاموں میں قوم اور نسل یا زبان اور علاقے کی تفریق کے بغیر سچ اور حق کے ساتھ دیں اور ناجائز کاموں میں کسی کا ساتھ نہ دیں، چاہے وہ اپنا کنبہ اور قبیلہ ہی کیوں نہ ہو۔

سوال : اللہ تعالیٰ سے تعلق کیسے قائم رکھا جاسکتا ہے؟

جواب: ترجمہ: نماز دین کا ستون ہے۔ جس نے اسےقائم کیا اس نے گویا دین کو قائم کیا اور جس نے اسے ڈھایا اس نے گویا دین کو ڈھایا۔

مفہوم:

اس حدیث میں دین کو ایک عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے جس کا ستون نماز ہے۔ جس نے اس ستون کو قائم رکھا اس نے گویا دین کی عمارت کو قائم رکھا اور جس نے اس ستون کو گرایا اس نے دین کی عمارت کو زمین بوس کر دیا۔ اس سے نماز کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔
ہر مسلمان کے لیے روزانہ پانچ مرتبہ ایمان کے امتحان کا موقع آتا ہے۔ مؤذن اسے نماز اور فلاح کی طرف بلاتا ہے۔ اگر وہ پکار پر لبیک کہتا ہے تو گویا وہ اپنے ایمان کی صداقت کا ثبوت پیش کرتا ہے۔نماز ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے اس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور رابطہ قائم رہتا ہے۔ ترک نماز سے یہ تعلق کمزور ہو جاتا ہے۔

سوال : جمعے کے خطبے کے دوران خاموشی کیوں ضروری ہے؟

جواب: ترجمہ: ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا” جب تم نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے یہ کہا کہ خاموش ہو جاؤ جب کہ امام خطبہ دے رہا ہو، تو تم نے فضول بات کی۔“ (صحیح بخاری: حدیث ۹۳۴)

مفہوم:

علم کا پہلا ادب یہ ہے کہ علم کی بات خاموشی اور توجہ سے سنی جائے۔ وعظ ونصحیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اسے توجہ سے سنا جائے۔ اگر بات دھیان سے سنی ہی نہ جائے تو اسے سمجھنا ناممکن ہے، اس پر عمل کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ تاکید کی گئی ہے کہ خطبہ جمعہ جو اسلامی تعلیمات میں رہنمائی کا ایک ذریعہ ہے، کو خاموشی اور توجہ سے سنا جائے۔
حدیث مبارکہ میں یہ بھی بتایا گیاہے کہ جمعہ کے خطبے کے دوران یہ بھی روا نہیں کہ اس دوران اگر کوئی بول رہا ہو تو اسے منع کیا جائے کیونکہ اس سے لوگوں کی توجہ میں خلل آتا ہے۔

سوال : خطبے کے وقت ہمیں کہاں بیٹھنا چاہیے؟

جواب: ترجمہ:” جو شخص جمعہ کے دن لوگوں کی گردنوں پر سے پھلانگ کر گیا اس نے (گویا ) جہنم کی طرف پل بنایا۔“(سنن ابن ماجہ: حدیث ۱۱۱۶)

مفہوم:

اس حدیث میں آداب جمعہ، آداب مجلس، احترام انسانیت، تہذیب و سلیقہ اور نظم و ضبط کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ معاشرت کی مندرجہ بالا تمام خوبیوں کے بارے میں جامع تعلیم دینے کے لیے آداب نماز جمعہ کو موضوع بنایا گیا ہے کہ جب جمعہ کا خطبہ ہو تو بعد میں آنے والے پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر آگے نہ جائیں کیونکہ یہ بات آداب مجلس کے بھی منافی ہے۔ لہٰذا شائستگی کے ساتھ، جہاں بھی جگہ ملے وہیں بیٹھ جانا چاہئے۔

سوال : کون سی بات مسجد کے آداب کے خلاف ہے؟

جواب: ترجمہ: ”جب نماز کھڑی ہو جائے تو اس کے لیے دوڑتےہوئے نہ آؤ بلکہ اطمینان (اور وقار) کے ساتھ چلتے ہوئے آؤ۔ جو(نماز ) تم پاؤ اسے ادا کرو اور جو تم سے رہ جائے تو اسے پورا کرلو۔“ (سنن ابن ماجہ: حدیث۷۷۵)

مفہوم:

نماز جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہئے۔ نماز کے اہتمام میں سے یہ بھی ہے کہ جماعت کھڑی ہونے سے پہلے مسجدپہنچا جائے اور تکبیر اولیٰ میں شرکت کی جائے۔ تاہم اگر کسی مجبوری کی بناء پر کوئی دیر سے مسجد پہنچے اور نماز ادا ہو رہی ہو تو بھاگتے دوڑتے جماعت میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہ مسجد کے آداب اور متانت و سنجیدگی کے خلاف ہے۔ مسجد کی تعظیم کو مدنظر رکھتے ہوئے دوڑنے سے احتراز کیا جائے اور سکون و اطمینان کے ساتھ چل کر جماعت میں شامل ہو جائے۔ مسبوق (وہ نمازی جو شروع سے جماعت میں شامل نہ ہو سکا ہو) کو چاہئے کہ جتنی رکعتیں جماعت کے ساتھ نصیب ہوجائیں ان کو جماعت کے ساتھ پڑھے اور جو رکعتیں فوت ہو گئیں ہوں اور ان کو بعد میں پورا کرے۔ جماعت میں شریک ہونے کے لیے مسجد میں دوڑنا آداب مسجد کے خلاف ہے اس لیے اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔

سوال : انسان کے پچھلے گناہ کب معاف کیے جاتے ہیں؟

جواب: ترجمہ: ”جس نے ایمان کے ساتھ اور اجر کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور اس (کی راتوں) میں قیام کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔“ (صحیح بخاری: حدیث ۱۹۰۱)

مفہوم:

روزہ دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ اس مہینے میں انسان کے اندر دینی اور صبر و تقویٰ پیدا کرنے کے لیے مخصوص دینی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ اس ماہ کو نیکیوں کا سیزن قرار دیا جاسکتا ہے۔ رمضان کے پورے مہینے کے روزہ فرض کر دیے گئے ہیں۔ جو مسلمان بندہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ثواب کی امید کے ساتھ روزے رکھے اور اس مبارک مہینہ کی راتوں میں اپنے رب کے حضور قیام کرے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔

سوال : روزہ دار کے لیے کونسی خوش خبری ہے؟

جواب: ترجمہ: ”روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خؤشی اس کے افطار کے وقت اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔“ (سنن ابن ماجہ: حدیث ۱۶۳۸)

مفہوم:

روزہ بظاہر مشقت والی عبادت ہے لیکن حقیقت میں اپنے مقصد اور نتیجے کے لحاظ سے یہ دنیا میں موجب راحت اور آخرت میں باعث رحمت ہے۔روزہ دار دن بھر اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں نہ کچھ کھاتا ہے نہ پیتا ہے لیکن افطار کے وقت اس کے لیے ایک خوشی کا سامان ہے، کہ جب وہ بھوک و پیاس کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتا ہے تو اسے عجیب فرحت و مسرت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ آخرت میں جب وہ اپنے رب کا دیدار کرے گا تو اس وقت اس کی خوشی کی انتہا نہ رہے گی۔

سوال : حدیث میں حج کے متعلق کیا حکم ہے؟

جواب: ترجمہ: ”جس نے بیت اللہ کا حج اور اس کے مناسک (پورے) ادا کیے اور مسلمان اس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے محفوظ رہے تو اس کے پہلے گناہ معاف کر دیے گئے۔“

مفہوم:

حج بھی اسلام کا ایک رکن ہے۔ ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بار بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ حج کے سلسلے میں مکہ معظمہ میں دنیا بھر کے مسلمان کا اجتماع ہوتا ہے۔ لہٰذا اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ اس موقع پر صبر و تحمل، عفو درگزر اور ایثار سے کام لیا جائے۔ اپنے کسی مسلمان بھائی کی زبان سے دل آزاری کی جائے نہ ہاتھ سے اسے کوئی تکلیف پہنچائی جائے۔ اس حدیث میں یہی بات کہی گئی ہے کہ جو حج اس اہتمام سے کیا جائے گا، اس کے نتیجے میں انسان کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔

سوال : حدیث میں غبار آلود قدموں سے کیا مراد ہے؟

جواب: ترجمہ: ”جس کے قدم اللہ کی راہ میں غبار آلود ہوئے، اللہ نے اسے آگ پر حرام کر دیا۔“ (صحیح بخاری: حدیث ۹۰۷)

مفہوم:

بندہ اپنے رب کی خوشنودی کےلیے جو بھی مشقت اور تکلیف برداشت کرتا ہے، اس پر اس کے لیے اجر ہے۔ اور جو قدم اللہ کی راہ میں اٹھاتا ہے وہ اس کے لیے مغفرت اور بلندی درجات کا باعث بنتا ہے۔علم کی طلب،نماز کی ادائیگی اور مسلمان بھائی کی مدد یا عیادت کے لیے اپنے قدم غبار آلود کرنا بھی فلاح و کامیابی کا ذریعہ ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے نکلے تو ا سکے ہر قدم پر نیکی ہے۔ اگر کوئی مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کے عزم سے چلے تو یہ ایسا پسندیدہ عمل ہے کہ اس راستے میں اس کے غبار آلود ہونے والے قدموں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ حرام کر دیتا ہے۔