Islamiat Notes For Class 10th KPK Board | سورۃ الاحزاب آیات۳۵ تا ۴۰

0

الدرس الثانی(ب) آیات۳۵ تا ۴۰

اِنَّ الۡمُسۡلِمِيۡنَ وَالۡمُسۡلِمٰتِ وَالۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ وَالۡقٰنِتِيۡنَ وَالۡقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيۡنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيۡنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالۡخٰشِعِيۡنَ وَالۡخٰشِعٰتِ وَالۡمُتَصَدِّقِيۡنَ وَ الۡمُتَصَدِّقٰتِ وَالصّآٮِٕمِيۡنَ وَالصّٰٓٮِٕمٰتِ وَالۡحٰفِظِيۡنَ فُرُوۡجَهُمۡ وَالۡحٰـفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيۡنَ اللّٰهَ كَثِيۡرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿۳۵﴾

جو لوگ خدا کے آگے سر اطاعت خم کرنے والے ہیں یعنی) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کے لئے خدا نے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔

وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّلَا مُؤۡمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ اَمۡرًا اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهُمُ الۡخِيَرَةُ مِنۡ اَمۡرِهِمۡؕ وَمَنۡ يَّعۡصِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِيۡنًا‏ ﴿۳۶﴾

اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا۔

وَاِذۡ تَقُوۡلُ لِلَّذِىۡۤ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِ وَاَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِ اَمۡسِكۡ عَلَيۡكَ زَوۡجَكَ وَاتَّقِ اللّٰهَ وَتُخۡفِىۡ فِىۡ نَفۡسِكَ مَا اللّٰهُ مُبۡدِيۡهِ وَتَخۡشَى النَّاسَ ‌ۚ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشٰٮهُ ؕ فَلَمَّا قَضٰى زَيۡدٌ مِّنۡهَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰكَهَا لِكَىۡ لَا يَكُوۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ حَرَجٌ فِىۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِيَآٮِٕهِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡهُنَّ وَطَرًا ؕ وَكَانَ اَمۡرُ اللّٰهِ مَفۡعُوۡلاً‏ ﴿۳۷﴾

اور جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے احسان کیا اور تم نے بھی احسان کیا (یہ) کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے اور خدا سے ڈر اور تم اپنے دل میں وہ بات پوشیدہ کرتے تھے جس کو خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے۔ حالانکہ خدا ہی اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔ پھر جب زید نے اس سے (کوئی) حاجت (متعلق) نہ رکھی (یعنی اس کو طلاق دے دی) تو ہم نے تم سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مومنوں کے لئے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے) میں جب وہ ان سے اپنی حاجت (متعلق) نہ رکھیں (یعنی طلاق دے دیں) کچھ تنگی نہ رہے۔ اور خدا کا حکم واقع ہو کر رہنے والا تھا ۔

مَا كَانَ عَلَى النَّبِىِّ مِنۡ حَرَجٍ فِيۡمَا فَرَضَ اللّٰهُ لهٗ ؕ سُنَّةَ اللّٰهِ فِىۡ الَّذِيۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُؕ وَكَانَ اَمۡرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقۡدُوۡرَا﴿۳۸﴾

پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا۔ اور جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان میں بھی خدا کا یہی دستور رہا ہے۔ اور خدا کا حکم ٹھیر چکا ہے۔

اۨلَّذِيۡنَ يُبَلِّغُوۡنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَيَخۡشَوۡنَهٗ وَلَا يَخۡشَوۡنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ حَسِيۡبًا‏ ﴿۳۹﴾

اور جو خدا کے پیغام (جوں کے توں) پہنچاتے اور اس سے ڈرتے ہیں اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ اور خدا ہی حساب کرنے کو کافی ہے۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِكُمۡ وَلٰـكِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا‏ ﴿۴۰﴾

محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے۔

الکلمات والترکیب
القنتت فرمانبردار عورتیں
المتصدقین صدقہ دینےوالے
الخییرۃ اختیار
امسک توروکے رکھ
تخفی تو چھپاتا ہے
وطرا حاجت
مبدی ظاہر کرنے والا
خاتم النبین آخری نبی

سوالات کے جوابات دیں:

سوال۱: اس سبق میں مسلمان مرد اور عورتوں کے کیا اوصاف بیان ہوئے ہیں اور اس کے لیے انھیں کس اجر کی نوید سنائی گئی ہے؟

جواب: مسلمان مرد اور عورتوں کے لیے اوصاف بیان کیے گئے ہیں درج ذیل ہیں۔
مسلمان مرد اور عورت ایک توحید کو مانتے ہوں اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں اس کے رسولﷺ کے طریقہ کو اپنائیں اور اسلام کو اپنی زندگی میں لاگو کریں اور انھوں نے اپنی زندگی کو سر خم تسلیم کرکے اسلام پر گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔وہ لوگ جو دل و جان سے ایمان لائے اور جو حکم ملا اس پو پورا کیا وہ لوگ مومن ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کوپورا کرنے کے لیے ہمہ تم تیار رہتے ہیں۔ مومنین مرد اللہ اور ا س کے رسولﷺ کے ہر حکم کو پورا کرتے ہیں بھلے وہ بات ان کی عقول پر آتی ہو یا نہ آتی ہو وہ کسی بھی حال میں کسی حکم کی تعمیل میں تاخیر نہیں کرتے۔وہ ہر حال میں سچ کو ترجیح دیتے ہیں بھلے اس سے کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ مومن صابر ہیں جو مشکل ترین آزمائش میں بھی شکوہ زبان پر نہیں لاتے۔وہ مومن مرد و عورت اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیںا ور ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔بے شک اللہ تعالیٰ ایسے اوصاف والے مومنین کی بخشش کرے گا اور انھیں اجر عظیم دے گا۔

سوال۲: اللہ اور اس کے رسولؐ کے فیصلوں کے بارے میں اہل ایمان کا کیا طرز عمل ہونا چاہئے؟

جواب: جب آپﷺ نے حضرت زینبؓ کے لیے اپنے منہ بولے بیٹےزید بن حارثہؓ کا رشتہ بھیجا توان کے بھائی حضرت عبداللہ نے اس رشتہ کو قبول کرنے سے انکار کیا اور خاندانی تعصب کا سہارا لیا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ جب کوئی فیصلہ کر لیں تو مومنین کو کوئی حق نہیں وہ اس پر اپنا اختیار چلائیں۔ جب اللہ اور رسولﷺ کی طرف سے کوئی فیصلہ سنایا جائے تو مسلمانوں کو چاہئے اسے اپنے لیے حکم مان کر قبول کریں بغیر اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کے اس پر قبول کرنا چاہئے۔ فیصلہ چاہئے ان کے موفق ہو یا ان کے خلاف ان کو ہر حال میں اس کا احترام کرنا چاہئے۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرے گا بڑے دن کا عذاب اسے آپکڑے گا۔

سوال۳: اس سبق میں حضرت زیدؓ کے بارے میں جو باتیں بیان کی گئیں ہیں ان کی وضاحت کریں:

جواب:حضرت زیدؓ بن حارثہ کے بارے میں جو بائیں بیان کی گئیں ہیں مندرجہ زیل ہیں:
حضرت زید بن حارثہؓ کا بچپن آپ کے ساتھ گزرا ۔ آپﷺ نے زیدؓ کو اپنے بچوں کی طرح پالا اور وہ آپ کے منہ بولے بیٹے بھی تھے ۔ آپﷺ نے زیدؓ کی شادی حضرت زینبؓ سے کروائی۔حضرت زیدؓ چونکہ کسی زمانے میں غلام تھے اور حضرت زینبؓ مالدار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ اسی وجہ سے ان کے گھر میں آئے روز ناچاقی رہتی اور گھر کا سکون متاثر ہوتا۔جب گھر کے جھگڑے بڑھتے گئےتو حضورؐ نےحضرت زیدؓ کوصبر کرنے کی تلقین کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اپنے گھر کو برباد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرو۔جب گھر کا امن مسلسل برباد رہنےلگا تو بالآخر حضرت زیدؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دیے دی۔

سوال۴: مندرجہ ذیل عبارات کے مفہوم بیان کریں:

(الف) وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّلَا مُؤۡمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ اَمۡرًا اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهُمُ الۡخِيَرَةُ مِنۡ اَمۡرِهِمۡ

ترجمہ: اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔

مفہوم:

یہ آیات کریمہ اس وقت نازل ہوئی جب نبیؐ نے حضرت زینبؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا تو حضرت زینبؓ نے نادانستگی میں یہ سمجھا کہ آپﷺ نے اپنےنکاح کا پیغام بھیجا ہے تو وہ انھوں نے خوشی سے قبول کر لیا مگر جب معلوم ہوا کہ آپﷺ نے نکاح کا پیغام حضرت زیدؓ کے لیے بھیجا ہے جو کہ غلام رہ چکے ہیں تو انھوں نے فوراً انکار کر دیا۔ مگر جب بعد میں ان کو معلوم ہوا کہ یہ حکم الہیٰ ہے تو انھوں نے بغیر کسی اعتراض کے سر تسلیم خم کر دیا۔ یہ آایت بھی اسی واقعہ کے تناظر میں نازل ہوئی کہ جب اللہ اور اس کا رسولﷺ کوئی فیصلہ سنا دیں تو اس پر اپنی عقل کو نہ چلاؤ۔ اپنی عقل سے قبل احکام الہیٰ کو ماننا ہر مسلمان مرد و عورت پر لازم ہے۔

(ب) اۨلَّذِيۡنَ يُبَلِّغُوۡنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَيَخۡشَوۡنَهٗ وَلَا يَخۡشَوۡنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ ؕ

ترجمہ: اور جو خدا کے پیغام (جوں کے توں) پہنچاتے اور اس سے ڈرتے ہیں اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔

مفہوم:

انبیاء اکرامؑ خاص اللہ تعالیٰ کے منتخب نمائندے ہوتےہیں کوئی شخص بھی اپنے زہد و تقویٰ کی بناء پر یہ مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ کوئی اپنی محنت سے رسالت کا مقام حاصل نہیں کر سکتا بلکہ جسے اللہ چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ انبیاء کرامؑ کوئی عام لوگ نہیں ہوتے یہ لوگ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اور بلند اخلاق کے مالک ہوتے ہیں وہی لوگ رسالت کے حقدار ہوتے ہیں جو اس منصب کا حق ادا کرنا جانتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس ذات واحد کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے۔ یہ وہی کچھ کہتے ہیں جو انھیں اللہ کی طرف سے تعلیم ہوتا ہے۔
قرآن میں آتا ہے کہ: ”نبیؐ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا صرف وہی کہتا ہے جو اس کو وحی کی جاتی ہے۔“

(ج) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِكُمۡ وَلٰـكِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا‏ ﴿۴۰﴾

ترجمہ: محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں۔

مفہوم:

اس آیت کریمہ میں حضرت زینبؓ اور حضرت زیدؓ کے نکاح اور طلاق کا ذکر ہے جب زیدؓ نے زینبؓ کو طلاق دے دی تو محمدؐ نے اللہ کے حکم کے مطابق اپنے منہ بولے بیٹے زیدؓ کی مطلقہ بیوی سے نکاح کر لیا تو مشرکین اور منافقین نے اس بات کا خوب مذاق اڑایا۔ وہ یہ افواہیں پھیلانے لگے کہ محمدؐ نے اپنے بیٹے زیدؓ کی مطلقہ سے نکاح کر لیاہے۔ عربوں میں جاہلیت کے دور سے یہ روایات عام تھیں کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا سمجھا جاتاتھا۔ اس آیت میں اللہ نے ارشاد فرمایا کہ محمدؐ مردوں میں کسی کے والد نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ اس سے مخالفین کے منہ بند ہو گئے اور جاہلیت کی اس رسم کا خاتمہ ہوا۔ ایک حدیث ہے:
”مجھے تمام انبیاء پر چھ فضیلتیں دی گئی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کیا گیا۔“ اور میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔