زکوۃ کی فرضیت، اہمیت اور مصارف

0

سوال۱: زکوٰۃ کا مفہوم اور اس کی فرضیت بیان کریں۔

زکوۃ:

زکوۃ کا لفظی معنی ہیں پاک ہونا، نشونما پانا، بڑھنا ، یہ مالی عبادت دین اسلام کا ایک اہم فرض رکن ہے۔اصطلاح شریعت میں زکوۃ ایک ایسی مالی عبادت ہے جو کہ ہر مسلمان عاقل، بالغ مرد و عورت جو صاحب نصاب ہوں پر سال میں ایک مرتبہ فرض ہے، اس کی ادائیگی ہر سال اس شخص کو کرنی پڑتی ہے جو دولت کی ایک مخصوص مقدار کا مالک ہو۔ اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر مشتمل ہے جن میں تیسرے نمبر پرزکوۃ ہے۔ زکوۃ ایک صاحب نصاب مسلمان پر اپنے مال میں سے ایک خاص شرح کے مطابق فرض ہے۔ زکوۃ ادا کرنے سے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے اور آخرت میں اس کا اجر بھی ملتا ہے۔ زکوۃ ادا نہ کرنا بڑا گناہ ہے۔

زکوۃ کی فرضیت:

زکوۃ رمضان 2ھ؁ کو فرض ہوئی۔ زکوۃ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے صاحب ثروت لوگوں کے مال میں غریبوں کا حصہ مقرر ہوا ہے۔ قرآن کریم میں اکثر مقامات پر نماز اور زکوۃ کی فرضیت کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے ”نماز قائم کرو اور زکوۃ دیتے رہو“ کا حکم بار بار دہرایا گیا ہے۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے:
”اے پیغمبرؐ! ان کے مالوں میں سے زکوۃ لے کر ان کو پاک صاف بنا“
نصاب و شرح زکوۃ: نصاب سے مراد مال کا وہ کم از کم اندازہ جو زکوۃ کے فرض ہونے کے لیے شریعت میں مقرر ہے۔ جو مال نصاب سے کم ہو اس پر زکوۃ لازم نہیں یعنی جس کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باول تولے چاندی یااس کی مالیت کے برابر نقدی یا سامان تجارت اپنی حاجات ضرورت سے زائد وفارغ ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس کا چالیسواں حصہ یا اڑھائی فیصد بطور زکوۃ دینا فرض ہے۔

سوال۲: زکوۃ کی اہمیت پر نوٹ لکھیے۔

جواب: زکوۃ اسلام میں مالی عبادت ہے۔ زکوۃ سماجی فلاح و بہبود کا بہترین ذریعہ ہے، زکوۃ کے ذریعے معاشرے کے محروف ومفلس لوگوں کی کفالت ہو جاتی ہے اور اس طرح معاشرے میں نفرت،بگاڑ، انتشار و انتقام کی بجائے ہمدردی و احترام اور باہمی محبت کے جذبات کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ زکوۃ دینے والے کے دل سے مال کی محبت مٹ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا جذبہ غالب رہتا ہے۔ غریبوں سے ہمدری کا جذبہ قائم رہتا ہے اور دولت کے گردش میں آنے سے معاشرے کے افراد کی مالی حالت اور بحران کا سبب کئی گنا حد تک کم ہو جاتا ہے اور مالی حالات بہتر ہو جاتے ہیں۔ زکوۃ کی اہمیت اس واقعہ سے بھی ظاہر ہوتی ہے ایک کہ جب ایک مرتبہ ایک گروہ نے بارگاہ نبوتؐ پر حاضر ہو کر اسلام کی تعلیمات دریافت کیں تو آپﷺ نے اعمال میں سب سے پہلے نماز اور پھر زکوۃ کا ذکر فرمایا:

رسول اللہﷺ کی رحلت کے بعد جب بعض لوگوں نے زکوۃ ادا کرنے سے انکار کیا تو حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے خلاف قرآن نے سخت وعید سنائی ہے جس کا اندازہ قرآن کریم کی ان آیات سے لگایا جا سکتا ہے۔
”اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو اس دن عذاب الیم کی خبر سنادو۔جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں (خوب) گرم کیا جائے گا۔ پھر اس سے ان (بخیلوں) کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اور کہا جائے گا) کہ یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا سو جو تم جمع کرتے تھے (اب) اس کا مزہ چکھو“ (التوبہ: ۳۴، ۳۵)

سوال۳: قرآنی تعلیمات کی روشنی میں زکوۃ کے مصارف بیان کیجئے۔

جواب: زکوہ کے مصارف کا ذکر قرآن حکیم میں ہے:
”صدقات (یعنی زکوٰة وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے میں) اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے ۔“ (سورۃ التوبہ: ۶۰)
قرآن مجید کی رو سے زکوۃ کے مصارف کی تعداد آٹھ ہے:

للفقراء:

فقراء کےلیے: فقیر سے مراد وہ مرد و عورت ہے جو اپنے گزر اوقات کے لیے دوسروں کی مدد اور تعاون کا محتاج ہو۔ جس کے پاس ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہ ہو۔

والمساکین:

مساکین کے لیے: اس سے مراد وہ شریف غرباء ہیں جو بچارے نہایت ہی غریب ہوں لیکن شرف کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں اور سمٹ چمٹ کر وقت گزار رہے ہوں۔

والعملین:

عاملین کے لیے: ان سےمراد زکوۃ کے محکمے کےملازمین یا زکوہ جمع کرنے والے سرکاری ملازم ہیں۔

والمولفۃ قلوبھم:

تالیف قلب کے لیے: ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی تالیف قلب یعنی دل جائی مطلوب ہو۔ اسلام کے مفاد میں ان کو ہموار کرنا اور مخالفت کےجوش کو ٹھنڈا کرنا پیش نظر ہو۔

وفی الرقاب:

گردن چھڑانے کے لیے: ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوں اور مالکوں کو رقم ادا کرکے آزاد ہونا چاہتےہوں۔

والغارمین:

قرض دار کے لیے: ایسے لوگ جو قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہوں اور قرض ادا نہ کر سکتے ہوں۔

وفی سبیل اللہ:

اللہ کی راہ کے لیے: اس سے مراد راہ خدا میں جہاد و اشاعت اسلام ہے۔

وابن السبیل:

مسافر کے لیے: ایسا مسافر جو خواہ اپنے گھر میں خوشحال ہو لیکن حالت سفر میں محتاج ہو۔

سوال۴: زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کو قرآن نے کیا وعید سنائی ہے؟

جواب: زکوۃ وہ فریضہ ہے جس کی عدم ادائیگی سے ابدی زندگی ناکام اور ہولناک ہو کر رہ سکتی ہے زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے خلاف قرآن نے سخت وعید سنائی ہے ۔قرآن کا ارشاد ہے:

ترجمہ:”اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو اس دن عذاب الیم کی خبر سنادو۔جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں (خوب) گرم کیا جائے گا۔ پھر اس سے ان (بخیلوں) کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اور کہا جائے گا) کہ یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا سو جو تم جمع کرتے تھے (اب) اس کا مزہ چکھو“

سوال : قرآن میں نماز و زکوۃ کے متعلق کیا حکم بار بار دہرایا گیا ہے۔

جواب: قرآن کریم میں ہے ”نماز قائم کرو اور زکوۃ دیتے رہو“ کا حکم بار بار دہرایا گیا ہے۔

سوال : کس خلیفہ نے زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے خلاف جہاد کیا؟

جواب: حضرت ابوبکرصدیقؓ نے زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے خلاف جہاد کیا۔

سوال : زکوۃ کے آٹھ مصارف کے نام لکھیں۔

جواب: زکوۃ کے آٹھ مصارف فقراء، مساکین، عاملین، تالیف قلب، رقاب، غارمین، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل ہیں۔