جہاد کا معنی، مفہوم، اہمیت، فضیلت

0

سوال۲: جہاد سے کیا مراد ہے؟

جہاد کا مفہوم:

جہاد کے معنی محنت اور کوشش کے ہیں اور اسلام میں اس کامفہوم ہے حق کی سربلندی اسکی اشاعت و حفاظت کے لیے ہر قسم کی کوشش قربانی اور ایثار کرنا اپنی تمام مالی جسمانی اور دماغی قوتوں کو اللہ کی راہ میں صرف کرنا یہاں تک کہ اس کے لیے اپنے اہل و عیال اپنے عزیز و اقارب خاندان اور قوم کی جانیں تک قربان کر دینا حق کے دشمنوں کی کوششوں کو ناکام بنانا، ان کی تدبیر کو اکارت کردینا، ان کے جملوں کو روکنا،نیز اس کے لیے اگر میدان جنگ میں آکر ان سے لڑنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کرنا، اس لیے جہاد کو اسلام میں بہت بڑی عبادت قرار دیا گیا ہے۔

اصول ضوابط:

جہاد ایک منظم کوشش کا نام ہے اور اسلام میں اس کے واضح اصول و ضوابط ہیں بغیر کسی نظم اور امیر کے کوئی شخص یا گروہ اپنی مرضی سے مسلح جدوجہد شروع کر دے، تو اسے جہاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔جہاد کے لیے ضروری ہے کہ ایک اسلامی ریاست کی طرف سے باقاعدہ اس کا حکم دیا گیا ہو، علماء و مجتہدین کے ادروں نے حالات اور اسباب کا بے لاگ جائزہ لے کر اس کے امکان اور ضرورت کا فیصلہ دیا اور اس کا مقصد مظلوم مسلمانوں کی امداد کرنا، اشاعت اسلام کے راستے کی رکاوٹوں اور فتنوں کو دور کرنا اور رضائے الہیٰ کا حصول ہو یہ بھی ضروری ہے کہ اسلحہ کی ضروری مقدار اور تربیت یافتہ افراد موجود ہوں۔

جو شخص اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے روپے سے، زبان سے، قلم سے، ہاتھ سے کوشش کرتا ہے وہ بھی جہاد کرتا ہے۔

جہاد کی اہمیت:

جہاد“ کا لفظ خاص طور پر اس جنگ کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو تمام دنیاوی اغراض سے پاک ہو کر محض اللہ کی رضا کے لیے اسلام کے دشمنوں سے کی جائے۔ شریعت میں اس جہاد کو فرض کفایہ کہتے ہیں یعنی یہ ایسا فرض ہے جو تمام مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے لیکن ایک جماعت اس کو ادا کرے تو باقی لوگوں پر سے اس کو ادا کرنے کی ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔ البتہ اگر کسی اسلامی ملک پر دشمنوں کا حملہ ہو تو اس صورت میں جہاد اس ملک کے تمام باشندوں پر ”نماز“ اور ”روزہ“ کی طرح فرض عین ہو جاتا ہے۔

سوال۳: جہاد کے مختلف اقسام تفصیل سے بیان کریں؟

جواب: قرآن مجید میں جہاد کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں درج ذیل ہیں:

جہاد بالنفس:

جہاد بالنفس بھی جہاد کی ایک قسم ہے۔ جہاد بالنفس سے مراد ہے جسم و جان سے جہاد کرنا۔ حتیٰ کہ اللہ کی راہ میں دشمنوں سے لڑتے لڑتے اپنی جان تک پیش کر دی جائے۔عام طورپر جب لفظ جہاد بولا جاتا ہے تو اس سے اسی قسم کا جہاد ہی مراد لیا جاتا ہے جس کو قرآن میں قتال کہا گیا ہے۔ جہاد کے لیے جنگی قوت کی تیاری کا حکم دیا گیا ہے اور جہاد میں شہید ہوجانے والوں کو مردہ کہنے سے بھی منع کیا گیا ہے اور ان کے متعلق بتایا گیا کہ وہ اپنے رب کی طرف سے رزق پارہے ہیں اور اس پر خوشیاں منارہے ہیں۔ ان کے لیے اجرعظیم، جنتوں کا بہترین ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔

جہاد بالعلم:

جہاد بالعلم جہاد کی ایک قسم ہے۔ دنیا کے تمام شر و فساد جہالت کا نتیجہ ہے۔ اور اس کا دور کرنا ضروری ہے۔ جہالت کے اندھیرؤں کو علم کی روشنی سے دور کرنا بھی جہاد ہے۔ اگر انسان عقل و شعور اور علم و دانش رکھتا ہے اسے چاہئے کہ دوسروں کو بھی اس سے فیض پہنچائے۔ انسان کو جو ہدایت ملی وہ دوسروں کو دینا جہاد ہی ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ النحل میں ارشاد ہے:

ترجمہ: ”لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف آنے کی دعوت حکمت و دانش اور خوب صورت نصحیت کے ساتھ کردو۔ اور ان سے مجادلہ (بحث و مباحثہ) جنگ بہت ہی خوب صورت طریقت سے کرو۔ اسی طرح عملی انداز میں دین کی دعوت و تبلیغ بھی جہاد کی ایک قسم ہے۔ اور نتائج و افادیت کے لحاظ سے اس کو بہت اہمیت حاصل ہے۔سورۃ الفرقان میں اسے ”جہاد کبیر“ قرار دیا گیا ہے۔

جہاد بالمال:

جہاد بالمال بھی جہاد کی ایک قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مال و دولت عطا فرمایا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ اسے اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے اور حق کی حمایت و نصرت کے سلسلے میں انفاق سے گریز نہ کیا جائے۔ انسان کابہترین مال کا مصرف وہی ہے جو وہ راہ خدا میں خرچ کرتا ہے۔ انسان جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اللہ نے اس کے بدلے بہتر عطا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔جو مال راہ خدا میں خرچ ہوتا ہے اس کا اجر کچھ تو دنیا میں ملے گا اور بقیہ آخرت میں جنت میں جانے کا سبب بنے گا۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا،یہ لوگ اللہ کے پاس نہایت بلند مرتبہ پر فائز ہیں۔
جو لوگ مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بجائے اس کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں انھیں ”عذاب الیم“ کی خوشخبری دی گئی ہے۔ سورۃ التوبہ میں ارشاد ہے:

ترجمہ: ”اور وہ لوگ جو سونے اور چاندی کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں درد ناک عذاب کی بشارت دے دو۔ “

فرائض کی ادائیگی:

جہادکی ایک قسم یہ بھی ہے کہ ہر نیک کام اور فرض کی ادائیگی میں اپنی جان و مال اور دماغ کی پوری قوت صرف کی جائے۔ ایک مرتبہ عورتوں نے جہاد کی اجازت چاہی تو رسولؐ نے فرمایا: ”تمہارا جہاد حج مبرور ہے“

ماں باپ کی خدمت:

ایک صحابیؓ نے جہاد میں شرکت کے لیے کہا تو آپؐ نے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ ہیں، اس نے عرض کیا، جی ہاں تو آپؐ نے فرمایا تو تم ان کی خدمت کے ذریعے جہاد کرو۔