Surah Ahzab Class 10 Notes | سورۃ الاحزاب آیات۲۸ تا ۳۴

0

الدرس الثانی(ا) آیات۲۸ تا ۳۴

يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِّاَزۡوَاجِكَ اِنۡ كُنۡتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا وَزِيۡنَتَهَا فَتَعَالَيۡنَ اُمَتِّعۡكُنَّ وَاُسَرِّحۡكُنَّ سَرَاحًا جَمِيۡلاً‏ ﴿۲۸﴾

اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت وآرائش کی خواستگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح سے رخصت کردوں۔

وَاِنۡ كُنۡتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَالدَّارَ الۡاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡكُنَّ اَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿۲۹﴾

اور اگر تم خدا اور اس کے پیغمبر اور عاقبت کے گھر (یعنی بہشت) کی طلبگار ہو تو تم میں جو نیکوکاری کرنے والی ہیں اُن کے لئے خدا نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔

يٰنِسَآءَ النَّبِىِّ مَنۡ يَّاۡتِ مِنۡكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُّضٰعَفۡ لَهَا الۡعَذَابُ ضِعۡفَيۡنِ‌ؕ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرًا‏ ﴿۳۰﴾

اے پیغمبر کی بیویو تم میں سے جو کوئی صریح ناشائستہ (الفاظ کہہ کر رسول الله کو ایذا دینے کی) حرکت کرے گی۔ اس کو دونی سزا دی جائے گی۔ اور یہ (بات) خدا کو آسان ہے۔

وَمَنۡ يَّقۡنُتۡ مِنۡكُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَتَعۡمَلۡ صَالِحًـا نُّؤۡتِهَـآ اَجۡرَهَا مَرَّتَيۡنِۙ وَاَعۡتَدۡنَا لَهَا رِزۡقًا كَرِيۡمًا‏ ﴿۳۱﴾

اور جو تم میں سے خدا اور اس کے رسول کی فرمانبردار رہے گی اور عمل نیک کرے گی۔ اس کو ہم دونا ثواب دیں گے اور اس کے لئے ہم نے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے۔

يٰنِسَآءَ النَّبِىِّ لَسۡتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَيَـطۡمَعَ الَّذِىۡ فِىۡ قَلۡبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلۡنَ قَوۡلاً مَّعۡرُوۡفًاۚ‏ ﴿۳۲﴾

اے پیغمبر کی بیویو تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو کسی (اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کیا کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔ اور ان دستور کے مطابق بات کیا کرو۔

وَقَرۡنَ فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاهِلِيَّةِ الۡاُوۡلٰى وَاَقِمۡنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيۡنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ ؕ اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُذۡهِبَ عَنۡكُمُ الرِّجۡسَ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيۡرًاۚ‏ ﴿۳۳﴾

اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں) میں اظہار تجمل کرتی تھیں اس طرح زینت نہ دکھاؤ۔ اور نماز پڑھتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔ اے (پیغمبر کے) اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے۔

وَاذۡكُرۡنَ مَا يُتۡلٰى فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالۡحِكۡمَةِؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيۡفًا خَبِيۡرًا ﴿۳۴﴾

اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں) ان کو یاد رکھو۔ بےشک خدا باریک بیں اور باخبر ہے ﴿۳۴﴾

الکلمات والترکیب
تردن (جمع مونث) تم چاہتی ہوں، تمہارا ارادہ ہے
تعالین آؤ
امتعکن میں تمہیں کچھ مال دوں
اسرحکن میں تمہیں رخصت کردوں
سراحا رخصتی، آزادی دینا
اعد تیار کرنا
ضعفین دوگنا، دہرا
اعتدنا ہم نے تیار کررکھا ہے
ان اتقیتن اگر تم اللہ سے ڈرتی ہوں
قرن قرار پکڑو، ٹھہری رہو
الرجس ناپاکی
یقنت فرمانبرداری اختیار کرنا ہے
لستن (تم نہیں ہو) مؤنث کا صیغہ
فلاتحضعن بالقول دبی زبان سے (یعنی نرم لہجے میں) بات نہ کرو
لاتبرجن زینت نہ دکھاتی پھرو، سج دھج کر باہر نہ نکلو
لیذھب عنکم تاکہ دور کردے تم سے(ناپاکی)

سوالات کے جوابات دیں:

سوال۱: اس سبق کی آیات کے حوالے سے بتائیےکہ اللہ تعالیٰ نے ازواج النبیؐ کو دو باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کے بارے میں کیا فرمایا؟

جواب:جنگ کے بدر کے بعد بھی مسلمانوں کے حالات زندگی جوں کے توں رہے۔ کئی کئی مہینے فاقوں میں گزرتے تھے۔آپﷺ کے گھر میں بھی کھانا پکانے کو آگ نہ جلتی تھی۔ ازواج نبیؐ نے مل کر آپؐ سے گھر کا خرچہ مانگ لیاجس پر اللہ تبارک تعالیٰ نے دو باتیں حکم فرمائیں:
اگر ازواج نبیؐ دنیا کا مال ومتاع چاہتی ہیں تو آپﷺ ان کو مال و دولت دے کر طلاق دے دیں یا پھر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ اسی حال میں گزارہ کریں اور آخرت میں اس سے بہتر اجر پائیں۔ازواج النبیؐ نے دنیا کے مال پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ترجیح دی ۔

سوال۲: ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کو کن احکام و آداب کی تلقین فرمائی ہے؟

جواب: سورۃ احزاب کی ان آیات میں ازواج مطہرات کو چند احکامات و آداب تلقین فرمائے۔
ازواج مطہرات کو نازیبا باتوں سے منع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام باتیں جو عام طور پر کوئی مسلمان عورت اپنے شوہر باپ یا بھائی سے کسی بھی چیز میں اضافہ کے بارے میں یا اپنے حقوق مانگنے کی بات کرتی ہے شامل ہیں ان باتوں سے امہات المومنینؓ کو منع فرمایا گیا ہے۔امہات المومنین دوسری عورتوں کی طرح عام عورتیں نہیں بلکہ یہ تمام مومنوں کی مائیں ہیں۔ اگر آپ نے کوئی غلطی کی تو اس کا گناہ بھی دوہراہوگا۔ازواج المطہرات کو حکم فرمایا گیا کہ کسی بھی عذر کے بغیر گھروں سے باہر نہ نکلیں اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہیں۔ چونکہ امت نے امہات المومنین کی پیروی کرنی ہے اس لیے تزئین و آرائش سے بھی گریز کریں تاکہ امت میں ان جہالت کی رسومات کو نہ دوہرایا جائے۔

سوال۳: اس سبق میں کسے مخاطب کیا گیا ہے؟

جواب اس سبق میں امہاتؓ المومنین یعنی آپﷺ کی بیویوں کو مخاطب کیا ہے۔

سوال۴: اس سبق میں عورتوں کو یہ کیوں کہا گیا ہے کہ وہ کسی اجنبی سے نرم لہجے میں بات نہ کریں؟

جواب: اس سبق میں عورتوں کو کسی اجنبی مرد سے نرم لہجے میں بات کرنے سے اس لیے منع کیا ہے کہ اس کے دل میں کسی قسم کی خواہش نہ پیدا ہو۔

سوال۵:عورتوں کا اظہارِ تجمل کس دور کی نشانی ہے؟

جواب:عورتوں کا اظہار تجمل جہاہلیت کے دور کی نشانی ہے۔

مندرجہ ذیل عبارات کا مفہوم بیان کریں۔

(الف) يٰنِسَآءَ النَّبِىِّ لَسۡتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ

ترجمہ: اے پیغمبر کی بیویو تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو

مفہوم:

اس آیت میں نبیﷺ کی بیویوں کو مخاطب کرکے یہ بات باور کرائی گئی کہ مرتبہ و مقام میں تم دوسری عورتوں کی طرح بالکل بھی نہیں ہو۔ تمہارا مرتبہ و مقام دوسری کسی عورت کی طرح نہیں تمہیں امت کی رہنمائی کرنی ہے اس لیے تمہارا امتحان و آزمائش بھی دوسری عورتوں سے زیادہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے امہات المومنینؓ کو نبی ﷺ کی زوجیت کے لیے منتخب کیا تمہیں اس امتیازی حیثیت کے لیے خدا کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ تم تقویٰ و پرہیزگاری میں زندگی گزارو تاکہ امت کے لیےیہ بہترین نمونہ ہو۔ اگر تم غلطی کرو گی تو عام عورتوں سے تمہیں دوہرا گناہ ہوگا اور تمہیں دوہری سزا ملے گی اور اگر نیکی اختیار کرو گی تو دوگنا اجر ملے گا۔

(ب) وَقَرۡنَ فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ

ترجمہ: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو

مفہوم:

ان آیات میں نبیﷺ کی بیویوں کو مخاطب کیا گیا اور تعلیم فرمائی گئی کہ امہات المومنین امت کے لیے زہد و تقویٰ کا بہترین نمونہ ہیں تمہارے کردار و اعمال سے امت کی رہنمائی ہوگی۔ اس لیے اے ! نبیؐ کی بیویوں تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو تاکہ اپنے گھروں کی طرف توجہ دے سکو انکا گھر فائض کی ادائیگی کے لیے بہترین جگہ ہے اور گھروں سے باہر فضول نہ نکلیں۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں: ایک مرتبہ عورتوں نے آپؐ سے عرض کیا کہ مردوں نے ساری فضیلت لوٹ لی ہے وہ جہاد کرتے ہیں اور ہم جہاد کے ثواب سے محروم ہیں آپؐ نے فرمایا:
”جو گھر بیٹھ کر فرائض ادا کریں گی وہ بھی مجاہدین کے عمل کو پالیں گی۔“
”عورت سرتاپا پردے کی چیز ہے جب گھر سے باہر قدم نکالتی ہے تو شیطان جھانکنے لگتا ہے یہ سب سے زیادہ حیاء کے قریب اس وقت ہوتی ہے کہ جب یہ اپنے گھر کے اندرونی حجرت میں ہو“
یہ خطاب تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہدایت ہے۔

(ج) وَلَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاهِلِيَّةِ الۡاُوۡلٰى

ترجمہ: گزشتہ دور جاہلیت کی طرح زینت کا اظہار نہ کرتی پھرو

مفہوم:

خدا تعالیٰ نے عورت کی تخلیق کی اور اس کی ہدایت کے لیے پردے کا حکم نازل فرمایا۔ اس لیے ان آیات کریمہ میں دور جاہلیت کی بات کی گئ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عرب اور دنیا کے دوسرے حصوں کی خواتین زینت کا اظہار کرتی تھیں اسلام نے بے پردگی کو حرام قرار دیا ہے زینت کی نمائش سے منع فرمایا ہے۔عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے زیور و لباس کو غیر مردوں کے سامنے ظاہر نہ کرے اس سے عورت کی اپنی تکریم میں کمی آئے گی اور معاشرے میں بگاڑ جنم لے گا۔ یہاں تعلیماً امہات ؓ المومنین کو یہ حکم دیا گیا کہ اپنے پردے کا خاص اہتمام کرنا چاہئے اور ساتھ ہی مسلمان عوتوں کو بھی یہ حکم دیا جارہا ہے کہ اپنی عصمت و حیاء کی حفاظت کریں۔