Islamiat Notes For Class 10 KPK Board Surah Ahzab | سورۃ الاحزاب آیات۹ تا ۲۰

0

الدرس الاول(ب) آیات۹ تا ۲۰

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اذۡكُرُوۡا نِعۡمَةَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ جَآءَتۡكُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِمۡ رِيۡحًا وَّجُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡهَا‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرًاۚ‏ ﴿۹﴾

مومنو خدا کی اُس مہربانی کو یاد کرو جو (اُس نے) تم پر (اُس وقت کی) جب فوجیں تم پر (حملہ کرنے کو) آئیں۔ تو ہم نے اُن پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر (نازل کئے) جن کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا اُن کو دیکھ رہا ہے۔

اِذۡ جَآءُوۡكُمۡ مِّنۡ فَوۡقِكُمۡ وَمِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡكُمۡ وَاِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَبَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَـنَـاجِرَ وَتَظُنُّوۡنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوۡنَاؕ‏ ﴿۱۰﴾

جب وہ تمہارے اُوپر اور نیچے کی طرف سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل (مارے دہشت کے) گلوں تک پہنچ گئے اور تم خدا کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔

هُنَالِكَ ابۡتُلِىَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَزُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالاً شَدِيۡدًا‏ ﴿۱۱﴾

وہاں مومن آزمائے گئے اور سخت طور پر ہلائے گئے۔

وَاِذۡ يَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا‏ ﴿۱۲﴾

اور جب منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے کہنے لگے کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکے کا وعدہ کیا تھا۔

وَاِذۡ قَالَتۡ طَّآٮِٕفَةٌ مِّنۡهُمۡ يٰۤـاَهۡلَ يَثۡرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمۡ فَارۡجِعُوۡا‌ۚ وَيَسۡتَاۡذِنُ فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمُ النَّبِىَّ يَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ بُيُوۡتَنَا عَوۡرَة‌ٌ ‌ۛؕوَمَا هِىَ بِعَوۡرَةٍ ۛۚاِنۡ يُّرِيۡدُوۡنَ اِلَّا فِرَارًا‏ ﴿۱۳﴾

اور جب اُن میں سے ایک جماعت کہتی تھی کہ اے اہل مدینہ (یہاں) تمہارے ٹھہرنے کا مقام نہیں تو لوٹ چلو۔ اور ایک گروہ ان میں سے پیغمبر سے اجازت مانگنے اور کہنے لگا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے۔ وہ تو صرف بھاگنا چاہتے تھے۔

وَلَوۡ دُخِلَتۡ عَلَيۡهِمۡ مِّنۡ اَقۡطَارِهَا ثُمَّ سُٮِٕلُوۡا الۡفِتۡنَةَ لَاٰتَوۡهَا وَمَا تَلَبَّثُوۡا بِهَاۤ اِلَّا يَسِيۡرًا‏ ﴿۱۴﴾

اور اگر (فوجیں) اطراف مدینہ سے ان پر آ داخل ہوں پھر اُن سے خانہ جنگی کے لئے کہا جائے تو (فوراً) کرنے لگیں اور اس کے لئے بہت ہی کم توقف کریں۔

وَلَقَدۡ كَانُوۡا عَاهَدُوۡا اللّٰهَ مِنۡ قَبۡلُ لَا يُوَلُّوۡنَ الۡاَدۡبَارَ‌ؕ وَكَانَ عَهۡدُ اللّٰهِ مَسۡـــُٔوۡلاً‏ ﴿۱۵﴾

حالانکہ پہلے خدا سے اقرار کر چکے تھے کہ پیٹھ نہیں پھریں گے۔ اور خدا سے (جو) اقرار (کیا جاتا ہے اُس کی) ضرور پرسش ہوگی۔

قُل لَّنۡ يَّنۡفَعَكُمُ الۡفِرَارُ اِنۡ فَرَرۡتُمۡ مِّنَ الۡمَوۡتِ اَوِ الۡقَتۡلِ وَاِذًا لَّا تُمَتَّعُوۡنَ اِلَّا قَلِيۡلاً‏ ﴿۱۶﴾

کہہ دو کہ اگر تم مرنے یا مارے سے بھاگتے ہو تو بھاگنا تم کو فائدہ نہیں دے گا اور اس وقت تم بہت ہی کم فائدہ اٹھاؤ گے۔

قُلۡ مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يَعۡصِمُكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ اِنۡ اَرَادَ بِكُمۡ سُوۡٓءًا اَوۡ اَرَادَ بِكُمۡ رَحۡمَةً‌ؕ وَلَا يَجِدُوۡنَ لَهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيۡرًا‏ ﴿۱۷﴾

کہہ دو کہ اگر خدا تمہارے ساتھ برائی کا ارادہ کرے تو کون تم کو اس سے بچا سکتا ہے یا اگر تم پر مہربانی کرنی چاہے تو (کون اس کو ہٹا سکتا ہے) اور یہ لوگ خدا کے سوا کسی کو نہ اپنا دوست پائیں گے اور نہ مددگار۔

قَدۡ يَعۡلَمُ اللّٰهُ الۡمُعَوِّقِيۡنَ مِنۡكُمۡ وَالۡقَآٮِٕلِيۡنَ لِاِخۡوٰنِهِمۡ هَلُمَّ اِلَيۡنَا‌ۚ وَلَا يَاۡتُوۡنَ الۡبَاۡسَ اِلَّا قَلِيۡلاً ۙ‏ ﴿۱۸﴾

خدا تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو (لوگوں کو) منع کرتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ۔ اور لڑائی میں نہیں آتے مگر کم۔

اَشِحَّةً عَلَيۡكُمۡ ‌‌ۖۚ فَاِذَا جَآءَ الۡخَوۡفُ رَاَيۡتَهُمۡ يَنۡظُرُوۡنَ اِلَيۡكَ تَدُوۡرُ اَعۡيُنُهُمۡ كَالَّذِىۡ يُغۡشٰى عَلَيۡهِ مِنَ الۡمَوۡتِ‌ۚ فَاِذَا ذَهَبَ الۡخَـوۡفُ سَلَقُوۡكُمۡ بِاَلۡسِنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَى الۡخَيۡرِ‌ؕ اُولٰٓٮِٕكَ لَمۡ يُؤۡمِنُوۡا فَاَحۡبَطَ اللّٰهُ اَعۡمَالَهُمۡ‌ؕ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرًا‏ ﴿۱۹﴾

(یہ اس لئے کہ) تمہارے بارے میں بخل کرتے ہیں۔ پھر جب ڈر (کا وقت) آئے تو تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں (اور) اُن کی آنکھیں (اسی طرح) پھر رہی ہیں جیسے کسی کو موت سے غشی آرہی ہو۔ پھر جب خوف جاتا رہے تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں زبان درازی کریں اور مال میں بخل کریں۔ یہ لوگ (حقیقت میں) ایمان لائے ہی نہ تھے تو خدا نے ان کے اعمال برباد کر دیئے۔ اور یہ خدا کو آسان تھا۔

يَحۡسَبُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ لَمۡ يَذۡهَبُوۡا‌ۚ وَاِنۡ يَّاۡتِ الۡاَحۡزَابُ يَوَدُّوۡا لَوۡ اَنَّهُمۡ بَادُوۡنَ فِىۡ الۡاَعۡرَابِ يَسۡـاَلُوۡنَ عَنۡ اَنۡۢبَآٮِٕكُمۡ‌ؕ وَلَوۡ كَانُوۡا فِيۡكُمۡ مَّا قٰتَلُوۡۤا اِلَّا قَلِيۡلاً‏ ﴿۲۰﴾

(خوف کے سبب) خیال کرتے ہیں کہ فوجیں نہیں گئیں۔ اور اگر لشکر آجائیں تو تمنا کریں کہ (کاش) گنواروں میں جا رہیں (اور) تمہاری خبر پوچھا کریں۔ اور اگر تمہارے درمیان ہوں تو لڑائی نہ کریں مگر کم۔

الکلمات والترکیب
زاغت ٹیڑھی ہوگی، پھر گئی
یولون الادبار وہ پیٹھ پھیریں گے۔
یعصم بچاتا ہے، بچائے گا
ھلم آؤ ہماری طرف
تدور اعینھم گھومتی ہیں ان کی آنکھیں۔ تدور کے معنی ہیں گھومتی ہیں، اعینھم کے معنی ہیں ان کی آنکھیں۔
یغشی غشی طاری ہوجاتی ہے، بے ہوشی آتی ہے
حداد تیز
الاحزاب احزاب حزب کی جمع ہے جس کے معنی ہیں گروہ
الاعراب بدو، دیہاتی
الحناجر حناجر حنجرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں گلہ کھلا،
ابتلی آزمائے گئے
اقطار اطراف
عورۃ غیر محفوظ
ماتلبثوا دیر نہیں لگائیں گے
اشحۃ شحیح کی جمع جس کے معنی ہیں بخیل

سوالات کے جوابات دیں:

سوال۱: سبق کی آیات کی روشنی میں بتائیے غزوہ احزاب میں اہل ایمان کو اللہ کی تائید و نصرت کیسے حاصل ہوئی؟

جواب: غزوہ احزاب میں مومنین کو اللہ کی تائید و نصرت دو طرح سے حاصل ہوئی:
غزوہ احزاب میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو چند ہدایات حکم کیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ثابت قدم رہنا، اللہ پر توکل کرنا اور تقویٰ سے کام لینے کا حکم دیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانون کی فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائی۔ جب مدینہ کو کفار نے چاروں طرف سے گھیر لیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کا نزول ہواجنھوں نے کفار کے دلوں پر رعب طاری کر دیا تھا۔اس رعب و خوف کے زیر اثر کفار میدان جنگ سے سہم گئے۔ دوسری مدد اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کے لیے ہوا کا آنا تھا۔ رات کو تیز آندھی چلی اور کفار کے خیمے اکھڑ گئے جس کے نتیجے میں وہ پاؤ سر پر رکھ کر بھاگ گئے۔

سوال۲: غزوہ احزاب کے دوران آزمائش کی گھڑیوں میں اہل ایمان اور منافقین کا طرز عمل کیا تھا؟

جواب: غزوہ احزاب کے دوران آزمائش کی گھڑی میں اہل ایمان اور منافقین کےطرز عمل میں واضح فرق تھا:
اھل ایمان کا طرز عمل: غزوہ احزاب میں مسلمانوں پر کفار چاروں اطراف سے چڑھ دوڑے تھے۔ مسلمانوں کا یہودیوں کے ساتھ امن معاہدہ تھا انھوں نے بھی معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور شہر کے ہر طرف سے بغاوت بھی ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کا گھراؤ تنگ ہوتا گیا اور حالات فاقوں پر آپہنچے۔ مسلمانوں نے پیٹ پر پتھر تک باندھ لیے اور سخت آزمائش پر ثابت قدم رہے۔
منافقین کا طرز عمل: عین جنگ کے موقع پر جب مسلمان چاروں اطراف سے کفار کی گرفت میں آچکے تھے تو منافقین نے مشکل وقت کو دیکھ کر بہانے بنانے لگے، کچھ کہنے لگے کہ ہمارے گھر محفوظ نہیں اور کچھ میدان جنگ سے پیٹھ دکھا کر جانے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا کہ ان کی باتیں محض بہانے ہیں یہ مرنے سے ایسے فرار اختیار نہیں کر سکتے۔

سوال۳: ان آیات میں جہاد میں رکاوٹ ڈالنے والوں(المعوقین) کے بارے میں کیا فرمایا گیا؟

جواب: سورۃ الاحزاب کی آیات میں المعوقین کے بارے میں فرمایا گیا کہ جہاد میں رکاوٹ ڈالنے والے نہ تو خود جہاد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور نہ مومنین کو جہاد کرنے دیتے ہیں بلکہ وہ انہیں بہکاتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے شانہ بشانہ لڑو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔ ایسے لوگ جہاد میں رکاوٹ کے لیے اپنے پاس موجود مال کو خرچ نہیں کرتے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کو اپنا مال دینے سے کتراتے ہیں اور کنجوسی کرتے ہیں۔ یہ لوگ منافقین کی مثل ہیں جو میدان جنگ میں مسلمانوں کی فتح ہونے کے بعد مال غنیمت لینے پہنچ جاتے ہیں۔

سوال۴: اس سبق کے مطابق مومن کب آزمائے گئے؟

جواب: جب کفار مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئےتھے اور مسلمانوں پر دانہ پانی بند ہو گیا تھا۔ بھوک و فاقوں کی سختی سر پر تھی جس وجہ سے مومنوں نے پیٹ پر پتھر باندھ لیے تھے تب مومن سخت آزمائے گئے۔

سوال۵: جنگ کے موقع پر منافقین نے کیا کیا بہانے بنائے تھے؟

جواب: جنگ کے موقع پر منافقین آپﷺ کےپاس آکر کہتے کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں وہاں کفار گھس جائیں گے ہمیں اجازت دیں تاکہ ہم اپنے گھرؤں کی حفاظت فرمائیں وہ بہانے بنارہے تھے۔

سوال۶: اس سبق کے مطابق اللہ نے کن لوگوں کے اعمال برباد کردیے؟

جواب: وہ منافقین جو مشکل کے وقت مسلمانوں کی جمعیت سے پیچھے ہٹ گئے بیشک اللہ تو انھیں دیکھ رہا ہے اور ان کے اعمال برباد کر دیئے گئے۔