Surah Mumtahina Urdu Notes | سورۃ الممتحنہ آیات ۱ تا ۶

0

سورۃ الممتحنہ آیات ۱ تا ۶

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّىۡ وَعَدُوَّكُمۡ اَوۡلِيَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ وَقَدۡ كَفَرُوۡا بِمَا جَآءَكُمۡ مِّنَ الۡحَـقِّ‌ۚ يُخۡرِجُوۡنَ الرَّسُوۡلَ وَاِيَّاكُمۡ‌ اَنۡ تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ رَبِّكُمۡؕ اِنۡ كُنۡتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِهَادًا فِىۡ سَبِيۡلِىۡ وَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِىۡ تُسِرُّوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ‌ۖ وَاَنَا اَعۡلَمُ بِمَاۤ اَخۡفَيۡتُمۡ وَمَاۤ اَعۡلَنۡتُمۡ‌ؕ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡهُ مِنۡكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ‏ ﴿۱﴾

مومنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لئے (مکے سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم تو ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ (دین) حق سے جو تمہارے پاس آیا ہے منکر ہیں۔ اور اس باعث سے کہ تم اپنے پروردگار خدا تعالیٰ پر ایمان لائے ہو پیغمبر کو اور تم کو جلاوطن کرتے ہیں۔ تم ان کی طرف پوشیدہ پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔ اور جو کچھ تم مخفی طور پر اور جو علیٰ الاعلان کرتے ہو وہ مجھے معلوم ہے۔ اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔

اِنۡ يَّثۡقَفُوۡكُمۡ يَكُوۡنُوۡا لَـكُمۡ اَعۡدَآءً وَّيَبۡسُطُوۡۤا اِلَيۡكُمۡ اَيۡدِيَهُمۡ وَاَلۡسِنَتَهُمۡ بِالسُّوۡٓءِ وَوَدُّوۡا لَوۡ تَكۡفُرُوۡنَؕ‏ ﴿۲﴾

اگر یہ کافر تم پر قدرت پالیں تو تمہارے دشمن ہوجائیں اور ایذا کے لئے تم پر ہاتھ (بھی) چلائیں اور زبانیں (بھی) اور چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہوجاؤ۔

لَنۡ تَنۡفَعَكُمۡ اَرۡحَامُكُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُكُمۡ ۛۚ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ۛۚ يَفۡصِلُ بَيۡنَكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ‏ ﴿۳﴾

قیامت کے دن نہ تمہارے رشتے ناتے کام آئیں گے اور نہ اولاد۔ اس روز وہی تم میں فیصلہ کرے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھتا ہے۔

قَدۡ كَانَتۡ لَـكُمۡ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ فِىۡۤ اِبۡرٰهِيۡمَ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗ‌ۚ اِذۡ قَالُوۡا لِقَوۡمِهِمۡ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنۡكُمۡ وَمِمَّا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ كَفَرۡنَا بِكُمۡ وَبَدَا بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكُمُ الۡعَدَاوَةُ وَالۡبَغۡضَآءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَحۡدَهٗۤ اِلَّا قَوۡلَ اِبۡرٰهِيۡمَ لِاَبِيۡهِ لَاَسۡتَغۡفِرَنَّ لَـكَ وَمَاۤ اَمۡلِكُ لَـكَ مِنَ اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍ‌ؕ رَّبَّنَا عَلَيۡكَ تَوَكَّلۡنَا وَاِلَيۡكَ اَنَـبۡنَا وَاِلَيۡكَ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿۴﴾

تمہیں ابراہیم اور ان کے رفقاء کی نیک چال چلنی (ضرور) ہے۔ جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان (بتوں) سے جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو بےتعلق ہیں (اور) تمہارے (معبودوں کے کبھی) قائل نہیں (ہوسکتے) اور جب تک تم خدائے واحد اور ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی۔ ہاں ابراہیمؑ نے اپنے باپ سے یہ (ضرور) کہا کہ میں آپ کے لئے مغفرت مانگوں گا اور خدا کے سامنے آپ کے بارے میں کسی چیز کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے پروردگار تجھ ہی پر ہمارا بھروسہ ہے اور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیرے ہی حضور میں (ہمیں) لوٹ کر آنا ہے۔

رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَةً لِّلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَاغۡفِرۡ لَـنَا رَبَّنَا‌ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿۵﴾

اے ہمارے پروردگار ہم کو کافروں کے ہاتھ سے عذاب نہ دلانا اور اے پروردگار ہمارے ہمیں معاف فرما۔ بےشک تو غالب حکمت والا ہے۔

لَقَدۡ كَانَ لَـكُمۡ فِيۡهِمۡ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنۡ كَانَ يَرۡجُوۡا اللّٰهَ وَالۡيَوۡمَ الۡاٰخِرَ‌ؕ وَمَنۡ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡغَنِىُّ الۡحَمِيۡدُ‏ ﴿۶﴾

تم (مسلمانوں) کو یعنی جو کوئی خدا (کے سامنے جانے) اور روز آخرت (کے آنے) کی امید رکھتا ہو اسے ان لوگوں کی نیک چال چلنی (ضرور) ہے۔ اور روگردانی کرے تو خدا بھی بےپرواہ اور سزاوار حمد (وثنا) ہے۔

الکلمات والترکیب
تلقون تم ڈالتے ہو، اظہار کرتے ہو
تسرون تم چھپاتے ہو
ان یثقفوکم اگر وہ تم پر قابو پا جائیں، اگر وہ تم پر غالب آجائیں
برءؤا بیزار، لاتعلق
یرجوا وہ امید رکھتا ہے

سوالات کے جوابات دیں:

سوال۱: قرآن حکیم کی ان آیات کی روشنی میں اہل ایمان کا اسلام دشمن کافروں کے ساتھ کیا رویہ ہونا چاہئے؟

جواب:ان آیات میں مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ یہ رویہ ہونا چاہئے:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا: ”اے ایمان والو! تم ایمان لائے اور اپنے رسولؐ کے ساتھ کافروں کو ایذارسائیاں برداشت کرتے رہے پھر تم نے دین کی خاطر گھر بار اور وطن چھوڑ کر ہجرت کی اور تم فی سبیل اللہ جہاد کرتے“
تو یاد رکھو کہ کافروں کو کبھی اپنے دلی دوست نہ بناؤ وہ تو تمہارے اور اللہ کے دشمن ہیں کیونکہ وہ اس دین کا انکار کر چکے ہیں جس پر تم ایمان لائے ہو۔ یہ کوئی موقع جانےنہ دیں گے کہ تمہیں نقصان نہ پہنچائیں۔ یہ اسلام کے سخت ترین دشمن ہیں ان سے دوستی کے دھوکے میں نہ آنا۔
مسلمانوں کو اس بات سے بھی منع فرمایا گی کہ وہ دشمنان حق تعالیٰ کو کسی قسم کی مخبری نہ کریں۔ نبیؐ حق پر ہیں اور وہ جو دین لائے ہیں وہ سچا دین ہے اس سے بغاوت کرکے خود کو جہنم کا مستحق نہ بنانا۔ کفار تمہارے دین اور تمہارے نبیؐ کے دشمن ہیں ان سے ویسا ہی رویہ رکھنا جیسا ایک دشمن کا دشمن سے ہوتا ہے۔

سوال۲: اس سبق میں دشمنان حق کی کن باتوں کے سبب انہیں دوست اور رازداں بنانے سے منع کیا گیا ہے؟

جواب: اہل ایمان کو دشمنان حق کی جن باتوں کے سبب انہیں دوست اور رازدان بنانے سے منع کیا گیا:
دشمنان حق اللہ کےدین کے منکر ہیں انھیں نے حق کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان سے دوستی نہ رکھنے کی تنبیہہ اسی وجہ سے ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمن ہیں۔ انھوں نے اللہ کی وحدانیت کو رسولؐ کی رسالت کا انکار کیا ہے ، انھوں نے اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا اور یہ مسلمانوں کے ہر گز دوست نہیں ہو سکتے اس لیے انھیں کبھی اپنا رازدار نہ بنانا۔
کفار مکہ مسلمانوں کے دشمن ہیں انھوں نے مسلمانوں کے دین کو جھٹلایا اور بدکاریوں میں مبتلا رہے انھوں نے مسلمانوں پر مکہ میں عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا۔ اور جب ان کی بدکاریاں اس حد تک بڑھ گئیں کہ انھوں نے آپؐ کو نعوذباللہ قتل کرنےکا منصوبہ بنایا اور مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا یہ لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کے ہرگز دوست نہیں ہو سکتے۔
اہل کفر سیدھے راستے کو چھوڑ کر گمراہی والے راستے پر ڈٹے ہوئے ہیں انھوں نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجی گئی ہدایت کو جھٹلا دیا اور ابلیس مردود کی پیروی کرنے کو ترجیح دی۔ وہ ایک اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانے کے بجائے اپنے بتوں کی پوجا کرتے رہے اور اس شکر میں مبتلا رہے۔

سوال۳: ان آیات میں حضرت ابراہیمؑ کے کس اسوۃ حسنہ کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نےمومنین کو حضرت ابراہیمؑ کے اسوۂ حسنہ سے سبق لینے کی ترغیب دی:
ان آیات میں اللہ کے بھیجے پیغمبر حضرت ابراہیمؑ کی اسوۂ حسنہ کی ترغیب دی گئی۔ آپؑ جس ماحول میں پلے بڑھے وہاں بت پرستی عام تھی اور ایک خدا کو ماننے والا کوئی نہیں تھا۔ آپؑ اکیلے ہی ایک خدا کو ماننے والے تھے۔ آپؑ نے جب اس بات کی تبلیغ کی کہ ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو توبادشاہ وقت نمرود اور آپؑ کے رشتہ دار آپؑ کے دشمن بن گئے۔ ان سب نے کفر کیا اور آپؑ کو تکلیف پہنچانے لگے ۔ بادشاہ وقت نمرود نے آپؑ کے گھر کا راشن بند کر دیا، آپؑ کو جلتی ہوئی آگ میں ڈال دیا لین آپؑ ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی دعوت دینے سے نہ رکے اور یہ اعلان کر دیا اگر تم لوگ ایمان نہیں لاتے تومیری تمہارے ساتھ دشمنی رہےگی اور میں تم لوگوں کے ساتھ قطع تعلق کرلوں گا۔

حضرت ابراہیمؑ کو حکم ملا کہ والد کے لیے مغفرت کی دعا نہ کرو اہل ایمان کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ کافروں کے لیے محبت و ہمدردی کا تعلق نہیں رکھیں۔ ان کی مثال یہاں ایسی ہے کہ اگر باپ بھی مشرک ہو تو بھی آپؑ کو ایک اللہ کی راہ میں ڈٹے کھڑا رہنا چاہئے۔ دنیا کا کوئی رشتہ بھی ایک اللہ تعالیٰ کی راہ سے آپ کو نہ ہٹا سکے۔ کسی بھی رشتہ کی محبت اللہ کی محبت پر غالب نہ آسکے۔

سوال۴: دو لائن کا جواب دیں۔

س۱: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کس کے لیے اور کیا دعا مانگی تھی؟

جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنے والد کی مغفرت کی دعا مانگی تھی۔ جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے انھیں منع فرمایا کہ اہل ایمان کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں۔

س۲: اگر کافر مسلمانوں پر قدرت پائیں گے تو کیا کریں گے؟

جواب: اگر کافر مسلمانوں پر قدرت پائیں گے تو وہ تمہارے دشمن ہو جائیں گے اور ایذا کے لیے تم پر ہاتھ بھی چلائیں اور زبانیں بھی اور چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہو جاؤ۔