حقوق العباد کی اقسام

0

سوال۱: سیرت النبیﷺ کی روشنی میں حقوق العباد کی اہمیت بیان کریں:

سیرت محمدیﷺ:

نبی کریمﷺ کی سیرت طیبہ اور ارشادات گرامی نے انسانی زندگی، عزت و ناموس اور مال و اسباب کو تحفظ فراہم کیا۔ آپؐ کے ارشاد کے مطابق انسان کو حق حاصل ہے کہ معاشرہ اس کی جان و مال کا تحفظ کرے۔ حضرت محمدﷺ نے اپنی سیرت کے ذریعے انسان کو برابری کا حق دیا۔

برابری کا سلوک:

حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اپنی سیرت و کردار کے ذریعہ انسانیت کو برابری کا درس دیا ہے۔ کسی ایک شخص کو دوسرے پر کوئی برتری حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے۔ آپؐ نے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تعلیم فرمائی ہے۔ آپؐ نے غلاموں کے ساتھ برابری کرنے عملی نمونہ پیش کیا ہے اور ساتھ تاکید کی کہ جو تم کھاؤ انھیں بھی یہی کھلاؤ اور جو خود پہنو ان کو بھی وہی پہناؤ جو شے خود کے لیے پسند کرو اپنے غلاموں کے لیے بھی وہی پسند کرو۔

ہمسایہ کےحقوق:

آپﷺ نےہے کے حقوق کے بارے میں خاص طور پر تاکید فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے جبرائیل علیہ السلام بار بار پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ شاید اللہ تعالیٰ ہمسایہ کو وراثت میں شریک کردیں۔ ہمسائے کے اس حق کی روشنی میں انسان کو جہاں بہت سی ذمے داریاں سونپی گئیں ہیں وہاں اسے بہت سے حقوق بھی حاصل ہوئے کیونکہ ہر فرد کسی نہ کسی کا ہمسایہ ہوتا ہے اس لیے ہر ہمسایہ دوسرے ہمسائے کا خیال رکھے گا تو معاشرہ میں سکون ہوگا۔

ماں باپ کے حقوق:

رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کے مطابق انسان کو ماں باپ کی حیثیت سے بہت سے حقوق حاصل ہوئے ہیں۔ اولاد کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کے سوا والدین کا ہر حکم بجا لائیں۔ ان سے رحمت و محبت اور نرمی کا رویہ اختیار کریں۔ان کی رائے کو اپنی رائے پر مقدم رکھیں اور ان کا ہر حکم بغیر حیل و حجت سر تسلیم خم مانیں۔ اور جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے جذبات کا خاص خیال رکھتےہوئے ان سے نرمی اور محبت سے پیش آئیں تاکہ ان کو کسی قسم کا دکھ نہ پہنچے۔ بڑھاپے میں ان کی بھرپور خدمت کریں اور کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ دیں اور ان کی وفات کے بعد ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں ۔ قرآن کا حکم ہے:

”ان دونوں کو اف بھی نہ کہو اور ہن ہی انہیں جھڑکو اور ان سے نرمی سے بات کرو اور رحمت کے ساتھ عاجزی کے بازوان کے لیے جھکاؤ، کہو اے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پایا(رحم کے ساتھ)“

عورتوں کے حقوق:

حضورﷺ نے اپنے عمل و کردار سے عورتوں کا احترام کا حق دی اہے کہ ان کی عزت کی جائے اور ان کا احترام کیا جائے ان کو حقیر نہ سمجھا جائے یہ طبقہ عزت اور احترام کے لائق ہے۔ حالانکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ عورتوں کے گزرنے پر اپنی نظریں جھکا لو۔

مزدوروں کے حقوق:

رسولﷺ نے مزدور کو اس کا حق اس کی اجرت اس کے پسینہ سوکھ جانے سے پہلے دینے کا حکم فرمایا ہے۔ حضورﷺ نے محنت کش کو پسند فرمایا ہے۔ محنت کش مزدوروں کی عزت کرنا آپﷺ کی تعلیمات میں شامل ہے۔

جنگی قیدیوں کے حقوق:

آپﷺ نے غزوات میں قید ہونے والے جنگی قیدیوں تک سے بھی حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ یہاں تک کہ قیدیوں کو کھانا کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور ان کی دیکھ بھال میں کوئی کسر باقی نہ رکھو کا حکم فرمایا گیاہے۔

سوال۲: انسانی حقوق اور حسن سلوک کے بارے میں خطبہ حجۃ الوداع کے اہم نکات قلمبند کریں:

جواب: رسولﷺ نے فرمایا کہ ”میرے بعد گمراہ بن کر ایک دوسرے کی گردن نہ مارنا بلکہ اسلامی اخوت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا۔ میں اس دنیا سے چلا جاؤں گا لیکن میرے چلے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسولﷺ کی سنے تمہاری رہنمائی کرے گی۔“
رسولﷺ نے خطبہ کے دوران صحابہؓ سے دریافت کیا کہ کیامیں نے حق ادا کر دیا اور حق کو تم تک پہنچا دیا؟ تو صحابہ کرامؓ نے بیک آواز عرض کیا کہ آپؐ نے حق پہنچا دیا۔ آپؐ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ اے اللہ آپ گواہ رہیں۔

آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک آدمی اور ایک عورت سے پیدا فرمایا اور مختلف جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا کہ تم الگ الگ پہچانے جا سکو۔ تم میں زیادہ عزت اور تکریم والا خدا کی نظروں میں وہی ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ چنانچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عرب کوکسی عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی کالے کو کسی گورے پر فضیلت حاصل ہے نہ کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت ہے بلکہ فضیلت کا معیار تقویٰ ہے۔

امانت میں خیانت نہ کرنا:

رسولﷺ فرمایا کہ اگر کسی نے کسی کے پاس کوئی چیز امانت کےطور پر رکھوائی ہے تو اس میں ہرگز خیانت نہ کرنا بلکہ اس امانت کی حفاظت کرنا اور اسی حالت میں واپس لوٹادینا اور اللہ سے ڈرتے رہنا۔

سود سے بچنا:

رسولﷺ نے تمام سودی کاروبار کو ممنوع قرار دیا ہے لیکن تمہارا اصل زر تم پر حلال ہے اور پہلا شخس جس کا سود میں چھوڑ دیتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے وہ کل کا کل اٹھایا گیا۔

میراث کی تقسیم:

آپﷺ نے فرمایا: اے لوگوں اللہ تعالیٰ نے وراث کے لیے میراث سے ایک حصہ مقرر کیا ہوا ہے جس ہر حقدار کو ضرور ملنا چاہئے لہٰذا کوئی ایسی وصیت نہ کرنا کہ ایک وارث کو اس کے حصے سے زیادہ ملے اور وراثت کی تقسیم میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور کوئی خیانت نہ کرنا۔

مزید ارشادات:

قرض قابل واپسی ہے۔ عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے۔ تھنے کا بدلہ دینا چاہیے اور جو کوئی کسی کا ضامن بنے تو اسے تاوان ادا کرنا چا ہے۔ دیکھو ایک مجرم اپنے جرم کا خود ہی ذمے دار ہے، نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔ تمھاری بیویوں کا تم پر اور ان پر تمھارا حق ہے۔ بیویوں پر تمھارا حق اتنا ہے کہ وہ تمھارے بستر کو کسی غیر مرد سے آلودہ نہ کریں اور ایسے لوگوں کو تمھاری اجازت کے بغیر تمھارے گھروں میں داخل نہ ہونے دیں جنھیں تم نا پسند کرتے ہو۔ انھیں (عورتوں کو) کوئی معیوب کام نہیں کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کریں تو خدا نے تمھیں یہ اختیار دیا ہے کہ تم ان کی سرزنش کرو اور ان سے بستر میں علیحدگی اختیار کرو اور (اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں ) انھیں ایسی مار مارو کہ نمودار نہ ہو۔ اگر وہ باز آجائیں تو تم پر واجب ہے کہ انھیں اچھا کھلاؤ اور رواج کے مطابق اچھا پہناؤ۔ عورتوں کے معاملے میں فراخ دلی سے کام لو کیونکہ در حقیقت وہ ایک طرح سے تمھاری پابند ہیں۔ ان کی کوئی املاک نہیں اور تم نے انھیں خدا کی امانت کے طور پر قبول کیا ہے اور تم اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ان کے وجود سے حظ اُٹھاتے ہو۔ سو خواتین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو اور ان سے نیک سلوک کرو اور کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے۔

لوگو! میری بات سنو اور سمجھو۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے کچھ لے سوائے اس کے جسے اس کا بھائی برضا ورغبت عطا کر دے۔ اپنے نفس پر اور دوسروں پر زیادتی نہ کرو اور ہاں تمھارے غلام، ان کا خیال رکھو۔ جو تم کھاؤ اس میں سے ان کو کھلاؤ، جو تم پہنو اسی میں ان کو پہناؤ۔ اگر وہ کوئی ایسی خطا کریں جسے تم معاف نہ کرنا چاہو تو اللہ کے بندو ! انھیں فروخت کردو اور سزا نہ دو۔