Islamiat Notes For Class 10 Surah Ahzab | سورۃ الاحزاب آیات ۱ تا ۸

0

الدرس الاول(ا) آیات ۱ تا ۸

يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِعِ الۡكٰفِرِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقِيۡنَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًاۙ‏ ﴿۱﴾

اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا۔ بےشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

وَّاتَّبِعۡ مَا يُوۡحٰٓى اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًاۙ‏ ﴿۲﴾

اور جو (کتاب) تم کو تمہارے پروردگار کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اُسی کی پیروی کیے جانا۔ بےشک خدا تمہارے سب عملوں سے خبردار ہے۔

وَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ‌ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيۡلاً ‏ ﴿۳﴾

اور خدا پر بھروسہ رکھنا اور خدا ہی کارساز کافی ہے۔

مَّا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَيۡنِ فِىۡ جَوۡفِهٖۚ وَمَا جَعَلَ اَزۡوَاجَكُمُ الّٰٓـئِ تُظٰهِرُوۡنَ مِنۡهُنَّ اُمَّهٰتِكُمۡ‌ۚ وَمَا جَعَلَ اَدۡعِيَآءَكُمۡ اَبۡنَآءَكُمۡ‌ؕ ذٰلِكُمۡ قَوۡلُـكُمۡ بِاَفۡوَاهِكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ يَقُوۡلُ الۡحَقَّ وَهُوَ يَهۡدِىۡ السَّبِيۡلَ‏ ﴿۴﴾

خدا نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے اور نہ تمہاری عورتوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو تمہاری ماں بنایا اور نہ تمہارے لےپالکوں کو تمہارے بیٹے بنایا۔ یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور خدا تو سچی بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا رستہ دکھاتا ہے۔

اُدۡعُوۡهُمۡ لِاَبَآٮِٕهِمۡ هُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ‌ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ فَاِخۡوَانُكُمۡ فِىۡ الدِّيۡنِ وَمَوَالِيۡكُمۡ‌ؕ وَ لَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ فِيۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِهٖۙ وَلٰكِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُكُمۡ‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿۵﴾

مومنو! لےپالکوں کو اُن کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو کہ خدا کے نزدیک یہی بات درست ہے۔ اگر تم کو اُن کے باپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن جو قصد دلی سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

اَلنَّبِىُّ اَوۡلٰى بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ‌ وَاَزۡوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمۡ‌ؕ وَاُولُوۡا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلٰى بِبَعۡضٍ فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰٓى اَوۡلِيٰٓٮِٕكُمۡ مَّعۡرُوۡفًا‌ؕ كَانَ ذٰلِكَ فِىۡ الۡكِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا‏ ﴿۶﴾

پیغمبر مومنوں پر اُن کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں اور رشتہ دار آپس میں کتاب الله کے رُو سے مسلمانوں اور مہاجروں سے ایک دوسرے (کے ترکے) کے زیادہ حقدار ہیں۔ مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے احسان کرنا چاہو۔ (تو اور بات ہے)۔ یہ حکم کتاب یعنی (قرآن) میں لکھ دیا گیا ہے۔

وَاِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِيّٖنَ مِيۡثَاقَهُمۡ وَمِنۡكَ وَمِنۡ نُّوۡحٍ وَّاِبۡرٰهِيۡمَ وَمُوۡسٰى وَعِيۡسَى ابۡنِ مَرۡيَمَ وَاَخَذۡنَا مِنۡهُمۡ مِّيۡثاقًا غَلِيۡظًاۙ‏ ﴿۷﴾

اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا اور تم سے، نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے اور عہد بھی اُن سے پکّا لیا۔

لِّيَسۡئَلَ الصّٰدِقِيۡنَ عَنۡ صِدۡقِهِمۡ‌ۚ وَاَعَدَّ لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَذَابًا اَلِيۡمًا‏ ﴿۸﴾

تاکہ سچ کہنے والوں سے اُن کی سچائی کے بارے میں دریافت کرے اور اس نے کافروں کے لئے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

الکلمات والترکیب
جوف دھڑ، پہلو
ادعیآء منہ بولے بیٹے
ادعوھم انھیں بلاؤ، انھیں پکارو
تعمدت اس(ایک عورت ) نے ارادہ کیا
اولوالارحام رشتے دار
تظھرون تم ظہار کرتے ہو
افواہ منہ(جمع)
اقسط زیادہ منصفانہ بات، زیادہ عدل و انصاف پر مبنی بات
اولیٰ مقدم، زیادہ حق رکھنے والا
مسطورا لکھاہوا تحریر شدہ

سوالات کے جوابات دیں:

۱ : سبق کی ابتدا میں رسول اللہ ﷺکو کن باتوں کی تلقین کی گئی ہے؟

جواب: سورۃ الاحزاب کی ابتداء میں رسول کریمﷺ کو جن باتوں کی تلقین کی گئی درج ذیل ہیں۔
تقویٰ اختیار کرنا: تقویٰ اختیار کرنے سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ڈر اپنے دلوں میں زندہ رکھنا۔ یعنی کہ جیسے بھی حالات ہوں ایک اللہ تعالیٰ دے ڈرنا اور اس کے حکم کو مقدم رکھنا۔
کفار و منافقین کا کہا نہ ماننا: کفار چونکہ گمراہی پر ہیں اور وہ گمراہی ہی پھیلائیں گے تو ہر گز ان کی باتوں میں آکر اللہ کے راستے سے نہ ہٹنا۔
احکام الہیٰ کی تابعداری: جیسے بھی حالات ہوں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اللہ کے احکام کی مانے۔ رسولﷺ اور صحابہ اکرامؓ کو ہر حال میں وحی الہیٰ کی تابعداری کرنی چاہیے۔

۲ : اس سبق کی آیات میں منہ بولے بیٹوں کے بارے میں کیا ہدایات کی گئی ہیں؟

جواب: سورۃ الاحزاب کی ابتدائی آیات میں منہ بولے بیٹوں کے بارے میں جو ہدایات نازل ہوئی درج ذیل ہیں:
نبیﷺ کے منہ بولے بیٹے حضرت زیدؓ تھے۔ لوگ انھیں زید بن محمدؐ پکارنے لگے جبکہ ان کا اصل نام زید بن حارثہؓ تھا۔ جس پر اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایات فرمائیں کہ منہ بولے بیٹے تمہارےاصلی بیٹے نہیں۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو، یہ تمہارے بیٹے نہیں بلکہ تمہارے اسلامی بھائی اور دوست ہیں۔

۳ : سبق کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کو کس سے ڈرنے کی ہدایت کی ہے؟

جواب: سبق کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے رسولﷺ کو تقوی اختیار کرنے کی ہدایت دی یعنی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی۔

۴ : اللہ تعالیٰ نے کسی بھی عورت کو ماں کہنے کے متعلق کیا حکم دیا ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے کسی بھی عورت کو ماں کہنے کے متعلق حکم دیا ہے کہ جن کو تم منہ بولی ماں کہتےہو وہ حقیقت میں تمہاری ماں نہیں ہوتی۔

۵ : پیغمبر کی بیویوں اور امت کے رشتے کے متعلق کیا حکم خداوندی ہے؟

جواب: پیغمبر کی بیویاں کے متعلق آیا ہے کہ وہ امت کی مائیں ہیں۔

سوال۳: درج ذیل عبارات کا مفہوم بیان کیجئے:

(الف)مَّا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَيۡنِ فِىۡ جَوۡفِهٖۚ

ترجمہ: خدا نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے۔

مفہوم:

مکہ میں ایک کافر جس کا نام ابومعمر فہری تھا ا سکی سمجھ اور حافظہ بہت مضبوط تھا۔جو کچھ سنتا دیکھتا یاد کرلیتا تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کے دو دل ہیں اور وہ خود کو بھی دو دل والا کہتا تھا اس کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے کوئی شخص ایسا نہیں پیداکیا جس کے سینہ میں دو دل ہوں۔ اگر سینہ کو چیر کر دیکھا جائے گا تو اس میں ایک ہی دل برآمد ہوگا نہ کہ دو دل۔ دل انسانی جسم کابہت اہم حصہ ہے۔ دل اگر دو ہوتے تو انسان کے اپنے فیصلوں کا اختلاف بہت زیادہ ہوتا۔

(ب) وَمَا جَعَلَ اَزۡوَاجَكُمُ الّٰٓـئِ تُظٰهِرُوۡنَ مِنۡهُنَّ اُمَّهٰتِكُمۡ‌ۚ

ترجمہ: اور نہ تمہاری عورتوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو تمہاری ماں بنایا

مفہوم:

عربوں میں ظہار کی روایت جہالت کے دور کی نشانی تھی۔ ظہار میں آدمی اپنی عورت کو کہتے کہ تم میری ماں کی طرح ہو اس طرح وہ بیوی اس شخص پر حرام قرار دی جاتی اور بقول ان فرسودہ روایات کے وہ عورت اس کی ماں بن جاتی۔ اس پر اللہ تبارک تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جن عورتوں کو ہم نے تمہاری ماں نہیں بنایا وہ تمہارے کہنے سے تمہاری ماں نہیں بن جاتی۔ دور جاہلیت میں ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا۔ انسان کی اصلی ماں وہی ہے جس نے اسے جنم دیا ہے وہی حقیقی ماں کہلانے کا حق رکھتی ہے ۔ بیوی کو ماں کہنے سے وہ ماں نہیں بنتی نہ حرام ہو جاتی ہے بلکہ اس کا کفارہ ہے جس سے تلافی ہو جاتی ہے۔

(ج) اَلنَّبِىُّ اَوۡلٰى بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ‌

ترجمہ: پیغمبر مومنوں پر اُن کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔

مفہوم اس آیت میں نبی کریمﷺ کا مومنوں پر حق کو واضح بتایا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ ہمارے خیر خواہ ہیں بلکہ وہ ہماری اس طرح تربیت کرتے ہیں وہ ہمارے لیے ہم سے بہتر چاہتے ہیں۔آپﷺ کی حیثیت ہم پر ایک شفیق باپ کی ہے وہ مومنین کے رہبر و معلم بھی ہیں تو ا سحق کے بدلے وہ ہماری جان و مال پر ہم سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں۔ایک حدیث مبارکہ ہے کہ تم میں سے کوئی شخص بھی تب تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اپنے ماں باپ مال و اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔آپﷺ کی بیویاں امت کی مائیں ہیں یعنی ان کا حق ماں کی طرح ہے۔جن سے مسلمانوں کا نکاح ہمیشہ کی طرح حرام ہے۔مگر ا سکا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کے ساتھ تنہائی میں بیٹھ سکتے ہیں یا ان سے مخاطب ہو کر بات کر سکتے ہیں۔