Surah Ahzab Class 10 Notes | سورۃ الاحزاب آیات۲۱ تا۲۷

0

الدرس الاول(ج) آیات۲۱ تا۲۷

لَّقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنۡ كَانَ يَرۡجُوۡا اللّٰهَ وَالۡيَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيۡرًاؕ‏ ﴿۲۱﴾

تم کو پیغمبر خدا کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اس شخص کو جسے خدا (سے ملنے) اور روز قیامت (کے آنے) کی اُمید ہو اور وہ خدا کا ذکر کثرت سے کرتا ہو۔

وَلَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَۙ قَالُوۡا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَمَا زَادَهُمۡ اِلَّاۤ اِيۡمَانًـا وَّتَسۡلِيۡمًاؕ‏ ﴿۲۲﴾

اور جب مسلمانوں نے کافروں کے لشکر دیکھے بولے یہ ہے وہ جو ہمیں وعدہ دیا تھا اللہ اور اس کے رسول نے (ف۵۸) اور سچ فرمایا اللہ اور اس کے رسول نے (ف۵۹) اور اس سے انہیں نہ بڑھا مگر ایمان اور اللہ کی رضا پر راضی ہونا،

مِّنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاهَدُوۡا اللّٰهَ عَلَيۡهِ‌ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ قَضٰى نَحۡبَهٗ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّنۡتَظِرُ‌ ۖ‌ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِيۡلاً ۙ‏ ﴿۲۳﴾

مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار اُنہوں نے خدا سے کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر سے فارغ ہوگئے اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کر رہے ہیں اور اُنہوں نے (اپنے قول کو) ذرا بھی نہیں بدلا۔

لِّيَجۡزِىَ اللّٰهُ الصّٰدِقِيۡنَ بِصِدۡقِهِمۡ وَيُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِيۡنَ اِنۡ شَآءَ اَوۡ يَتُوۡبَ عَلَيۡهِمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًاۚ‏ ﴿۲۴﴾

تاکہ خدا سچّوں کو اُن کی سچائی کا بدلہ دے اور منافقوں کو چاہے تو عذاب دے اور (چاہے) تو اُن پر مہربانی کرے۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

وَرَدَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِغَيۡظِهِمۡ لَمۡ يَنَالُوۡا خَيۡرًا‌ؕ وَكَفَى اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ الۡقِتَالَ‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيۡزًاۚ‏ ﴿۲۵﴾

اور جو کافر تھے اُن کو خدا نے پھیر دیا وہ اپنے غصے میں (بھرے ہوئے تھے) کچھ بھلائی حاصل نہ کر سکے۔ اور خدا مومنوں کو لڑائی کے بارے میں کافی ہوا۔ اور خدا طاقتور (اور) زبردست ہے۔

وَاَنۡزَلَ الَّذِيۡنَ ظَاهَرُوۡهُمۡ مِّنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ مِنۡ صَيَاصِيۡهِمۡ وَقَذَفَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الرُّعۡبَ فَرِيۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ وَتَاۡسِرُوۡنَ فَرِيۡقًاۚ‏ ﴿۲۶﴾

اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے اُن کی مدد کی تھی اُن کو اُن کے قلعوں سے اُتار دیا اور اُن کے دلوں میں دہشت ڈال دی۔ تو کتنوں کو تم قتل کر دیتے تھے اور کتنوں کو قید کرلیتے تھے۔

وَاَوۡرَثَكُمۡ اَرۡضَهُمۡ وَدِيَارَهُمۡ وَ اَمۡوَالَهُمۡ وَاَرۡضًا لَّمۡ تَطَـــُٔوۡهَا‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرًا‏ ﴿۲۷﴾

اور اُن کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مال کا اور اس زمین کا جس میں تم نے پاؤں بھی نہیں رکھا تھا تم کو وارث بنا دیا۔ اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

الکلمات والترکیب
زاد زیادہ ہو گیا
نحب نذر
لم ینالوا (بھلائی کو)نہیں پہنچے، اسے حاصل نہیں کیا
صیاصیھم صیصۃ کی جمع جس کے معنی ہیں قلعہ۔ صیاصیھم کے معنی ہیں ”ان کے قلعے“
قذف پھینکا،ڈالا
اورث وارث بنایا
تسلیما سرتسلیم خم کرنا، اطاعت اختیار کرنا
رد لوٹادیا، واپس کر دیا
ظاھروا انھوں نے مدد کی، ساتھ دیا
تاسرون تم قیدی بناتے ہو
لم تطئوھا تم نے پامال نہ کیا، تم نےقدم نہ رکھا

سوالات کے جوابات دیں:

سوال۱: پیغمبر الہی کی پیروی سے کیا مراد ہے؟

جواب: پیغمبر الہیٰ کی پیروی کرنی بہتر ہے یعنی اس شخص کی جسے اللہ تعالیٰ سے ملنے اور روز قیامت کے آنے کی امید ہو اور وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرتاہو۔

سوال۲:جب مومنوں نے کافروں کے لشکر کو دیکھا تو کیا کہا؟

جواب: جب مومنوں نے کافروں کے لشکر کو دیکھا تو کہا کہ یہ وہی ہے جس کا وعدہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ہم سے کیا تھااور رسول اللہﷺ نے سچ کہا تھا۔

سوال۳: اس سبق میں مومنوں کی تین اقسام بتائی گئی ہیں۔ واضح کریں؟

جواب: اس سبق میں مومنوں کی تین اقسام بتائی گئی ہیں ایک وہ جنھوں نے اقرار اللہ سے کیا اور اسے سچ کر دکھایا، دوسرے وہ جو اپنی نذر سے فارغ ہو گئے اور تیسرے وہ جو انتظار کررہے ہیں اور انھوں نے اپنے قول کو ذرا بھی نہیں بدلا۔

سوال: مندرجہ ذیل عبارات کا مفہوم بیان کریں:

(الف) لَّقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ

ترجمہ: تم کو پیغمبر خدا کی پیروی (کرنی) بہتر ہے

مفہوم:

اس آیت میں واضح طور پر حکم آگیا ہے کہ اسوۃ حسنہ یعنی بہترین سیرت آپﷺ کی ہی ہے اور مسلمانوں پر لازم ہے اس کی پیروی کریں۔ جنگ احزاب کے موقع پر آپﷺ نے صبر وتحمل اور شجاعت کی مثال قائم کر دی۔ آپﷺ نے کیسے ایک جماعت تیار کی اس کو منعظم کیا اور ان کو جہاد کے لیے آمادہ کیا۔ آپﷺ تمام تر سختی اور مشکلات کو اپنی رب کی آزمائش سمجھ کر ہر امتحان میں کامیاب ہوئے۔آپﷺ کا جنگ میں کردار مسلمانوں کے لیے احسن نمونہ ہے کہ جب حالات مشکل ترین ہوں تو آپ نے صبر کرنا ہے۔ آپﷺ ایک عظیم جرنیل تھے جو جنگ کے اصولوں سے واقف تھے آپ کے جنگی اصولوں سے کفار بھی متاثر ہوئے۔آپﷺ کی حیات طیبہ مثالی ہے جس سے تمام جہان والے فیض پا سکتے ہیں۔آپﷺ کی زندگی ہمارے سامنے کھلی کتاب ہے آپ بہترین معلم ،تاجر اور صادق و امین بھی ہیں ہر مسلمان کو اس کردار کی پیروری کرنی چاہئے تاکہ اس کے لیے دنیا و آخرت میں آسانیاں ہوں۔

(ب) مِّنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاهَدُوۡا اللّٰهَ عَلَيۡهِ‌

ترجمہ: مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار اُنہوں نے خدا سے کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا۔

مفہوم:

یہ آیت میں حضرت انس بن النضرؓ کے بارےمیں نازل ہوئی ہے آپؓ جنگ بدر میں شریک نہ ہوسکے جس کا انہیں ملال تھا کہ کفر و اسلام کا پہلا معرکہ تھا اور وہ اس سے محروم رہے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ اب جو بھی کفر و اسلام کا معرکہ ہوگا میں اس میں شریک ہونگا پھر غزوہ احد کے موقع پیش آیاتو آپؓ نے فرمایا کہ ”مجھے احد کے پہاڑ سے جنت کی خوشبوئیں آرہی ہیں اور آگے بڑھ کر مشرکین پر تلوار چلاتے رہے زیادہ مسلمان چونکہ لوٹ چکے تھے یہ تنہا تھے آپ کے بے پناہ حملوں نے کفار کے حوصلے پست کر دیے۔“
پھر آپ کو کفار نے گھیر کر شہید کر دیا۔آپؓ کو ۸۰ زخم آئے ۔ آپؓ نے جو وعدہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے کیا وہ پورا کر دیا۔

(ج) ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ قَضٰى نَحۡبَهٗ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّنۡتَظِرُ

ترجمہ: ان میں بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر پوری کر چکے ہیں اور ان میں سے کچھ انتظار کررہے ہیں۔

مفہوم:

اس غزوہ میں مومنین جو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے کیے عہد کو نبھارہے تھے اور انھوں نے شہادت کا رتبہ پایا اور جو غازی ہوئے وہ اس اتنظار میں ہیں کہ دوبارہ کفر و اسلام کا معرکہ لگے اور وہ پھر سے اللہ اور اس کےرسولﷺ سے کیا وعدہ نبھائیں اور میدان جنگ میں ثابت قدمی سے لڑی اور اپنی کا نذرانہ پیش کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مومنین ہیں جو نہ اپنے عہد سے پلٹے نہ اپنے وعدہ سے دستبردار ہوئے بلکہ انھوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سےہرگز دریغ نہ کیا۔ دوسری طرف منافقین تھےجو اپنےعہد سے پھر گئے اور میدان جنگ سے فرار کے لیے طرح طرح کے بہانےبنانے لگے۔ کچھ منافقین تو بغیر بتائے ہی میدان جنگ سے چلے گئےاور کچھ نبی ﷺ کے پاس آکر جانے کی اجازت طلب کرنے لگے ان کے مقابلہ میں صحابہ اکرامؓ کی جماعت جو قائم رہی ان میں بہت سے لوگ شہیدہوئے اور بہت سے لوگ شہادت کی کامیابی کے منتظر تھے۔