عائلی زندگی معنی، مفہوم ، اہمیت اور فضیلت

0

سوال۱: عائلی زندگی سے کیا مراد ہے؟

جواب: عائلی زندگی سے مراد خاندانی زندگی ہے۔ انسان پیدائش سے موت تک ساری زندگی اپنے خاندان میں گزارتا ہے خاندان بنیادی طور پر میاں بیوی اور اولاد پر مشتمل ہوتا ہے۔ خاندان کے تمام افراد مختلف رشتوں کی بناءپر ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔ خاندان معاشرے کا اہم جزو ہے اور معاشرے کے اثرات خاندان پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اگر معاشرہ خوشحال اور اسلامی طرزِ زندگی پر گامزن ہوگا تو خاندان پر اس کے اچھے اثرات پڑیں گے۔ اسلام نے انسانی معاشرے میں ایک مضبوط خاندانی نظام کے قیام کو بڑی اہمیت دی ہے۔

سوال۲: خاندانی نظام کی اہمیت پر نوٹ لکھیں۔

مفہوم:

عائلی زندگی سے مراد خاندانی زندگی ہے انسان پیدائش سے موت تک ساری زندگی اپنے خاندان میں گزارتا ہے خاندان بنیادی طور پر میاں بیوی اور اولاد پر مشتمل ہوتا ہے۔ خاندان کے تمام افراد مختلف رشتوں کی بناءپر ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔ خاندان معاشرے کا اہم جزو ہے۔ اور معاشرے کے اثرات خاندان پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اگر معاشرہ خوشحال اور اسلامی طرز زندگی پر گامزن ہوگاتو خاندان پر اس کے اچھے اثرات پڑیں گے۔ اسلام نے انسانی معاشرے میں ایک مضبوط خاندانی نظام کے قیام کو بڑی اہمیت دی ہے۔

بقائے ملت:

حضورؐ نے نکاح کی بنیادی وجہ یا غرض بقائے ملت بتائی ہے بچہ پیدائش کے وقت ضعیف اور محتاج ہوتا ہے اسے کئی برس نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے یہ مشکل کام ہے یہ بوجھ صرف والدین ہی اٹھا سکتے ہیں اور یہ تمام مرحلہ صرف ایک گھر سے ہی وابستہ ہو سکتا ہے والدین بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت پوری زندگی کا سرمایہ لگا دیتے ہیں اپنا چین و سکون اولاد پر قربان کر دیتے ہیں گھر ہی ایک مضبوط قلعہ ہے جس میں قوم کے بچے بیرونی خطرات سے محفوظ نشوونما پاتے ہیں اور والدین اس قلعہ کے نگہبان ہیں۔

اولین تربیت گاہ:

گھر بچے کی اولین تربیت گاہ ہے کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کے جو طریقے وہ بچپن میں سیکھتے ہیں ان کی بنیاد پختہ ہوتی ہے بچپن میں مزاج اور حرکات و سکنات کا جورنگ ہوتا ہے وہ عمر بھر کے لئے ساتھ دیتا ہے۔ مسلمان والدین اپنی طرف سے بچے کی ہر ممکن نیک تربیت کرتے ہیں۔ انکی یہ اچھی تربیت قوم کی بقاء کے لیے مدد گار ثابت ہوتی ہے گھر کی زندگی انسان کو دنیا کی وسیع تر زندگی کی ذمہ داریوں کے قابل بناتی ہے۔

اخلاقی طہارت اور کردار کا تحفظ:

زندگی کو صحیح طریقے سے اختیار کرنے کے بعد مرد و عورت کئی فتنوں سے محفوظ رہتے ہیں عورت ا س اخلاقی قلعے میں امن سے ہو جاتی ہے حضورؐ کا ارشاد ہے کہ:
”جو تم میں سے جو آدمی مہر و نفقہ کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کیونکہ یہ سب سے زیادہ نگاہ کو پاک رکھتا ہے اور عفت کی حفاظت کرتا ہے جو شخص نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ روزے رکھے“

نیک خاوند اور بیوی ایک دوسرے کا اخلاق سنوارتے ہیں والدین نیک ہوں تو اولاد پر بھی نیک اثر پڑتا ہے بچے اچھے اخلاق سےآراستہ ہوتے ہیں ایسا گھر پھر ارد گرد کے ماحول پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔
آخرت کا سامان: عائلی زندگی کا ذمہ اٹھانا ایک عظیم دینی ذمہ داری سنبھالنے کےبرابر ہے۔ جو شخص اس سے عہدہ بر آہوا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا انعام ہوگا۔ احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے روز کم سن بچے والدین کی شفاعت کریں گے۔

سوال۳: زوجین کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں؟

جواب: مفہوم: زوج کے معنی ہیں جوڑا اس کی جمع ازواج ہے زوجین کے معنی ہیں میاں، بیوی۔
رشتہ زوجیت کی اہمیت: والدین اور اولاد کے بعد قوی ترین رشتہ زوجین کا ہے اس رشتہ کو سب رشتوں پر تقدم حاصل ہے کیونکہ یہ رشتہ باقی رشتوں کی بنیاد ہے اسلام نے رشتہ زوجیت کو رزق کی فراخی کا سبب قرار دیا ہے یہ یہی رشتہ راحت و سکون کا ذریعہ ہے۔

حقوق و فرائض:

خاوند کے حقوق: خاوند کے وہی حقوق ہیں جو بیوی کے فرائض ہیں خاوند کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ حضورؐ کے اس فرمان سے ہوتا ہے کہ:
”اگر میں کسی کو حکم دیتا تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو سجدہ کرے تو حکم دیتا کہ بیوی اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔“

احترام و محبت:

رشتہ زوجیت باہمی احترام و محبت کا رشتہ ہے حضورؐ کی حدیث سے بھی ظاہر ہے کہ بیوی پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کا دل سے بیحد احترام کرے بیوی کا دل خاوند کی محبت سے سرشار ہو اس سے ازدواج زندگی خوشگوار ہوتی ہے باہمی احترام و محبت سے زندگی آسان ہو جاتی ہے۔
اطاعت شعاری:بیوی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے خاوند کے ہر جائز حکم کی تعمیل کرے کبھی اس کی نافرمانی نہ کرے قرآن کی رو سے نیک عورت وہ ہے جو اپنے خاوند کی فرمانبردار ہو۔

جیسا کہ قرآن میں آتا ہے:
”پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت اورنگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔“

مال و عزت کی حفاظت:

بیوی کا فرض ہے کہ وہ خاوند کے مال اور گھر کے اثاثے وغیرہ کی حفاظت کرے کفایت شعاری اور سلیقے سے کام لے چیزوں کو ضائع نہ ہونے دے قرآن میں آتا ہے کہ:
”پس جو نیک عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔“

سوال۴: اولاد کے حقوق و فرائض کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

حقوق اولاد:

اولاد کی پیدائش کے بعد ابتدائی حقوق: جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو اولاد کا یہ حق ہے کہ پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دی جائے اس کےبعد جب وہ سات دن کا ہو جائے تو اس کا عقیقہ کیا جائے اس کے سر کے بال منڈوا کر بالوں کے وزن کے برابر صدقہ کیا جائے اگر لڑکا ہو تو دو بکرے اور اگر لڑکی ہو تو ایک بکراذبح کیا جائے اس کے بعد اس کا اچھا سا نام رکھا جائے ایسا نام جس سے اللہ کی بڑائی اوربندے کی عائزی ظاہرہوتی ہو۔ اگر لڑکا ہو تو عقیقہ والے دن اس کا ختنہ کیا جائے اگر اس دن رہ جائےتوپھر بعد میں جتنا جلدی ہو سکے اس کا ختنہ کر دیا جائے۔ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسےنماز پڑھنے کی تاکید کی جائے اور ابتدائی اسلامی تعلیم دی جائے اسے اچھے اخلاق، نیکی کے کام، بڑوں کا احترام سکھایا جائے۔

پرورش:

اولاد کی پرورش کےسلسلے میں قرآن نے یہ قانون دیا ہے کہ بچہ کی رضاعت دو برس تک ہے
ماں مرجائے یا طلاق ہو جائے تو باپ دو برس تک رضاعت کا سامان کرے لڑکی کمزور ہوتی ہے اس لیے اس کی پرورش کے بارے میں اسلام خصوصی تاکید کرتا ہے۔

تعلیم و تربیت:

اولاد کا والدین پر حق ہے کہ انہیں عمدہ اور نیک تربیت دیں قرآن میں اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ:
”اپنے آپ کو اور گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔“
یعنی خود بھی نیکی کرو اور گھر کے افراد کو بھی نیکی سکھاؤ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ:
”کوئی باپ اپنے بچے کو حسن ادب سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا۔“
اولاد کی پرورش اور تربیت کرکے انہیں کمائی کے لائق کرنا ایک عظیم دینی خدمت ہے احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے۔

وراثت میں حصہ:

اولاد کا یہ حق ہے کہ جب ان کے والدین کی طرف سے جو تر کہ رہ جائے تو اس میں اولاد کو باقاعدہ حصہ دیا جائے شریعت میں ایک لڑکے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ مقرر ہے۔

والدین کے حقوق:

والدین کےاولاد پر اس قدر احسانات ہوتے ہیں کہ اولاد ان کی خدمت میں تمام زندگی لگادے تو ان کا حق ادا نہیں ہو سکتا حضورؐ کی حدیث ہے کہ:
”کوئی اولاد اپنے والدین کے احسانوں کا اجرادا نہیں کرسکتی سوائے اس کے کہ والدین کسی کے غلام ہوں اور انہیں خرید کر آزاد کردے۔“

والدین کے حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

محبت و احترام:

والدین سے محبت اور ان کا احترام کرنا چاہئے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے توحید کے ساتھ ہی والدین سے حسن سلوک کا حکم دی اہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمہارے پاس ان میں کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں، تو انہیں اف تک نہ کہو نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان کے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحمت کے ساتھ انکے سامنے جھک کررہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگاران پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کےساتھ مجھے بچپن میں پالاتھا۔“

فرمانبرداری:

والدین کی فرمانبردای ہر حالت میں ضروری ہو سوائے اس صورت کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ اس کے علاوہ والدین کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی روا نہیں۔ حضورؐ کافرمان ہے کہ اگر والدین تجھے کنبہ اور دنیا سے نکل جانے کا حکم دیں تو جب بھی ان کا نافرمانی نہ کر۔

والدین کے رشتہ داروں سے سلوک:

حضورﷺ نے والدین کی محبت اور خدمت گزاری پر تاکید نہیں کہ بلکہ ان کے رشتہ داروں کی محبت اور خدمت گزاری کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ ایک شخص حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہو اور عرض کیا کہ مجھ سے ایک بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے کیا میرے لیے توبہ کی کوئی صورت ہے؟ آپؐ نے پوچھا کہ تیری ماں (زندہ) ہے بولا نہیں پھر پوچھا کیا تیری خالہ ہے؟ جواب دیا ہاں آپؐ نے فرمایا تو اس سے نیکی کر۔ حدیث میں ہے کہ بہترین نیکی یہ ہے کہ والدکے تعلقات کو زندہ رکھا جائے۔

والدین کی موت کے بعد:

والدین کی خدمت گزاری کا حق انکی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہوتا بعد میں بھی جاری رہتا ہے۔ اولاد کی نیکی کا ثواب والدین کو بھی پہنچتا ہے اس لیے والدین کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ انسان نیک ہو کر رہے تاکہ جنت میں ان کے درجات بلند تر ہوں۔

س۱: خاندان کے دو اہم ستون کون ہیں؟

جواب:زوجین یعنی شوہر و بیوی خاندان کے دو اہم ستون ہیں۔

س۲:عائلی زندگی کا کیا مقصد ہے؟

جواب: نسلِ انسانی کی بقاء اور اس کی افزائش اللہ تعالیٰ کے نزدیک عائلی زندگی کا مقصد ہے۔

س۳: اولاد کے فرائض کے متعلق قرآنی آیت لکھیں۔

جواب:ترجمہ: ”ان دونوں کو اف بھی نہ کہو اور نہ ہی انھیں جھڑکو اور ان سے نرمی سے بات کرو اور رحمت کے ساتھ عاجزی کے بازو ان کے لیے جھکاؤ۔ کہو اے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے مجھے بچپن میں پالا۔“