Surah Ahzab ki Tafseer in Urdu | Islamiat Notes | Surah Ahzab Urdu Notes | الدرس الثالث(ج) آیات ۶۹ تا۷۳

0

سورۃ الاحزاب

الدرس الثالث(ج) آیات ۶۹ تا۷۳

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوۡاؕ وَكَانَ عِنۡدَ اللّٰهِ وَجِيۡهًاؕ‏ ﴿۶۹﴾

مومنو تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ (کو عیب لگا کر) رنج پہنچایا تو خدا نے ان کو بےعیب ثابت کیا۔ اور وہ خدا کے نزدیک آبرو والے تھے۔

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوۡا اللّٰهَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلاً سَدِيۡدًاۙ‏ ﴿۷۰﴾

مومنو خدا سے ڈرا کرو اور بات سیدھی کہا کرو۔

يُّصۡلِحۡ لَـكُمۡ اَعۡمَالَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡؕ وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِيۡمًا‏ ﴿۷۱﴾

وہ تمہارے اعمال درست کردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا تو بےشک بڑی مراد پائے گا۔

اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالۡجِبَالِ فَاَبَيۡنَ اَنۡ يَّحۡمِلۡنَهَا وَاَشۡفَقۡنَ مِنۡهَا وَ حَمَلَهَا الۡاِنۡسَانُؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوۡمًا جَهُوۡلاً ۙ‏ ﴿۷۲﴾

ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بےشک وہ ظالم اور جاہل تھا ۔

لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ الۡمُنٰفِقِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتِ وَالۡمُشۡرِكِيۡنَ وَالۡمُشۡرِكٰتِ وَيَتُوۡبَ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿۷۳﴾

تاکہ خدا منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے اور خدا مومن مردوں اور مومن عورتوں پر مہربانی کرے۔ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے۔

الکلمات والترکیب
برا بری کر دیا، بے عیب ثابت کر دیا
قولا سدیدا سیدی بات، سچی بات
وجیھا محترم، عزت والا
عرضنا ہم نے پیش کیا
اشفقن وہ ڈر گئیں
ظلوما جھولا بڑا ظالم اور جاہل

سوالات کے جوابات دیں:

سوال۱: اس سبق کی آیات میں اہل ایمان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال دے کر کیا بات سمجھائی گئی ہے؟

جواب: موسیٰ ؑ اور قوم بنی اسرائیل:

حضرت موسیٰ علیہ السلام باری تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے تھے۔ آپؑ اللہ کے چار بڑے پیغمبروں میں سے ایک تھے آپ ؑ کو بنی اسرائیل کی قوم میں مبعوس کیا گیا۔ آپؑ نے بنی اسرائیل کو فرعون اور اہل فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دلائی۔ آپؑ بنو اسرائیل کی نجات کا باعث بنے آپؑ کی قوم نے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں۔
بنی اسرائیل نے آپؑ پر الزام لگایا کہ آپؑ نے اپنے بھائی ہارونؑ کو جنگل میں لے جا کر قتل کر دیا جس پر اللہ تعالیٰ نے غیب سے ان کو بری قرار دیا۔ قارون اورکچھ یہودیوں نے ایک عورت کو آپؑ پر تہمت لگانے کو اکسایا جس میں اللہ رب العزت نے آپ ؑ کی مدد کی اور آپ بری الزمہ قرار پائے۔
اھل ایمان کو ہدایات: اہل ایمان کو ہدایات دی گئی کہ جس طرح بنی اسرائیل نے اپنے بنیوں کو تکلیفیں دیں ان کے ساتھ بدسلوکی کی اس طرح اپنے نبی موسیٰؑ کے ساتھ نہ کرنا مگر وہ سرکش تھے انھوں نےموسیٰؑ کو تکالیف دیں ۔ موسیٰؑ نے اس پر بھی صبر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے مسلمانو! تم یہودیوں کی سر حرکتیں نہ کرو تمہارے روش اپنے نبیؐ کے ساتھ وہ نہیں ہونی چاہئے جو بنی اسرائیل کی حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ تھی۔“

سوال۲: قُوۡلُوۡا قَوۡلاً سَدِيۡدًاۙ‏ کا مفہوم بتایے اور ہمارلیے اس میں کیا رہنمائی ہے؟

جواب: قُوۡلُوۡا قَوۡلاً سَدِيۡدًاۙ‏ سے مراد ہے کہ راست گوئی، صاف بات اور درست بات ہے مفسرین کے نزدیک اس کا مطلب مجاز میں حق کی بات اور انصاف کی بات بھی ہے۔
درست بات کہنا مومن کا حق ہے اللہ تبارک تعالیٰ حق گوئی کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ جس بات میں کوئی شک و شبہ نہ ہو بلکہ وہ ہر پہلو سے حق سچ ہو اللہ تعالیٰ ایسی بات کو پسند فرماتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ رکھنے والوں کی صفات میں سے ہے کہ وہ سچ بات کہتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے فرمایا:
”کہ اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو“
دوہرا رویہ اختیار کرنا: ایسے مومن جو اللہ کو پسند ہیں وہ ہمیشہ سیدھی اور صاف بات کرنے والے ہیں ان کے رویہ میں کوئی دوغلہ پن نہیں ہوتا ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا بلکہ وہ سچ بات کہنے کو پسند کرتے ہیں اور منافقت کے رویوں سے اجتناب کرتے ہیں۔
حدیث نبویؐ ہے کہ: ”نبیؐ نے فرمایا سب سے افضل جہاد یہ ہے کہ جابر حکمران کے سامنے حق بات کہے اور دوغلہ پن و چاپلوسی سے اجتناب کریں کیونکہ یہ منافقت کی نشانی ہے اور یہ آدمی کو ایمان سے دور لے جاتی ہے۔“

سوال۳: دو لائن کا جواب دیں:

س۱:اس سبق میں کن جیسے نہ بننے کی ہدایت کی گئی ہے؟

جواب: اس سبق میں بنو اسرائیل کے یہودیوں کے جیسے نہ بننے کی ہدایت کی گئی ہے جنھوں نے موسیٰ علیہ السلام کو رنج پہنچایا۔

س۲: انسان نے کون سا بار اٹھایا اور اسے کس نے اٹھانے سے منع کردیا تھا؟

جواب: جواب: اس سوال میں بار سے مراد امانت ہے جو کہ انسانوں کو پیش کرنے سے پہلے رب العالمین کی جانب سے آسمان و زمین اور پہاڑوں کو پیش کی گئی تھی لیکن ان سب سے اس امانت کو لینے سے منع کردیا تھا۔ لہذا آخر میں انسان نے اس امانت کو لیا اور یہ امانت اللہ پاک کی کتاب قرآن مجید ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کی گئی۔ یہ امانت ایک انسان کے دل میں رہ سکتی ہے لیکن اگر قرآن پاک پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے لہذا انھوں نے اس امانت کو لینے سے انکار کردیا تھا۔

س۳: انسان نے وہ بار کیوں اٹھایا جو اٹھانے سے باقی سب نے منع کردیا؟

جواب: انسان کے اس بار کو اٹھانے کی کچھ وجوہات بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیں :
انسان ظالم اور جاہل تھا لہذا اس نے اللہ تعالیٰ کی اس امانت کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا جو باقی سب نہ کرسکے اس بار کا اٹھانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ واضح ہوجائے کہ کون مومن ہے اور کون مشرک یا منافق ہے تاکہ سب کو اپنے عمل کا پھل مل سکے۔