حضرت امام غزالیؒ کے حالات و واقعات

0

تعلیم اور علمی عروج:☜

امام غزالی کا نام محمد اور کنیت ابو حامد والد کا نام بھی محمد تھا۔طوس کے ضلع میں 450ھ میں طاھران میں پیداء ہوئے۔ والد کی وصیّت کے مطابق جو ایک مخلص عالم دوست اور غریب مسلمان تھے، انکے ایک صوفی دوست نے تعلیم کا انتظام کرنے سے معذرت کی اور مدرسہ میں داخل ہو جانے کا مشورہ دیا۔چناچہ آپؒ ایک مدرسہ میں داخل ہو کر مشغول تعلیم ہوگئے۔

امام احمد غزالیؒ نے اپنے وطن میں شیخ احمد الرزکانی سے فقہ شافعی کی تعلیم حاصل کی پھر جرجان میں امام ابو نصر اسماعیلی سے پڑھا۔اس کے بعد نیشاء پور جاکر امام حرمین کے حلقہ درس میں شریک ہو گئے اور تھوڑی ہی مدت میں اپنے رفقاء میں جو 400 کی تعداد میں تھے ممتاز ہو گئے۔اور اپنے نامور استاد کے نائب بن گئے۔

امام حرمین انکی تعریف میں فرماتے ہیں کہ غزال بحرزخار ہیں۔امام الحرمین کے انتقال کے بعد آپؒ نیشاء پور سے نکلے۔اس وقت آپکی عمر 28 سال تھی۔ لیک بڑے بڑے کبیر السنان علماء سے آپؒ زیادہ باکمال سمجھے جاتے تھے۔

درس و تدریس سے فارغ ہونے کے بعد امام غزالیؒ نظام الملک کے دربار میں پہنچے۔ نظام الملک نے انکی شہرت و ممتاز قابلیت کی بناء پر بڑے اعزاز و اکرام سے دربار میں انکو لیا۔یہاں اہل کمال کا مجمع تھا۔علمی مباحثیں، دینی مناظرے، یہاں تک کہ شادی و غمی کا ایک ضروری عنصر تھے۔امام غزالیؒ ان مباحث میں سب پر غالب  رہتے تھے۔انکی نمایاں قابلیت دیکھ کر نظام الملک نے انکو مدرسہ نظامیہ کی صدارت کے لئے منتخب کیا۔جو اس وقت ایک عالم کے لیے سب سے بڑا اعزاز اور منتہائے ترقی تھا۔اس وقت آپؒ کی عمر 34 سال سے زیادہ نہ تھی۔ تھوڑے ہی وقت بعد آپؒ درس، حسن تقریر اور تجرّ علمی کی بغداد میں دھوم مچ گئی۔طلبہ اور علماء نے استفادہ کے لئے ہر طرف سے ہجوم کیا۔انکی مجلس درس مرجع خلائق بن گئی۔ رفتہ رفتہ آپؒ نے اپنی اعلی دماغی اور اعلی فضیلت علمی سے بغداد میں ایسا اثر اور رسوخ پیدا کیا کہ ارکان سلطنت کے ہمسر بن گئے۔

امام غزالیؒ کا تجدیدی کام:☜

امام غزالیؒ نےجو مجددانہ کام انجام دیے اسکو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1۔ فلسفہ اور باطنیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا مقابلہ اور اسلام کی جانب سے انکی بنیادوں پر حملہ۔
2۔زندگی و معاشرت کا اسلامی و اخلاقی جائزہ اور انکی تنقید و اصلاح۔

فلسفہ پر عملی جراحی:☜

آپؒ کی پہلے اور سب سے بڑے کارنامہ کی تفصیل یہ کہ فلسفہ الحاد و باطنیت کے خلاف اس وقت تک جو کچھ کیا جارہا تھا اسکی حیثیت صرف مدافعت اور جواب دہی کی تھی۔اس وقت تک فلسفہ اسلام پر حملہ آور تھا اور متکلمین اسلام صفائی کے وکیل تھے۔فلسفہ اسلام کی بنیادوں پر تیشہ چلاتا تھا۔اسوقت تک متکلمین اور علماء اسلام کے گروہ میں سے کسی نے فلسفہ کی بنیادوں پر گرہ لگانے کی جرأت نہیں کی۔ فلسفہ جن مفروضات پر قائم تھا ان پر جرح کرنے اور خود ان پر علمی تنقید کرنے کی صدیوں تک کسی کو ہمت نہیں ہوئی۔

امام ابو الحسن اشعری کو چھوڑ کر جنکو فلسفہ سے براہ راست واسطہ نہیں پڑا پورے علم کلام کا  لہجہ معذرت آمیز و مدافعانہ تھا۔ امام غزالیؒ پہلے شخص تھے جنہوں نے فلسفہ کا تفصیلی و تنقیدی مطالع کیا۔اس کے بعد مقاصد فلاسفہ کے نام سے ایک کتاب لکھی جسمیں آسان زبان اور سلجھے ہوئے طریقہ پر منطق، الہیات، طبیعات کا خلاصہ پیش کیا۔ اور پوری غیر جانب داری کے ساتھ فلاسفہ کے نظریات و مباحث کو مدون کر دیا۔ کتاب کے مقدمہ میں انہوں نے وضاحت کے ساتھ لکھ دیا کہ؛ ریاضیات میں قیل و قال کی گنجائش نہیں اور دین کا اس سے نقیًا و اثباتًا کوئی تعلق نہیں۔لیکن اصل مذہب ک کے تصادم الہیات سے ہیں۔

منطقیات میں بھی شاذ و نادر غلطیاں ہیں۔اگر کچھ اختلاف ہے تو اصطلاحات کا۔ طبیعات میں ضرور حق و باطل کی آمیزش ہے۔اس لیے انکا موضوع بحث دراصل الہیات اور کسی قدر طبیعات ہے۔منطق محض تمہید و اصطلاحات کے لئے ہیں۔ اس کتاب سے فارغ ہو کر جس کی علم کلام کے حلقہ میں سخت ضرورت تھی۔انہوں نے اپنی معرکتہ الآرا کتاب “تھاف الفلاسفہ لکھی۔ جسکی خاطر انہوں نے مقاصد الفلاسفہ لکھی۔

زندگی اور معاشرت کا اسلامی جائزہ:☜

امام غزالیؒ کا دوسرا اصلاحی کارنامہ زندگی اور معاشرت کا اسلامی جائزہ اور اسکی اصلاح و تجدید کیبکوشش تھی۔انکی اس کوشش کا نمونہ اور کامیاب  نتیجہ انکی زندہ جاوید تصنیف “احیاء العلوم الدین” ہے۔

احیاء علوم الدین:☜

تاریخ اسلام کی جن کتابوں نے مسلمانوں  کے دل و دماغ اور انکی زندگی پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے اور جن سے اسلامی حلقہ عرصہ دراز تک فیض یاب رہے ہیں ان میں احیاء علوم الدین کو اعلی مقام حاصل ہے۔حافظ زین الدین العراقی صاحب “الفیہ”  نے احیاء کی احادیث کی تخریج کی ہے۔فرماتے ہیں کہ امام غزالیؒ کی “احیاء العلوم” اسلام کی اعلی ترین تصنیف ہے۔ عبد الغافر فارسی جو امام غزالیؒ کے معاصر اور امام الحرمین کے شاگرد ہیں فرماتے ہیں کہ احیاء العلوم” کے مثل پہلے کوئی کتاب تصنیف نہیں ہوئی۔ شیخ محمد گازرونی کا دعوٰی تھا کہ اگر دنیا سے تمام علوم مٹا دیے جائیں تو میں “احیاء العلوم” سے انکو دوبارہ زندہ کر دونگا۔

امام غزالیؒ کی دو ممتاز خصوصیات :☜

امام غزالیؒ کی دو خصوصیات بہت ممتاز ہیں۔ اخلاص اور علو ہمت۔۔۔
انکے اخلاص کا اعتراف موافق و مخالف سب کو ہے اور وہ انکی تصنیفات کے لفظ لفظ سے ٹپکتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اگر چہ انکے ناقد ہیں اور انکی بہت سی چیزوں سے انکو اختلاف ہے لیکن اسکے باوجود انکو کبار العلماء اور مخلصین میں شمار کرتے ہیں۔

انکی کتابوں کی اصلی تاثیر اور مقبولیت کی اصل وجہ انکا یہی اخلاص ہے۔اسی اخلاص نے ان سے اقلیم علم کی مسند شاہی ترک کروائی۔اور برسوں دشت و بیاباں کی خاک چھنوائی اور باوجود طلبی اور اصرار کے بادشاہوں کے دربار میں اور اپنے وقت کے سب سے بڑے اعزاز سے روگرداں اور بے نیاز رکھا۔انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک چیز ہے جو صدیقین کے قلب سے نکلتی ہے۔ وہ”حب جاہ” ہے۔ انکی آخری زندگی شہادت دیتی ہے کہ وہ اس مقام سے محروم نہیں رہے۔

علوم ہمت انکی زندگی کا طغراۓ امتیاز ہے۔انہوں نے علم و عمل کے دائرہ میں اپنے زمانہ کی سطح اور اپنے ہمسروں کی کسی منزل پر قناعت نہیں کی۔وہ علم و عمل کے جس ترقی یافتہ مقام پر پہنچے انکے کانوں میں یہی صدا آئی کہ علوم نقلیہ میں بھی وہ اپنے زمانہ اور اپنے معاصرین کی سطح سے بہت بلند ہیں۔

امام غزالیؒ کا عالم اسلام پر اثر:☜

ان کی علمی اور عملی کمالات طاقتور اور جامع شخصیت کا یہ نتیجہ تھا کہ انہوں نے عالم اسلام پر گہرا اثر ڈالا۔ انکی عہد و آفریں تصنیفات اور مباحث نے علمی حلقوں میں ایک ذہنی تموج اور فکری حریت پیدا کر دی اور ان کو نئی غذا اور طاقت پہنچائی۔ اسلام کی جو چند شخصیتیں صدیوں تک عالم اسلام کے دلوں و دماغ پر اور اسکے علمی اور فکری حلقوں پر حاوی رہی ہے، ان میں سے ایک امام غزالیؒ کی شخصیت بھی ہے۔ جنکی اثر آفرینی علمی پایہ انکی تصنیفات کی اہمیت و تاثیر مخالف اور موافق سب کو تسلیم رہی ہے۔ صدہا انقلاب کے بعد انکا نام اور کام آج بھی زندہ ہے اور انکی تصانیف ایک بڑے حلقہ میں وقیع اور مقبول ہیں اور پڑھنے والوں کو آج بھی متاثر کرتی ہیں۔

بقیہ زندگی اور وفات:☜

امام غزالیؒ نے یہ زمانہ علمی و دینی اشتغال میں گزارا ان میں اب بھی طالب علمانہ روح تھی۔ وہ حدیث کی طرف ایسی توجہ نہیں کر سکتے تھے جیسی انہوں نے علوم عقلیہ کی طرف کی تھی۔اس لیے انکو اپنی اس کمی کو پورا کرنے کا خیال ہوا۔ چناچہ ایک مشہور محدث حافظ عمر بن ابی الحسن الرواسی کو اپنے یہاں مہمان رکھ کر ان سے صحیح بخاری کا درس لیا۔اور اسکی سند حاصل کی۔یہ آخیر زمانہ انکی حدیث کے مطالع اور  اشتغال میں گزرا۔

انتقال سے ایک سال پہلے انہوں نے 504 ھ المصطفی لکھی جو اصولی فقہ کے ارکان ثلثہ میں شمار کی جاتی تھی اور علماء نے اسکے ساتھ بڑی اعتنائی کی ہے۔ یہ انکی آخری تصنیف ہے۔ امام غزالیؒ نے طابران میں 14 جمادی الآخر 505 ھ میں 55 سال کی عمر انتقال فرمایا اور یہ گنج گرانمایہ اسی خاک میں ودیعت ہوا۔