حضرت صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ کے حالات و واقعات

0

نسب نامہ:☜

حضرت مخدوم علی احمد صابر بن عبد اللہ بن سید فتح اللہ بن سید نور محمد رحمةاللہ علیہ بن حضرت سید احمد قدس اللہ سرہ بن حضرت سید الغیاث الدین قدس بن سید بہاء الدین بن قدس سرہ بن حضرت تاج الدین قدس سرہ سید محمد اسمعیل قدس سرہ بن سید امام ناطق موسی کاظم رحمةاللہ علیہ بن حضرت امام جعفر صادق رحمةاللہ علیہ بن حضرت سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ بن حضرت مولی مشکل کشاء حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپکا نسبی تعلق حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے تھا۔ کیونکہ تواریخ آئینہ تصوف نے آپ کا جو شجرۂ نسب دیا ہے اس میں  کو آپ اولاد غوث الاعظم قرار دیا ہے۔

پیدائش :☜

آپؒ 19 ربیع الاول 592 ھ میں تہجد کے وقت پیداء ہوئے۔آپؒ کی ولادت کےمتعلق مؤرخین میں اختلاف ہے۔بعض کا کہنا ہے کہ آپ قصبہ کھوٹوال میں پیداء ہوئے اور بعض کا کہنا ہے کہ آپ ہرات میں پیدا ہوئے۔ کیونکہ صاحب السالکین کا کہنا ہے کہ آپؒ قصبہ کھوٹوال میں اپنے نانا جمال الدین سلیمان کے گھر پیدا ہوئے لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپکی والدہ آپ کو لیکر ہرات آئی۔ آپ کے بچپن کی کل راویات ہرات میں رہنے سے وابستہ ہیں۔

بوقت ولادت واقعہ:☜

اللہﷻ جب  چاہے تو پاکیزہ اشخاص اس دار فانی میں تشریف لاتے ہیں۔لہذا حضرت مخدوم علی احمد صابری کلیئریؒ کا اس دار فانی میں تشریف لانا قدرت کاملہ کی مشیت ہے۔آپ کی دایہ مسماةبصرہ بنت ہاشم کا کہنا ہے کہ جس وقت آپؒ شکم مادر سے بر آمد ہوئے تو سر مبارک قبلہ کی طرف تھا اور پیر میری طرف تھے۔ میری یہ مجال نہ ہوئی کہ جسم اطہر کو ہاتھ لگا لوں۔جب آپؒ کو غسل دینے کا ارادہ کرتی یا آپؒ کو ہاتھ لگاتی تو میرے ہاتھ کانپ جاتے تھے۔یا ناقابل برداشت سوزش میرے ہاتھوں میں ہو جاتی۔ یہ ماجرا دیکھ کر آپؒ کی والدہ ماجدہ نے ہدایت فرمائی کہ پہلے وضو کر لو بعدہ جسم پاک ہو ہاتھ لگانا۔چناچہ دایہ نے وضو کرکے غسل کرایا۔اس وقت آپ کی والدہ کو یاقوتی نور اور خوشبو سے لبریز بادل اپنے گھر کے گوشہ گوشہ  میں نظر آئے اور یہ بھی محسوس ہوتا تھا کہ پاک روحیں بلباس سفید خوشبو پوش گھر میں کثرت سے آ رہی ہیں۔اور نوزائیدہ پچہ کی پیشانی کا بوسہ لیکر واپس ہو رہی ہیں۔

اسم گرامی:☜

پیدائش کے بعد آپکا نام نامی علی احمد رکھا گیا۔لیکن بعد میں ایک بزرگ آپ کے والد ماجد بزرگوار کے پاس تشریف لائے اور آپؒ کو بلوا کر دیکھا اور پیار کیا۔ اور فرمایا کہ یہ بچہ علاؤالدین کہلائیگا۔اور ایسا ہی ہوا۔یعنی آپؒ کا نام سید علاؤالدین علی احمد قدس اللہ سرہ ہی مشہور ہوا۔

آپؒ کا نام علی احمد رکھنے کی وجہ تسمیہ:☜

آپؒ کی پیدائش سے قبل آپؒ کی والدہ ماجدہ کو خواب میں سرور کائینات سید کونین سرکار دوعالم محمد مصطفٰی احمد مجتبٰیﷺ تشریف لاۓ اور فرمایا کہ ہونے والے بچہ کا نام احمد رکھنا۔ اسکے بعد ایک شب حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک رات خواب میں ظاہر ہوئے اور فرمایا کہ اس بچہ کا نام علی رکھنا۔ آپؒ کی والدہ نے آپؒ کانام علی احمد رکھا تھا۔اور آپ کے والد نے آپؒ کا نام علاؤالدین رکھ دیا۔مگر بعد میں دونوں ناموں کوملا کر آپؒ کا نام علاؤالدین علی احمد جو مشہور زد خلائق ہوا۔ پیدائش کے موقعہ پر اس زمانے کے بزرگ شیخ ابو القاسم گرگانی نے آپؒ کے کان میں اذان کہی اور فرمایا کہ یہ بچہ قطب عالم ہوگا۔

زمانہ رضاعت کی کرامت:☜

پیدائش کے بعد ایام شیر خوارگی میں آپؒ سے کنی خوراک جس سے آپؒ کی بزرگی کے واضح ثبوت ملتے ہیں۔مثلا آپؒ کے صبر و شکر کا پہلا واقعہ یہ ہے کہ پیدائش کے بعد کئی دنوں تک آپؒ نے دودھ نہیں پیا۔آخر ایک دن آپؒ کے والد ماجد نے آپؒ کے صبر و استقلال پر چار رکعت نماز نفل بغرض اداۓ شکرانہ اداء کیے اور آپؒ کے چہرہ اقدس کو بوسہ دیکر 21 مرتبہ “یاشیخ عبد القادر جیلانی شئیٵ للہ امددنی باذن للہ” پڑھ کر آپؒ کے قلب پر دم فرمایا۔پس اس اسم متبرک کی بدولت آپؒ نے اسی وقت دودھ نوش فرمایا۔اور ایک سال تک آپؒ کا متواتر یہ معمول رہا کہ آپؒ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن دودھ نوش فرماتے۔اسکے بعد یہ دستور رہا کہ ایک دن دودھ نوش فرماتے اور دو دن صائم رہتے۔اور دو سال کے بعد خود بخود دودھ پینا چھوڑ دیا۔کنایتًا یہاں یہ نقطہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپؒ ازل ہی سے روزہ دار قانع اور منور تشریف لائے اور بچپن ہی سے چہرے پر صبر و قناعت کے آثار نمایاں تھے۔

بچپن کے واقعات:☜

صوفیا اور فقراء کا بچپن عام دنیا دار بچوں سے مختلف ہوتا ہے۔جیسے حضرت  مخدوم علی احمد صابر کا بچپن عام بچوں سے مختلف تھا۔ایام شیرگی کے کچھ واقعات تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آپؒ نے دودھ پی لیا تو پی لیا ورنہ صبر کرتے رہے اور آپؒ کے بچپن کے کئی عجیب و غریب واقعات و کمالات ظاہر ہوئے۔

سانپ کا دو ٹکڑے ہونا:☜

آپؒ کے والد ماجد بیان کرتے ہیں کہ 7 تاریخ ربیع الاول 592 هجری کا واقعہ ہے کہ انہوں نے صبح کے وقت اپنے مراقبہ سے آنکھ کھولی تو دیکھا کہ سانپ کے دوٹکڑے ہوئے پڑے ہیں۔سانپ کا ایک ٹکڑا ان پر گرا اور دوسرا زمین پر گرا۔حضرت صابر وہاں بیٹھے ہوۓ تھے۔ آپ کے والد نے آپکی والدہ کو جگایا اور سانپ کے ٹکڑے دیکھ کر آپکی والدہ ماجدہ نے فرمایا کیا میں خواب  دیکھ رہی ہوں؟؟؟ اب حضرت صابرؒ فرماتے ہیں کہ آج سے کوئی سانپ میرے خاندان والوں کو نہیں کاٹیگا۔میں نے سانپوں کے بادشاہ کو مار ڈالا ہے اور سب سانپوں سے وعدہ لے لیا  ہے کہ میرے خاندان کے کسی فرد کو نہیں کاٹے گا۔ اور یہ آپؒ کے بچپن کی کرامت ہے۔

واقعہ ذکر:☜

جب آپؒ کی عمر چار سال ہوئی تو آپؒ نے گفتگو شروع کر دی۔ بعض کتابوں میں آتا ہے کہ جب آپؒ کی عمر چار سال کی تھی تو ربیع الاول 596ھ بروز اتوار جب آپؒ نیند سے بیدار ہوئے تو پہلا کلمہ حق جو آپؒ کی زبان سے صادر ہوا وہ” لاموجودہ الا اللہ ” تھا ۔یعنی اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں۔

آپؒ کے والد ماجد اس وقت قریب ہی موجود تھے آپؒ کی قوت گویائی اور فصیح و بلیغ مخاطبت کے ساتھ جو صوفیاء عظام اور اولیاء اکرام کے لئے راحت روح ہے،سن کر بے اختیار سجدۂ شکر میں گر پڑے۔اور درگاہ مجیب الدعواة میں عرض کرنے لگے کہ یا الہٰی تیرا شکر ہے تونے اس بچہ سے سب سے پہلے اپنی موجودگی کا اظہار کرایا اور اپنے دیدار سے مشرف فرمایا۔

فاقہ کشی:☜

کم کھانا اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہنا، جو تصوف کا بنیادی اصول ہے، تمام اولیاء اللہ نے کم کھانے پر زور دیا ہے۔کیونکہ بھوکا رہنے سے اصرار الہیٰ کا ظہور ہوتا ہے اور اولیاء اللہ نے اس اصول پر عمل کیا۔اور جب آپؒ بالغ ہو گئے تھے تو آپؒ نےکم کھانے کا اصول شروع کر دیا  تھا۔لہذا جب آپؒ کی عمر چھ سال ہو گئی تو آپؒ نے کھانا پینا کم کر دیا۔تیسرے چوتھے دن جو میسر آتا تناول فرما لیتے کیونکہ آپؒ کی مالی حالت کمزور تھی۔اس وجہ سے کہ آپؒ کی والدہ بیوہ ہو چکی تھی۔جسکی وجہ سے آپ کا گزر اوقات بڑی حسرت و تنگی سے ہوا کرتا تھا۔اکثر دو تین دن تک کچھ کھانے کو میسر نہیں آتا تھا۔بلکہ فاقہ کشی میں  دن گزر جاتے تھے۔ اس لئے بھی کہ اللہ کے بندوں پر آزمائش کا وقت آ ہی جاتا ہے۔

بچپن میں زہد و مجاہدہ:☜

بچپن میں آپؒ پر ایک دن ایسا وقت آیا کہ آپؒ نے چارپائی پر سونا بھی ترک کر دیا تھا۔دن کو جنگلوں میں چلے جاتے اور وہاں ذکر الہی کرتے اور تمام رات عبادت میں گزار دیتے۔کئی کئی روز گوشہ تنہائی میں بسر کرتے۔ کسی کو اپنے پاس تک نہ آنے دیتے تھے۔ نہ کچھ کھاتے نہ پیتے۔جب  بھوک کا زیادہ غلبہ ہوتا تو اپنی والدہ سے کھانے کی کوئی چیز طلب کرتے۔گھر کی مالی حالت بالکل ٹھیک نہیں تھی کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپؒ کھانے کو طلب کرتے لیکن گھر میں کچھ نہ ہوتا تھا۔

مزید بیان کیا جاتا ہے کہ آپؒ کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ دو تین  دن سے فاقہ تھا اور کھانے کو کچھ میسر نہ تھا۔کسی سے مانگنے یا کچھ کہنے کو میرا جی نہ چاہتا تھا۔فجر کی نماز سے فارغ ہوکر مخدوم علی احمد صابر میرے پاس آۓ اور عرض کیا کہ مجھے بہت بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو تو دو۔فرماتی ہیں  کہ دوپہر تک تو میں نے حیلہ حوالہ سے ٹالا اور بہت کوشش کی کہ کچھ میسر آجائے لیکن کچھ میسر نہ ہوا۔ پھر ظہر کے بعد صابر میرے پاس آئے اور عرض کیا کہ اب میں بھوک کی وجہ سے بے بیتاب ہو رہا ہوں کچھ کھلا دیجیئے۔ فرماتی ہیں کہ میں اس کی تسلی کے لئے ایک دیگچی میں پانی بھر کر چولہے پر رکھ دی یونہی چمچ سے ہلانے لگی اور جس وقت صابرؒ میرے پاس آتے میں یہی کہہ دیتی کہ ابھی کسر باقی ہے۔غرض یہ کہ اسی طرح مغرب کے وقت تک ٹالتی رہی۔اور مغرب کے بعد صابر میرے پاس آئے اور کہا کہ اب مجھکو تاب نہی ہے آپ مجھے کچا ہی کھلا دیجیئے اور یہ کہہ کر وہ دیگچی کے پاس گئے اور اسے کھول کر کہا کہ چاول تو بالکل پک گئے ہیں۔آپ مجھے جلدی سے کھلا دیجیئے یہ سن کر مجھے درجہ حیرت ہوئی کیونکہ دیگچی میں تو چاول کانام بھی نہ تھا یہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ چاول تو بالکل پک چکے ہیں۔میں نے جاکر دیکھا تو فی الواقع ہی نہایت عمدہ چاول پک کر تیار ہیں۔علی احمد صابر کو اس میں سے نکال کر کھلاۓ اور مولوی ابوالقاسم کو بلاکر دکھایا اور واقعہ من و عن بیان کیا اور ان سے کہا کہ اب علی احمد کے واقعات اس پر مجبور کرتے ہیں کہ انہیں تعلیم باطنی دلوائی جائے۔اگر آپ کی رائے ہو تو انکو بھائی شیخ بابا فرید گنج شکرؒ کے سپرد کر دوں؟؟؟وہ چاول شیخ ابو القاسم کرگامیؒ نے خود بھی تبرکاً نوش فرمائے اور اپنے احباب کو بھی کھلائے اور سب حضرات نے آپؒ کی والدہ محترمہ کی رائے سے اتفاق کیا۔

ابتدائی دینی تعلیم:☜

آپؒ نے ابتدائی دینی تعلیم ہرات ہی میں حاصل کی۔آپ کے والد مرحوم کا چونکہ اس وقت انتقال ہو چکا تھا۔اس وقت آپؒ کی عمر پانچ سال تھی۔آپکی والدہ محترمہ نے آپؒ کو دینی تعلیم دلانے کی طرف مکمل توجہ دی۔ سب سے پہلے آپؒ کو قرآن کریم پڑھایا آپؒ کافی ذہین تھے۔ اسکے بعد آپؒ نے عربی فارسی پڑھنا شروع کر دی۔ تھوڑے عرصہ میں عربی فارسی کی تعلیم مکمل ہو گئی۔جب آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کر لی تو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے بابافرید گنج شکر ؒ کے سپرد کر دیا۔

حقیقی ماموں کی آغوش محبت میں:☜

جس وقت آپؒ کی والدہ محترمہ نے آپؒ کو بابا صاحب کی آغوش میں دیا تو آپؒ پر ایک عجیب و غریب  کیفیت کا غلبہ طاری ہوا۔اور جو سب سے پہلی بات آپؒ نے اپنے ماموں قبلہ سے کہی وہ یہ تھی کہ آج سے تین سال بعد میرے دادا کا وصال ہو جائیگا۔ بابا صاحب نے کہا کہ بیٹا تمہیں کیونکر اسکا علم ہوا۔سید سیف الدین عبد الوہاب تمہارے دادا بغداد شریف میں تشریف فرما ہیں، تم یہاں ہو ؟؟؟ آپؒ نے جوابًا فرمایا کہ ابھی میں نے اپنے قلب کی طرف دیکھا تو والد ماجد قبلہ کی صورت سامنے آئی اور داہنے ہاتھ کی تین انگلیاں میری جانب اٹھایئ۔اور یہ دلالت موت کی ہے۔ یہ سن کر بابا صاحب نے آپؒ کو اپنے سینے سے لگایا۔سینہ سے لگانا ہی تھا کہ ممدوح کو  بھی ایک وجدانی کیفیت طاری ہو گئی۔اور حالت جذب میں آپ بابا صاحبؒ بار بار فرماتے مرحبا فرزند علی احمد صابر بطن الولی بطن الولی بطن الولی”۔ اور کمال استغراق کو حالت میں اپنے سیدھے ہاتھ کی تین انگلیاں حضرت علی مخدوم صابرؒ کے سینہ بالا قلب پر رکھ کر  تین مرتبہ ارشاد فرمایا کہ تین تجھ سے جمال ذات ہونگے۔

عبادت و ریاضت:☜

والدہ محترمہ کے ہرات واپس جانے کے بعد آپؒ اپنے ماموں کے پاس رہنے لگے اور آپؒ ؒ کے مجاہدات کا زمانہ شروع ہو گیا۔کیونکہ روحانیت کے حصول کے لئے مجاہدات از حد ضروری ہیں۔چناچہ سب سے پہلے آپ نے نماز کی پابندی پر زور دیا اور نوافل کی کثرت کی۔ بابا صاحب کی خانقاہ میں ایک لنگر خانہ قائم تھا۔ جسمیں غرباء، یتیم، مساکین کو کھانا فراہم کیا جاتا تھا۔ تقریباً تین سو آدمیوں کا کھانا تیار کیا جاتا تھا اور ہر سال محرم کی پیشگی مصارف سال بھر کے لئے حساب کرکے باباصاحب کی خدمت میں بھیج دیا کرتے تھے اور لنگر کے تقسیم کرنے کی ذمہ داری آپؒ کے سپرد تھی۔

خدمات لنگر:☜

باباصاحب نے آپنی بہن سے آپؒ کی عادت کی کیفیت معلوم کرکے خیال کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حضرت علی احمد مخدومؒ اپنی عادت کے بموجب کھانا طلب کرنے میں احتیاط برتیں اور کسی وقت آپکو بنا کھانا کھائے بھی نہ رہنا پڑے۔ جیسا کہ موجودہ زمانے میں قائدہ ہے کہ اسکول اور کالجوں میں بچوں کو ذہنی تعلیم کے ساتھ عملی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔بالکل اسی طرح علماء سلف بھی اپنے شاگردوں کے لئے ذہنی تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی اور عینی تعلیم کا بھی انتظام کرتے تھے۔ اور اس تعلیم کا بڑا لحاظ رکھتے تھے۔چناچہ حضرت بابا صاحب نے یہ خیال کرکے حضرت علی مخدوم صابرؒکو بلا کسی طلبی اور حجت کے کھانا ملتا رہے اور عملی تعلیم کا درس بھی پورا  ہوتا رہے، اپنے لنگر کا کل انتظام انکے سپرد کر دیا۔

آپؒ نے بارہ سال تک تقسیم لنگر کی خدمت کو بجان و دل انجام دیا۔چونکہ آپکوؒ کو اجازت صریحی پیر و دستگیرؒ سے حاصل نہیں تھی کہ تم بھی لنگر کا کھانا کھانا۔ اس لئے آپؒ نے اس عرصہ دراز میں ایک دانہ بھی اپنے منھ میں نہیں ڈالا۔اس قدر ریاضت و مجاہدات کیے کہ ایک لمحہ بھی اپنے جسم اطہر کو آرام نہیں دیا۔اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ بوجہ صوم دائیمی کے جسم اطہر بہت کمزور ہو گیا۔

جب روزہ پر روزہ رکھتے اور دو تین دن گزر جاتے؛ تو بھوک کی شدت برداشت کی طاقت سے باہر ہوتی تو افطار کے وقت جنگل کی طرف نکل جاتے وہاں خود رو پھل پھول اور درختوں کی پتیوں سے جو سوائے خدا کے کسی کی ملکیت نہیں ہوتی تھی، اکل حلال سمجھ کر افطار کر لیتے تھے۔اور بعد فراغت نماز مغرب لنگر کی تقسیم پر حاضر ہو جاتے تھے۔

اسی زمانے میں آپؒ نے قرآن کریم حفظ کیا اور یہیں سے آپکی شاعری کی ابتداء ہوئی۔ آپؒ نے فارسی اور پراکرت میں اشعار کہے ہیں۔اسی زمانے میں سلطان المشائخ حضرت محبوب الٰہی آپؒ کے ہم عصر تھے۔آپؒ میں اور حضرت الہی میں اچھا ربط و ضبط تھا۔آپؒ محفل سماع میں بھی شرکت کرتے تھے لیکن تقسیم لنگر کے فریضہ سے کبھی غافل نہ ہوتے تھے۔ آپؒ کا یہ حال جب  آپکے پیر روشن ضمیر پر روشن ہوا تو کمال مہربانی سے حال دریافت فرمایا۔ اقتباس الانوار میں درج ہے کہ ایک روز شیخ الشیوخ حضرت بابا گنج شکر نے اپنے نور ولایت سے معلوم کرکے پوچھا کہ اے بابا علاؤالدین تم کھانا تقسیم کرتے ہو تم خود بھی کچھ کھاتے ہو یا نہیں؟ آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ بندے کو حضرت پیر دستگیرؒ کی اجازت کے بغیر کیا  قدرت و مجال تھی جو ایک دانہ بھی اپنے منھ میں ڈالتا۔

آپؒ کا یہ جواب سن کر پیر روشن ضمیر بابا حضرت گنج شکر آپؒ کے اس کمال صبر سے نہایت ہی خوش ہوئے۔اور اس درجہ انکے دل میں جوش پیدا ہوا کہ ہر موئے تن سے تجلیات انوار الہی ظاہر ہونے لگے۔ حضرت قدس سرہ کو اپنے گلے سے لگا کر نعمت ہائے باطنی سے مالامال کر دیا۔اور فرط مسرت میں فرمایا کہ ہمارا علی احمد صابر ہے”پس اسی دن سے آپؒ کا خطاب صابر قرار پایا۔

ازدواجی زندگی:☜

حضرت  علاؤالدین مخدوم علی احمد صابرؒ کی والدہ ماجدہ جب ہرات سے واپس اجودھن (پاک پٹن) تشریف لے گئیں تو انہوں نے سوچا اب بیٹا بڑا ہو گیا ہے کیوں نہ اسکی شادی کر دی جائے۔ والدہ ماجدہ کی سوچ اگر چہ مثبت تھی لیکن  صابر مخدومؒ  کی روحانی مجاہدات اور کیفیات اس بات کی متقاضٰی تھی کہ انکی شادی کی جائے مگر والدہ محترمہ نے آپؒ کی شادی کے متعلق بابا صاحب سے عرض کیا کہ میری خواہش ہے کہ آپؒ اسے اپنا بیٹا بنا لیں اور اپنی صاحب زادی کے ساتھ میرے بیٹے کا نکاح کر دیں۔ حضرت بابا گنج شکر کے پانچ صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں تھیں۔ والدہ نے جب بابا صاحب سے جب آپؒ کی شادی کی لیے انکی بیٹی کا رشتہ مانگا تو باباصاحب نے فرمایا کہ بہن میری طرف سے ہاں ہے۔ لیکن علی احمد صابر شادی کے قابل نہیں ہے۔وہ ہر وقت حالت جذب میں رہتا ہے۔ ایسی حالت میں شادی کرنا بیکار ہے۔

باباصاحبؒ سے ہمشیرہ نے کہا کہ  بھائی وہ جیسا بھی ہے یتیم ہے۔بن باپ ہے اور میں بیوہ ہوں اس لئے آپ اپنی صاحبزادی دینے سے پہلوتہی کر رہے ہیں۔ یہ سن کر حضرت باباصاحبؒ نے فرمایا نہیں نہیں بہن یہ بات نہیں ہے۔مجھے تمہاری دلشکنی پسند نہیں ہے تم جب چاہو شادی کر لو۔

نکاح اور زوجہ محترمہ کا وصال:☜

حضرت کی والدہ کے اصرار پر مؤرخہ 21 شوال بروز بدھ بعد نماز عصر 613ھ کو باباصاحبؒ کی صاحبزادی سے نکاح ہو گیا۔ رات ہوئی تو آپ کی والدہ محترمہ نے آپؒ کے حجرے  میں چراغ روشن کرکے دلہن کو وہاں پہنچا دیا۔دلہن بہ پاس ادب  دست بستہ کھڑی رہی۔تہجد کے وقت جب آپؒ نے مراقبہ سے سر اھایا تو سامنے عورت کھڑی ہوئی۔آپؒ نے عرض کیا تم کون ہو؟ کیوں کھڑی ہو؟ دلہن نے جواب دیا کہ میں آپکی زوجہ ہوں خدمت گزاری کے لئے حاضر ہوں۔حضرت مخدومؒ نے فرمایا کہ خدا وحدہ لاشریک ہے اسکی کوئی بیوی نہیں میں اسکا بندہ ہوں۔اور اسکے جمال میں گم ہوں یہ فرماکر آپؒ پھر مراقبہ میں مشغول ہو گئے۔آپؒ کے ان الفاظ پر جہاں آپؒ تھے وہاں جلالی انوار الہی کا نزول ہوا۔ جنہیں آپکی دلہن برداشت نہ کر سکیں اور بے ہوش ہو کر گر گئیں۔اور کچھ دیر بعد قضاء الہی سے خدا کو پیاری ہو گئیں۔

اس واقعہ کے گزر جانے کے بعد حضرت بابا گنج شکرؒ نے حضرت مخدوم علی احمد صابر سرہؒ کو اپنے سامنے ایک مجلس میں بیٹھا کر جن میں بڑے بڑے بزرگ وقت شامل تھے، عام حضرات کے سامنے مہر ولایت کا انکشاف بموجب حکم باطن فرمایا۔ یکے بعد دیگرے سب حضرات نے مہر ولایت کو دیکھ کر یہی فرمایا ھذا ولی اللہ” کہہ کر باباصاحبؒ کو مبارک باد دی۔اسکے بعد باباصاحبؒ نے امامت و ارشادات خادان چشتیہ عالیہ سے مشرف فرما کر اپنی کلاہ حضرت صابرؒ کے سر اقدس پر رکھ دی اور اس پر سبز امامہ پہنا دیا۔اور سند خلافت جس میں ولایت شہر کلیئر مع ہندوستان کا حوالہ تھا، سب حاضرین محفل کو سناکر عطاء فرمائی۔

اس روز مطلع غبار آلود تھا۔آفتاب غروب ہو چکا تھا اور رات کی تاریکی پھیلنی شروع ہو چکی تھی۔کچھ پڑھا لکھا نہیں جا سکتا تھا۔قطب صاحب نے فرمایا کہ اس وقت موقع نہیں ہے اب آرام فرمائیے۔صبح مہر اور دستخط کر دیے جایئنگے۔حضرت مخدوم نے اسی وقت مہر اور دستخط پر اصرار کیا تو چراغ طلب کیا گیا۔اس روز ہوا تیز چل رہی تھی، چراغ بجھ گیا۔حضرت مخدوم صاحب نے اپنی انگلی پر کچھ پڑھ کر دم کیا وہ مثل شمع روشن ہو گئی اور فرمایا کہ اب بھی چراغ بجھ جائیگا۔

حضرت شیخ صاحب نے آپؒ کی اس حرکت پر بہت کچھ غور فرما کر عرض کیا کہ اب بھی روشنی کم ہے۔صابر صاحب نے جھلا کر پھر انگلی پر دم کیا وہ پھر مثل شمع روشن ہو گئی۔ شیخ صاحب نے خیال کیا کہ جب انکے غصہ اور تنگ مزاجی کا یہ حال ہے تو دہلی کی قطبیت کیا کرینگے؟ دو چار دن ہی میں جلا کر خاک کر دینگے اور دہلی بلاوجہ تباہ و برباد ہو جائیگی اور صابر صاحب سے عرض کیا کہ بھائی تم تو بہت جوشیلی طبیعت والے آدمی ہو۔دہلی والے تمہارا غصہ اور جلال کی تاب نہ لا سکیں گے۔تم ذرا سی ہی بات پر اسکو جلا کر تباہ و برباد کر دوگے۔ اس لئے میں نہیں مناسب سمجھتا کہ تمہیں دہلی میں رکھا جائے۔یہ فرماکر سند قطبیت کو چاک کر ڈالا۔ حضرت صابر صاحب جو عین مظہر جلال تھے۔بھلا اس حرکت کی تاب کہاں لا سکتے تھے۔غصہ میں آگ ہو گئے اور جلال میں آکر فرمایا کہ تم نے میری سند چاک کر ڈالی میں نے بھی تمہارا سلسلہ قطبیت قطع کر دیا۔ یہاں یہ ہو رہا تھا ادھر باباصاحب قدس سرہ اپنی مجلس میں ارشاد فرما رہے تھے کہ آج دین کے دو بڑے پہلوانوں میں لڑائی ہو رہی ہے خدا خیر کرے۔

حضرت مخدومؒ کی کلیئر کو روانگی:☜

حضرت باباصاحبؒ نے جب دیکھا کہ بحالات موجودہ مخدومؒ کا دہلی جانا دشوار ہے۔ تو بابا صاحبؒ نے آپؒ کو کلیئر شریف کا شاہ ولایت مقرر فرما کر اپنے دست مبارک سے ایک حکم نامہ تحریر فرمایا۔ اس وقت حضرت مخدوم صاحب کی عمر 55 سال تھی۔ کلیئر میں اسلام پھیلے 48 سال گزر چکے تھے۔حضرت مخدوم صاحب کو بابا صاحبؒ نے 15 ذوالحجہ 652 ھ علیھم اللہ ابدال کی معیت میں جانب کلیئر روانہ کیا۔

حضرت مخدوم پاکؒ کی وصیت:☜

حضرت خواجہ شمس الدین کو آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ علاؤالدین خلجی عرصہ سے قلعہ اسیر پر لڑ رہا ہے اور معلوم ہوا کہ جب تک تم اس کے لئے جا کر دعا نہیں کروگے۔فتح نہیں ہو سکتا۔اس لئے تمہارا وہاں جانا ضروری ہے۔اور ادھر معشوق حقیقی میں میری بھی طلبی ہے۔بس تمہارے جانے کے بعد اس عالم سے میرا بھی کوچ ہے۔خواجہ شمس الدین نے عرض کیا کہ مجھے کیونکر معلوم ہوگا۔ فرمایا جس دن قلعہ فتح ہوگا اس دن میری بھی رحلت ہوگی۔عرض کیا کہ قلعہ فتح ہونے کی کیا صورت ہوگی؟؟؟ فرمایا کہ ایک ولی تیرے لشکر میں موجودگی کی اطلاع اور نشاندہی بادشاہ کو کریگا۔اور بادشاہ تیرے پاس اس نشا ندہی سے پہنچے گا اور تیری مدد سے قلعہ فتح ہوگا۔

وصال حضرت مخدوم پاکؒ :☜

ادھر لشکر فتح کے جوش و خروش میں قلعہ میں داخل ہو رہا تھا۔ادھر خواجہ شمس الدین ترک شمس الارض  کو وصیت مخدومؒ یاد آئی کہ کل بموجب ارشاد عالی بروز فتح قلعہ یعنی 13 ربیع الاول 690ھ کو حضور دوجہاں شیخ مخدوم علاؤالدین علی احمد صابر ختم الارواح سلطان اولیاءؒ نے رحلت فرمائی۔

حقیقت فناء و بقاء:☜

حضرت خواجہ شمس الدین نے ایک مرتبہ حضرت مخدوم علی احمدؒ سے عرض کیا تھا کہ فنا اور بقاء کا کیا راز ہے؟؟ حضرت مخدومؒ نے فرمایا تھا کہ کسی وقت ظاہر کر دیا جائیگا۔حضرت شیخ شمس الدین کو وہ سوال یاد آ گیا مگر یہ ایک  واقعہ تھا جسکو مدتیں گزری تو حضرت خواجہ صاحب کے ذہن سے خارج ہو چکا تھا۔ مگر آج جس وقت سب لوگ قبر کی چشمہ بندی میں مصروف تھے۔تو حضرت شمس الدین کے دل میں یہ بات پیدا ہو گئی کہ امام صاحب سے ملاقات کرکے ان سے حالات نام ونشان دریافت کر لینا چاہیئے۔ورنہ یہ بات پرداۂ راز میں جائیگی کہ نماز جنازہ کس نے پڑھائی ؟؟؟

چناچہ آپ شمس الدین امام صاحب کی جانب متوجہ ہوئے تو امام صاحب اپنے گھوڑے کی باگ پکڑ کر سوار ہو چکے تھے۔اور خوجہ صاحب کو دیکھکر گھوڑا مغرب کی جانب بڑھا دیا۔حضرت خواجہ صاحب گھوڑے کے پیچھے دوڑے اور کچھ دور چل کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔اور فرمایا کہ حضرت اپنا نام و نشان تو بتایئں تاکہ بات پرداۂ راز میں نہ رہے۔یہ سن کر سوار نے اپنے چہرے سے نقاب اٹھا دی اور فرمایا کہ فقیر کے جنازے کی نماز فقیر ہی نے پڑھائی ہے۔چہرۂ پر نور دیکھتے ہی حیرت میں آگئے تو حضور نے قبر کی جانب اشارہ کرکے فرمایا کہ شمس الدین حیرت کی کوئی بات نہیں ہے وہ فناء ہے یہ بقاء ہے۔

الحمد اللہ کہ بمؤجب وعدہ کے  آج یہ مسلہ بھی تم پر بچشم خود دکھلا کر سمجھا دیا۔ایک بار مجھ پر ائفاء وعدہ کا جو باقی تھا۔ اس سے بھی آج سبکدوش ہو گیا۔یہ سنتے ہی خواجہ شمس الدین ترک پانی پتیؒ بے ہوش ہو کر گر پڑے اور وہ صاحب سوار جدھر سے تشریف لاۓ تھے ادھر کو روانہ ہو گئے۔

مزار اقدس :☜

حضرت مخدوم علاؤالدین علی احمد صابر کلیئریؒ مزار اقدس نہر گنگ کی غربی جانب کلیئر شریف میں مرجع خلائق ہے۔اور کلیئر شریف کی عظمت بھی آپؒ کے مزار اقدس کی وجہ سے ہے۔اگر چہ آپ کےؒ وصال کو صدیاں گزر چکی ہیں اور اس طرح طویل عرصہ کے دوران آپؒ کے مزار اقدس کو زمانے کے مختلف نشیب و فراز سے واسطہ رہا۔مگر آپؒ کے تصرف و کمال کی وجہ سے زمانے کے دستبرد سے محفوظ رہا ۔۔۔۔الحمد اللہ۔