Urdu Language History Course

اردو زبان کا مختصر تعارف

1۔ معنی

اُردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر‘ فوج کے ہیں۔

2۔ تعریف

اُردو جو کہ آج برصغیر پاک و ہند کے علاقے میں بولی جانے والی زبان ہے‘ اپنے علاقے کی مختلف علاقائی اور ہمسائیہ ملکوں کی زبانوں کا مجموعہ کہلائی جاتی ہے۔

3۔ ابتداء

دہلی سلطنت کو اُردو کا بانی کہا جاتا ہے۔ مسلمان فاتحین کے دور میں جب سلطنت برصغیر کے طول و عرض میں پھیلی، تو مختلف ریاستیں سلطنت میں شامل کی گئیں۔ ہر سلطنت کی اپنی الگ زبان تھی جس پر ایک مشترکہ زبان کی بنیاد ڈالنے کا کام شروع کیا گیا۔

4۔ طریقہ

اُردو نستعلیق (ریختہ) رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور زیادہ تر عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے اور چھتیس (36) حروف تہجی پر مشتمل ہے۔ جو زیادہ تر فارسی و عربی سے ہی مستعار لئے گئے ہیں جو کہ زبان اُردوئے معلیٰ ہیں۔

5۔بنیاد

آسان الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُردو کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اُردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جس کا نام ”اُردو“ ہے۔ اُردو کا آبائی علاقہ دکن‘ میرٹھ اور لکھنؤ کو کہا جاتا ہے جبکہ دہلی سے سرکاری سرپرستی کی جاتی تھی۔ برصغیر کی ایک بہت اہم اوربڑی زبان ہونے کے باوجود اُردو کی تاریخ پر گہرے پردے پڑے ہوئے ہیں جن کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔

6۔ ساخت

ساخت کے اعتبار سے اُردو ایک مخلوط زبان ہے جو دائیں سے بائیں جانب فارسی عربی کی طرح لکھی جاتی ہے۔ اُردو فارسی رسم الخط کی تشریح ہے جو کہ خود عربی کی تشریح ہے۔

7۔ لہجہ

اُردو کے چند ایک لہجے ہی معیاری مانے جاتے ہیں‘ جبکہ ہر علاقے میں بولی جانے والی اُردو دوسرے علاقے کی اُردوسے لہجے اور الفاظ کی بنیاد پر مختلف بھی ہے۔ معیاری لہجے میں سے سب سے اہم دکن (دکنی) اور کھڑی بولی (دہلی) کے لہجے ہیں۔ باقی سب لہجے ان ہی دولہجوں کی تشریح کہلائے جاتےہے۔
مثال کے طور پر جب دکنی لہجہ بھارتی ریاست اڑیسہ میں گیا تو مقامی زبان اوڑیا اور بنگالی , بہاری سے مل کر اس لہجے سے بالکل ہی مختلف ہوگیا۔ جب دکنی لہجہ پاکستان میں کراچی میں آیا تو مقامی سندھی‘ بلوچی اور پنجابی سے متاثر ہوکر بولا جانے لگا۔ زیادہ آسان الفاظ یا وسیع معنوں میں کہا جائے تو اُردو کے دو معیاری لہجے دکنی اور کھڑی بولی ہیں, باقی سب علاقائی لہجے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بنگال میں اُردو بولنے والا کشمیر یا پشاور میں اردو بولنے والے کی بات سمجھ ہی نہ پائے۔

8۔ اُردو بولنے والے

اُردو بولنے والے جن کی مادری زبان اردو ہو کی مجموعی تعداد تقریباً چھ سے سات کروڑ تک ہے۔ جس میں سے پانچ کروڑ بھارت میں جو کہ بھارت کی آبادی کا چھ فیصد اور تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ پاکستان میں جو کہ پاکستان کی آبادی کا آٹھ فیصد اور باقی تعداد بنگلہ دیش میں جو بہاری کہلاتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد سعوی عرب ‘ متحدہ عرب امارات سمیت مشرق وسطیٰ‘ انگلینڈ‘ امریکہ‘ یورپ اور دنیا کے باقی ممالک میں بھی ہے جو کہ بنیادی طور پر برصغیر سے ہی وہاں جاکر آباد ہوئی ہے۔ اس میں تیس سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین میں شامل ہیں اور پچھلے تیس سال سے پاکستان میں رہ رہے ہیں اور اب اُردو کو ہی رابطہ کی زبان کے طورپر استعمال کرتے ہیں۔
آج اُردو زبان پاکستان اور بھارت کی چھ ریاستوں اتر پردیش‘ بہار‘ آندھرا پردیش‘ جموں و کشمیر اور دہلی کی سرکاری زبان ہے۔

9۔ اُردو پاکستان میں

اُردو زبان کو پورے پاکستان میں رابطہ زبان کا درجہ حاصل ہے باوجود اس کے کہ بانوے فیصد پاکستانیوں کی مادری زبان اردو کے علاوہ کوئی اور ہے۔ اردو پورے پاکستان میں بولی‘ سمجھی اور لکھی پڑھی جاتی ہے۔ تقریباً ہر سکول اور کالج میں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ اردو میڈیم سکول اور مدرسوں میں اردو لازمی اور ذریعہ تعلیم کی بنیادی زبان ہے۔

10۔ اُردو ادب

اُردو زبان کو پروان چڑھانے میں سب سے بڑا ہاتھ اگر ادیبوں اور شاعروں کا کہا جائے تو یہ بات غلط نہ ہوگی۔ گذشتہ دو سو سے تین سو سال میں جب سے شعراءاور ادیبوں نے اردو زبان کو اپنا اظہار خیال بنایا تو یہی بنیادی وجہ تھی جو آج اردو کو دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں ایک اہم مقام دلاتی ہے۔
اردو ادب میں نثر اور شعر دو بنیادی ذریعہ اظہار ہیں اور پھر شعر کے اندر مزید غزل‘ نظم‘ منقبت‘ مدح‘ سلام‘ سوس‘ قصیدہ‘ مرثیہ‘ نوحہ اور حمد و نعت مشہور سلسلے ہیں۔

New Section