اردو کی لسانی انفرادیت

0

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اردو زبان بحیثیت زبان اپنی بہت سی ہمعصر زبانوں سے متعدد ایک شناخت اور انفرادیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی کہیں ذکر آچکا ہے، اردو دنیا کی وہ واحد زبان ہے جس کی موجودہ شکل مختلف زبانوں سے اور اس کے الفاظ و محاورات سے اس طرح قائم ہے گویا وہ خود اسی کے اپنے عناصر ترکیبی ہیں۔

عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو یا پشتو، ہندی ہو یا سنسکرت، پرتگالی ہو یا تیلگو، انگریزی ہو یا فرانسیسی اور ان کے الفاظ، محاورات اور تراکیب، صرفی و نحوی قواعد وغیرہ کو اپنے اندر اس طرح سمو لیا ہے، بلکہ پیوست کر لیا ہے، وہ خود اپنی اصل میں بھی اس قدر معنی دارانہ اور تہہ دارانہ ہونگے۔

لسانیاتی تاریخ کی روشنی میں اردو زبان کا عمل کوئی نیا عمل نہیں تاہم بعض انفرادیت کی وجہ سے بے مثال ضرور ہے۔ چند لسانی انفرادیت کا ذکر بیان کیا جاتا ہے۔

  • اردو میں مصمت آوازیں جلی التلفظ ہیں جبکہ بعض دوسری زبانوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی، اسی طرح اور زبانوں کے مقابلہ میں پانچ ہاییے زیادہ ہیں اس کا وجود اردو کی صوتی خصوصیت ہے۔
  • اریچیہ اور پراچیہ زبانیں ‘س’ کے تلفظ پر قادر نہیں جبکہ انہی علاقوں میں اردو اس خامی سے پاک ہے۔ پراکرت کی تقلید میں مدھیہ پردیش کی اردو نے “ر” اور “ل” میں امتیاز رکھا۔ شوکت سبزواری لکھتے ہیں:
  • “مشرقی زبانوں میں “ل” – ‘ر’ کا قائم مقام ہے چناچہ بہاری بولیوں میں گالی کو گاری کہا جاتا ہے اور پھل کو پھر، ‘بدلی’ اردو ہے اور بدری یا بدریا اودھی”
  • اردو میں قدیم “و” قریب قریب ہر جگہ بدل گیا ہے اس کے برعکس اردو نے پنجابی کی طرف “ب” کو کبھی ‘و’ سے نہیں بدلا۔
  • عربی وفارسی آوازیں اور ان کا تلفظ اور ہم آہنگ صوتی الفاظ میں فرق و امتیاز اردو کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔ یہ صفت بنگلہ، ہندی یا پنجابی میں نہیں پائی جاتی۔ مثلاً ‘ج’- ‘ز’- ‘ض’ اور ‘ظ’ وغیرہ کا تلفظ۔
  • اردو مصوتے بھی اردو زبانوں کے مقابلے میں سہل اور سادہ ہیں۔ ان کی تین طویل صوتیں(ا-و-ی) اور چار علتیں ہیں جن سے مراٹھی اور بنگلہ زبان محروم ہیں۔ اسی طرح بنگلہ، سندھی، اودھی، آسامی، ہندی وغیرہ کے اسماء و صفات متحرک الاخر ہیں اردو کا کوئی کلمہ ایسا نہیں جس کے آخر میں کوئی حرکت ہو اس کے اسماء، صفات، افعال یا صحیح الاخر ہیں۔

اس کے علاوہ بھی اردو کی متعدد لسانی خصوصیت و انفرادیت ہے، یہاں کچھ ہی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔