دکنی اردو کی لسانی خصوصیات

0

دکنی اردو کا ادبی سرمایہ یقیناً بے حد قابل قدر اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن اس کی لسانی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دکنی اردو کی لسانی خصوصیات کچھ تو شمالی ہند کی بولیوں کی دین ہے اور کچھ مقامی لسانی اثرات کا نتیجہ ہے۔

دکنی زبان پر شمالی زبان کے ساتھ ساتھ مراٹھی و تیلگو اور دوسری علاقائی بولیوں کے بھی اثرات پڑے۔ اس طرح دکنی زبان شمالی ہند کی زبان کا عکس چربہ ہونے کے بجائے خود اپنی بھی کچھ انفرادی خصوصیات رکھتی ہے۔ اس زبان میں گجراتی، پنجابی اور مراٹھی زبان کے الفاظ کثرت سے ملتے ہیں۔ مثلاً ہور، سوں، بات، تمن، ہمن، منج اور کنے وغیرہ جیسے الفاظ انہی زبانوں سے دکنی زبان میں داخل ہوئے ہیں۔ ذیل میں دکنی اردو کی بعض اہم خصوصیات بیان کی جاتی ہیں۔

  • مذکر و مونث دونوں کی جمع پنجابی کی آں کا اضافہ کر کے بنائی جاتی ہے۔ جیسے باتاں، کتاباں وغیرہ۔
  • فاعل اگر جمع مونث ہو تو فعل میں آں کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ جیسے عورتیں جاتیاں ہیں۔
  • مونث کی صورت میں اضافت کی بھی جمع آتی ہے۔ جیسے ‘دل کے فائدے کیاں بہت باتاں نہیں۔
  • بہت سے الفاظ کو جیسے بولتے تھے ویسے لکھتے بھی تھے۔ جیسے “نفع کو نفا، منع کو منا” وغیرہ۔
  • دکنی اردو میں ایسے بھی الفاظ ملتے ہیں جن میں آخری “ہ” حذف کر دی جاتی ہے۔ مثلاً مج (مجھ)، کچ (کچھ)، آنک (آنکھ) وغیرہ۔
  • دکنی اردو میں ایسے بھی الفاظ پائے جاتے ہیں جن میں درمیانی “ہ” حذف کردی گئی۔ مثلاً نئیں (نہیں)، وئی (وہی)، رئی (رہی) وغیرہ۔
  • آوازوں کا مشدد ہونا بھی دکنی اردو کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ مثلاً ہوا (ہوا)، خلق(خلق)، چنا(چونا) وغیرہ۔
  • دکن میں “ق” کو عام طور سے “خ” بولتے ہیں۔

دکنی زبان کی یہ نحوی، صرفی اور صوتی خصوصیات دراصل دکن کی مقامی بولیوں کی دین تھیں۔ آہستہ آہستہ اس زبان نے آگے چل کر ان میں سے بہت سی خصوصیات ترک کر دیں اور آج کے موجودہ روپ میں ہمارے سامنے آئی۔

Mock Test 7

دکنی اردو کی لسانی خصوصیات 1