اردو ساخت کے بنیادی عناصر

0

کسی بھی زبان کی شناخت اس کی ہیئت، خصائص اور انفرادیت سے ہوتی ہے جو اس کو دوسری زبانوں سے ممتاز و منفرد کرتے ہیں۔اس کے امتیازی اوصاف و خصائص اور خط و خال ہی کو اس کی ساخت قرار دیا جاتا ہے۔ ہر زبان کی ایک سیرت ہوتی ہے اس کا ایک فطری اور سادہ رجحان ہوتا ہے۔ اسی سیرت و فطرت زبان کو لسانی محققوں نے زبان کی ساخت قرار دیا ہے۔ اردو زبان بھی انہی عناصر سے عبارت ہو کر اپنی ایک ساخت و ہیئت رکھتی ہے۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری لکھتے ہیں:

“اردو زبان کی ساخت کے سلسلے میں یہ عمل خاص طور سے پیش نظر رہنا چاہیے کہ اردو ہند آریائی خاندان کی زبان ہے، اس کا سلسلہ نسب چار واسطوں سے قدیم ہند آریائی تک پہنچتا ہے۔اس خاندان کی دوسری جدید زبانوں یعنی پنجابی، سندھی، راجستھانی، گجراتی، مراٹھی کی طرف بنیادی الفاظ مادے سابقے لاحقے اردو کو اپنی اصل ہند آریائی سے ترکے میں ملے۔ اردو کا تمام تر بنیادی سرمایہ ہند آریائی ہے، وضع الفاظ اور اخذ و اشتقاق کے قاعدے ہند آریائی ہیں۔ بحثیں اور گردانیں ہند آریائی ہیں، اسماء کی تعریف اور ان کے اعرابی لاحقے ہند آریائی ہیں۔ اس خصوصیت میں اردو اپنی ہمسر اور ہم عصر بولیوں کی برابر شریک ہے۔

اس کے علاوہ یہ اس بات میں بھی وہ ان کی شریک ہے کہ اس کا نحوی تانا بانا یعنی الفاظ کی ترتیب غیر آریائی ہے جو نتیجہ ہے دراوڑوں اور کول زبانوں سے تاثر کا، اردو کا صرفی حصہ آریائی ہے اور نحوی حصہ دراوڑ یا بامنڈا، اور اپنی فطرت سے بڑی ہی ملنسار راہلی، گہلی اور ہر زبان سے گھل مل کر شیر و شکر ہو جانے والی زبان ہے۔ قدیم پراکرت اور سنسکرت سے تو اس کا تانا ہے ہی، فارسی، عربی، پشتو، پرتگالی، کول، انگریزی اور دراوڑ زبانوں سے بھی اس کا ربط رہا ہے۔ ان سب سے اس نے کچھ نہ کچھ لیا اور چراغ سے چراغ جلا رہا ہے”

ڈاکٹر سبزواری نے اردو کی ساخت و ہیئت پر جو روشنی ڈالی ہے اس سے بڑھ کر اور واضح طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا تاہم چند اور عناصر کا ذکر ضروری ہے۔ مثلاً اردو کے مصمت(Consonants) واضح اور نمایاں ہیں اور اس قدر نمایاں ہیں کہ ان میں کسی قسم کا ابہام یا اشتباہ نہیں پایا جاتا۔

اسی طرح فارسی اور عربی آوازوں کو ڈاکٹر چیٹرجی نے خالص اردو کی آوازیں بتایا ہے۔ ہندی ان سے محروم ہے۔ یہ اردو کی ایک خاص خوبی ہے کہ وہ دنیا کی مختلف زبانوں سے متمتع ہوئی جس کی وجہ سے اردو کی ایک ایسی ساخت قائم ہوگئی جس کی مثال کسی اور زبان کے ذریعے پیش کرنا ایک مشکل ترین کام ہے۔

اردو کی ساخت کے اور بھی متعدد عناصر ہیں۔ مثلاً اردو ایک مکمل تحلیلی زبان ہے جس میں صرف ایک ہی فعل مضارع ہے اور اس کی غیر فاعلی اعرابی حالت، اسی طرح فعل مضارع جس کے صرف چار صیغے ہیں مثلاً کریں، کرے، کرو، کروں۔ اس فعل مضارع پر گا لگا کر فعل مستقبل بناتے ہیں۔ حالانکہ مغربی ہندی کی اور بولیوں میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی۔

اردو کی ساخت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا رسم الخط، اس کا اندازِ تحریر اور اس کی نشوونما کے مزاج و ماحول میں بڑا اختلاف ہے اور عربی، فارسی، ترکی، پشتو، پنجابی، ہندی، سندھی حتی کہ انگریزی اور بنگالی زبانوں سے استفادہ کے باوجود اس کی انفرادیت قائم رہتی ہے۔