محمد حسین آزاد کا نظریہ

0

اردو ہندوستان کی ایک معروف زبان ہے جو اپنی گنگا جمنی تہذیب اور دلکشی کے سبب سے ہر دل عزیز ہے۔ یہ زبان قدیم نہیں ہے بلکہ جدید زبانوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔تاہم اس کے آغاز و ارتقا کو لے کر کافی الجھن ہے۔ مختلف اہل علم حضرات نے اس کے آغاز کے حوالے سے بات کی ہے اور اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔

اردو کے آغاز و ارتقا اور اس کی تاریخ پر غور کرتے وقت ہمارے ذہن میں تین سوال پیدا ہوتے ہیں یعنی اردو کب پیدا ہوئی؟ اردو کہاں پیدا ہوئی؟ اور اردو کیسے پیدا ہوئی؟ اردو کب، کہاں اور کیسے پیدا ہوئی کا جواب مختلف اہل قلم نے مختلف انداز سے دینے کی کوشش کی ہے۔ انہی اہل قلم میں محمد حسین آزاد کے نظریے کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔

“آب حیات” کے مصنف محمد حسین آزاد کا نظریہ کہ “اردو زبان برج بھاشا سے نکلی” بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس نظریے پر عرصہ تک گفتگو ہوتی رہی۔ اس نظریے میں تھوڑی بہت لسانی حقیقت بھی پوشیدہ ہے۔ محمد حسین آزاد نے “آب حیات” میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ۔

“اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے”

آزاد کو جس چیز نے یہ سوچنے پر مجبور کیا وہ شاید برج کے شہر آگرہ کی تاریخی اہمیت ہے جسے اکبر اعظم(1556-1605ء) اور جہانگیر نے پایا تخت مقرر کیا تھا اور شاہ جہان(1627-1657ء) نے اپنے عہد کا بڑا حصہ گزارا تھا۔آگرہ کو مرکزیت حاصل ہونے کی وجہ سے یہاں کی زبان برج کو بھی اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ اکبر کے نو رتن میں سے آٹھ رتن برج کے علاقہ سے تعلق رکھتے تھے۔تان سین کی وجہ سے سنگیت کا بڑا بول بالا رہا۔‌ برج تو سنگیت ہی کی زبان تھی۔علمی حلقوں میں آزاد کے اس نظریے کا بڑا چرچا رہا۔ بعض لوگوں نے تو اردو کو برج کی بیٹی سمجھ لیا۔ ان میں سے ایک شمس اللہ قادری بھی ہیں جن کی تحریروں میں اس نظریے کی گونج سنائی دیتی ہے۔

اردو کے برج بھاشا سے نکلنے کے اس نظریے کی تنقید اور تردید کئی ماہرین لسانیات نے کی۔ محمود شیرانی نے اپنی کتاب “پنجاب میں اردو” میں، پروفیسر مسعود حسین خان نے “مقدمہ تاریخ زبان اردو” میں اور ڈاکٹر شوکت سبزواری نے “داستان زبان اردو” میں پرزور مدلل تردید کی ہے۔تقابلی مطالعہ اور لسانی تجزیہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اردو اور برج کا رشتہ ماں بیٹی کا رشتہ نہیں بلکہ بہنوں کا رشتہ ہے۔ کیونکہ اردو اور برج بھاشا میں بعض اہم لسانیاتی اختلافات پائے جاتے ہیں جن کی یہاں مختصراً نشاندہی کی جاتی ہے۔

  • برج بھاشا میں اسماء افعال اور اسمائے صفات کا اختتام عموماً ‘و / او’ پر ہوتا ہے۔ جیسے اپنو/اپنا، چلیو/چلا، گھوڑو/ گھوڑا وغیرہ۔
  • اردو اور برج کے ضمائر میں خاصا فرق ہے۔ اردو کا تیرا اور تمہارا برج میں تیرو اور تمہارو ہو جاتا ہے۔زمانہ قدیم میں برج میں واحد متکلم(میں) کے لئے “ہوں” مستعمل تھا۔ دکنی میں محمد قلی قطب شاہ نے اپنی ریختیوں میں دو ایک جگہ “ہوں” (بمعنی میں) استعمال کیا ہے۔
  • برج بھاشا میں جمع ‘ن’ کے اضافے سے بنتی ہے جیسے ڈھونڈون، روون۔ اردو میں ‘تا’ کے اضافے سے مضارع بنایا جاتا ہے جبکہ برج بھاشا میں صرف ‘ت’ لگایا جاتا ہے۔ مثلاً کرت، پھرت، آوت، جاوت وغیرہ۔ یہ اور اسی قسم کی کئی اور خصوصیات برج کی ایسی ہیں جن کا اردو سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے وثوق کے ساتھ یہ کہا جاتا ہے کہ اردو برج سے نہیں نکلی۔

Mock Test 4

محمد حسین آزاد کا نظریہ 1