اردو اور اس کی اہم بولیاں

0

اردو ایک ہند آریائی زبان ہے اس کی نمود بارگی کسی خاص وقت یا لمحہ میں نہیں ہوئی۔ وہ اپنی موجودہ شکل اختیار کرنے سے پہلے مختلف مراحل سے گزری ہے۔ آج اس کا شمار دنیا کی چند ترقی یافتہ اور کثرت سے بولی جانے والی زبانوں میں ہوتا ہے۔

اس زبان کا تو ایک معیاری لب و لہجہ ہے، جو ادیبوں اور اہل زبان کے قائم کردہ اصولوں اور معیاروں کی مطابقت کے نتیجے میں شکل پذیر ہوا ہے لیکن مختلف اسباب و عوامل کی وجہ سے زبان کی معیاری لب و لہجہ میں تبدیلیاں ہو جایا کرتی ہیں۔اس تبدیل شدہ لب و لہجہ کی وجہ سے زبان جو شکل اختیار کرتی ہے اسے ہم بولی کا نام دیتے ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹنگا میں بولی کی تعریف اس طرح ملتی ہے کہ:


“کسی ملک، ضلع، برادری، سماجی گروہ، پیشہ ور لوگ یا شخص کے زبان بونے کا ایک مخصوص طریقہ بولی کہلاتا ہے”

اس طرح بولی زبان کی بدلی ہوئی شکل کو ظاہر کرتی ہے اس تعریف کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بولی زبان سے قدرے مختلف چیز ہے۔ دونوں کے درمیان پائے جانے والے رشتہ کو واضح کرتے ہوئے ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں:

“بولی اور زبان کا رشتہ وہی ہوتا ہے جو ایک وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کا ہوتا ہے، یعنی بولی کا تصور زبان کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ امتداد زمانہ کے ساتھ ایک زبان بہت سی بولیوں میں بٹ جاتی ہے”

اس طرح زبان کے فارم میں تبدیلی کے نتیجہ میں بولیاں وجود میں آتی ہیں۔ زبان کے فارم میں تبدیلی کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں لیکن اس میں علاقائی، لسانی، سماجی اور پیشہ وارانہ عناصر زیادہ اہم ہیں۔ زبان اپنے مرکز سے دور ہوتی ہے تو اس پر متعلقہ علاقوں کا اثر پڑتا ہے اور زبان میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ زبان کی بدلی ہوئی شکل کو ‘علاقائی بولی’ کہتے ہیں۔ اسی طرح کبھی کبھی مختلف زبانوں کا اثر قبول کرنے کے نتیجے میں کسی زبان میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے، ایسی شکل کو ‘لسانی بولی’ کہا جاتا ہے۔

سماج مختلف طبقوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ کوئی طبقہ خواندہ ہے تو کوئی ناخواندہ۔ کوئی مذہب اور ترقی یافتہ ہے تو کوئی غیر مذہب اور پسماندہ۔ سماج کا طبقاتی فرق زبان میں کافی اہم تبدیلیاں لاتا ہے۔ زبان کی بدلی ہوئی اس شکل کو ‘سماجی بولی’ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسی طرح پیشوں کی بنیاد پر بھی زبانوں میں فرق پایا جاتا ہے۔ کسی زبان کے اس طرح کے فرق جب بنیادی شکل میں سامنے آتے ہیں تو اس بولی کو زبان کی پیشہ ورانہ بولی کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طرح بولی زبان کی ایک ایسی فطری شکل ہے جو علاقائی، لسانی، سماجی اور پیشہ ورانہ اثرات کا نتیجہ ہوتی ہے۔

ابھی زبان اور بولی سے متعلق جو باتیں سامنے آئی ہیں اس کی روشنی میں اردو زبان اور اس کی بولیوں کا جائزہ لینے پر اردو کی بے شمار بولیاں سامنے آتی ہیں۔ اردو زبان کا حلقہ بہت وسیع ہو چکا ہے۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش کے علاوہ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں بولی جاتی ہے۔

علاقے اور جغرافیائی ماحول کی وجہ سے ہر خطے کی زبان میں فرق پیدا ہو گیا ہے۔ خود غیر منقسم ہندوستان کی صورتحال کا جائزہ لینے پر تقریبا 800 بولیاں ملتی ہیں جو مختلف علاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے تمام بولیوں کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ لسانی، سماجی اور علاقائی اثرات کے نتیجے میں اردو کی ان مختلف بولیوں میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ان بولیوں میں بعض کی لسانی حیثیت ہے اور بعض کی سماجی حیثیت۔

دکنی اردو

عام طور پر جنوبی ہندوستان میں بولی جانے والی اردو کو دکنی اردو کہا جاتا ہے۔ دکنی اردو بولنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ دکنی اردو بولنے والے آندھرا پردیش اور کرناٹک کے مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ متعلقہ علاقوں کی زبانوں کے زیر اثر ان علاقوں کی اردو زبان کے لب و لہجہ میں ایک خاص فرق نمایاں نظر آتا ہے۔

دکنی اردو ایک قدیم اور زبردست بولی ہے۔15 ویں اور 17 ویں صدی کے دوران اسے فروغ ملا اور اسی زمانے میں دکنی کی ایسی گراں قدر تحریریں سامنے آئیں جن کی آج بھی تاریخی لسانی اور ادبی حیثیت مسلم ہے۔ ایک عرصہ تک وہ اردو کے بنیادی دھارے سے کٹ کر ایک الگ زبان کی حیثیت سے ارتقائی مدارج طے کرتی رہی لیکن بعد میں کچھ تاریخی و لسانی وجوہ سے اردو زبان میں ضم ہو گئی۔ آج اس کی حیثیت محض اردو کی ایک بولی کی رہ گئی ہے۔

اس بولی کا ادبی ورثہ کافی دقیق اور جاندار ہے۔ شمالی ہند میں جب اردو بول چال کی زبان تھی اس زمانے میں دکنی اردو میں بہترین ادبی تصانیف ملتی ہیں۔ میراں جی شمس العشاق، امین الدین اعلی سے لےکر وجہی، غواصی، ابن نشاطی تک ہمیں اردو شاعری اور نثر نگاروں کی ایک بڑی تعداد ملتی ہے جنہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے دکنی اردو کے ادبی سرمائے میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔

پنجابی اردو

اردو کی دوسری اہم بولی پنجابی اردو کہی جاتی ہے۔ اسے پنجابی اردو اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ پنجاب کے علاقہ میں بولی جاتی ہے۔ پنجابی بولی والے مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس بولی پر علاقائی اثرات بہت گہرے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی اردو پر پنجابی زبان کے اثرات بڑے گہرے ہیں جس سے اردو کی لسانی ساخت بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔

کلکتیا اردو

بنگال میں بول چال کی اردو پر وہاں کی بنگلہ زبان کے زبردست اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ ان اثرات کی وجہ سے اردو اپنے مختلف علاقوں کے اعتبار سے مختلف علاقائی بولیوں میں منقسم نظر آتی ہے جن میں کلکتیا اردو سب سے زیادہ اہم ہے۔ کلکتیا اردو کلکتہ شہر میں بولی جانے والی اردو کی ایک زبردست سماجی بولی ہے جو شہر کی مسلمان بستیوں میں خاص طور سے رائج ہے۔ اسے کلکتیا اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ صرف کلکتہ شہر تک محدود ہے۔

کشمیری اردو

صوبہ جموں کشمیر میں اردو مختلف لسانی ماحولوں میں بولی جاتی ہے۔ ان میں لداخی، ڈوگری اور کشمیری بولیاں ہیں۔ ان تمام بولیوں کے اثرات اردو زبان نے قبول کئے۔ ہر سطح پر کشمیری کے اثرات اردو زبان میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اردو پر پڑنے والے انہیں مقامی اثرات کی بنا پر ہم وہاں کی اردو کو کشمیری اردو کے نام سے پکارتے ہیں۔

کرخنداری بولی

یہ بولی دہلی کے ان علاقوں میں بولی جاتی ہے جسے کبھی شہجہان آباد کہا جاتا تھا۔ یہ بولی دہلی کے شہری علاقوں میں جامع مسجد کے اطراف کے علاوہ ان محلوں میں بھی بولی جاتی ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی اچھی خاصی ہے۔ بالخصوص مزدور پیشہ باسیوں کی زبان کرخنداری ہے۔ یہ بولی ایک طرف تو سماج کے ایک مخصوص طبقہ سے متعلق ہے تو دوسری طرف اس پر مختلف طرح کے سماجی دباؤ بھی پڑے ہیں۔ اس لیے اسے اردو کی ایک سماجی بولی کہا جاتا ہے۔

یہاں اردو کی سینکڑوں بولیوں میں سے صرف چند اہم بولیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر اصل اردو زبان سے ان بولیوں کا موازنہ کیا جائے تو صوتی، لسانی، صرفی، نحوی اعتبار سے ان بولیوں میں نمایاں فرق نظر آئے گا۔ دراصل یہ فرق مخصوص علاقائی اثرات اور سماجی دباؤ کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے اس پر قابو پانے کی کوشش شاید ہی کامیاب ہوپائے گی۔