اردو زبان کا ابتدائی زمانہ

0

زبان اظہارِ خیال کا بہترین وسیلہ ہوتی ہے۔ ساتھ ہی یہ ایک سماجی اور تہذیبی مظہر بھی ہوتی ہے۔ زبان سماج میں ہی پھلتی پھولتی اور پروان چڑھتی ہے اور تہذیب سے اس کا گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ اردو کی خواہ لسانی تاریخ ہو یا اس کا ادبی پیکر، اس زبان کے مرحلے میں ہمیں ہندوستانی تہذیب کے خدوخال نظر آتے ہیں۔ زبان کی پیدائش انسانی یا سماجی ضرورت کا نتیجہ ہوتی ہے۔

تاریخی اور تہذیبی اعتبار سے اردو سرزمین ہند کی اس قدیم زبان کا تسلسل ہے جسے آریاؤں کی ابتدائی تہذیب نے جنم دیا تھا اور جسے سنسکرت کہتے ہیں۔ سنسکرت ایک قدیم ہندوستانی زبان تھی اور اردو ایک جدید ہندوستانی زبان ہے۔ دونوں کا تعلق ہند آریائی نسل سے ہے۔ دونوں کا تاریخی ارتقاء شمالی ہندوستان کے سماجی اور تہذیبی تناظر میں ہوا۔

1500ق م میں جب آریائی نسل کے لوگ ہندوستان کے شمال مغربی خطے میں وارد ہوئے تو یہاں ایک نئی تہذیب پروان چڑھی۔ جس نے جلد ہی سنسکرت جیسی صاف ستھری زبان کو جنم دیا۔ پھر ڈھائی ہزار سال کی تہذیبی کروٹوں اور لسانی تبدیلیوں کے بعد اس خطۂ ارض میں اردو پیدا ہوئی۔

سنسکرت کے بعد پراکرتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں یہ ہند آریائی کا وسطی عہد ہے جو ڈیڑھ ہزار سال(500 ق۔م تا 1000ء) کے عرصے پر محیط ہے۔ اس کے بعد سنسکرت متروک قرار دی جاتی ہے اور اس کی جگہ پراکرتوں نے لے لی۔ پراکرت ایک سادہ آسان اور فطری زبان تھی جسے بے حد مقبولیت حاصل تھی اور اس کے بعد اپ بھرنش عوام کی زبان بن گئی۔

ہند آریائی کا عہد جدید 1000ء سے شروع ہوتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب اپ بھرنشوں کا وجود ختم ہونے لگتا ہے اور ان کی جگہ شمالی ہندستان میں کئی بولیاں سر اٹھانے لگتی ہیں اور نت نئی زبانیں وجود میں آتی ہیں۔ تاریخ کے اس موڑ پر شمالی ہندوستان میں مسلمان وارد ہوتے ہیں جو یہاں کی بولیوں کو “ہندی” کے نام سے موسوم کرتے ہیں جو بعد میں “مغربی ہندی” کہلاتی ہے۔ مغربی ہندی کوئی مخصوص زبان کا نام نہیں بلکہ ان پانچ بولیوں کے مجموعے کا نام ہے جو براہ راست شورسینی اپ بھرنش سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا نام کھڑی بولی، ہریانوی، برج بھاشا، بندیلی اور قنوجی ہے۔

اردو جو ایک جدید ہند آریائی زبان ہے جو براہِ راست کھڑی بولی سے تعلق رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ کھڑی بولی کا ہی نکھرا ہوا روپ ہے اور اسی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ پروفیسر گیان چند جین کہتے ہیں “اردو کی اصل کھڑی بولی اور صرف کھڑی بولی ہے۔ کھڑی بولی دہلی اور مغربی یوپی کی بولی ہے”

1001ء میں محمود غزنوی نے ہندوستان پر حملہ کیا اور سندھ کو اپنا پایاتخت بنایا۔ پھر 1206ء میں شہاب الدین غوری نے قطب الد ین ایبک کی مدد سے دہلی کو فتح کیا۔ 1525ء میں بابر اپنے پانچویں حملے کے بعد سندھ کے راستے ہندوستان میں داخل ہوا۔ 1526ء میں پانی پت کی پہلی جنگ میں بابر نے سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر آگرہ کے شاہی محل پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح مغلیہ دور کا آغاز ہوتا ہے اور یہ سلسلہ بہادر شاہ ظفر تک چلتا رہتا ہے۔

کہا جاتا ہے لفظ “اردو” سب سے پہلے تزک بابری میں ملتا ہے۔ البتہ اکبر کے دور میں یہ لفظ یہ عام ہو گیا اور یہاں لوگ “اردوئے معلیٰ” اور “اردوئے لشکر” کہنے لگے۔ لیکن ہندوستان کی عام بول چال کو جہانگیر کے دور میں بھی “ہندی” ہی سے موسوم کیا جاتا تھا البتہ شاہجہان نے سب سے پہلے اس زبان کا نام “اردوئے معلٰی” رکھا۔ دراصل اردو شاہجہان کے لشکر کی عام بول چال تھی۔ اس لشکر میں قسم قسم کے آدمی طرح طرح کی زبانیں بولنے والے تھے جن کے میل جول سے ایک ملی جلی زبان سامنے آنے لگی جس کو وہ لوگ “اردو” کہنے لگے۔

1206ء میں خلجی دکن کی طرف روانہ ہوئے جس سے اردو یا ہندوستانی زبان شمال سے جنوب پہنچتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے محمد بن تغلق 1327ء میں دولت آباد کو اپنا پایتخت بناتے ہیں۔ اس وقت دہلی اجڑی ہوئی تھی، وہاں کے تمام لوگ بھی دکن چلے گئے ظاہر ہے ان کے ساتھ اردو زبان بھی دکن پہنچ جاتی ہے۔

دکن میں 1347ء میں بہمنی سلطنت کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس طرح وہاں پانچ سلطنتیں قائم ہوئیں جن میں برید شاہی، عماد شاہی، نظام شاہی، عادل شاہی اور قطب شاہی اہم ہیں۔ دکن کی ان سلطنتوں میں اردو کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔ عادل شاہی دور میں نصرتی کی مثنوی “گلشن عشق” اور “علی نامہ” وغیرہ ملتی ہیں۔ اسی طرح قطب شاہی دور میں اردو کا ارتقاء سب سے زیادہ ہوتا ہے۔دراصل قلی قطب شاہ خود بھی ایک شاعر تھا۔ اسے اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ اس عہد میں ملا وجہی نے مثنوی “قطب مشتری”(1609ء) اور “سب رس”(1635ء) جیسی اہم تصانیف تخلیق کیں۔ “سب رس” اردو کی پہلی نثری کتاب ہے۔ قطب شاہی عہد میں زیادہ تر بادشاہ شاعر و ادیب تھے یہی وجہ ہے کہ زبان و ادب میں بھی لوگوں کی دلچسپی قائم ہوتی گئی اور زبان بتدریج ارتقاء کے منازل طے کرتی گئی۔

دکن میں اردو زبان کے پھیلنے کے کئی اسباب تھے۔پہلی وجہ یہ تھی کہ دکن کی سلطنتوں کے بادشاہ زیادہ تر شعراء تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہاں رابطے کی زبان ہندوستانی تھی۔ تیسری وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ شمال سے جو لوگ دکن گئے ان کی زبان بھی اردو تھی۔ چوتھی وجہ یہ تھی کہ شمال کی سیاسی زبان فارسی تھی اس لیے ردِعمل کے طور پر بھی انہوں نے ابتدائی اردو کو ہی اپنایا۔

سترہویں صدی(1687ء) میں اورنگزیب دکن پر حملہ کرتا ہے اور فاتح ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود دکن میں ادبی محفلیں منعقد کی جاتی رہیں اور زبان و ادب کا کام جاری رہا۔اسی عہد میں ولیؔ، سراجؔ،وجدیؔ، بحریؔ فراقی ؔ اور عاجزؔ وغیرہ جیسے باکمال شعراء پیدا ہوئے۔ 1700ء میں ولیؔ پہلی بار اپنا کلام لے کر دہی آئے اور یہاں کی پوری ادبی فضا کو بدل کر دیا۔ ولیؔ کا کلام ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اس کی شہرت چاروں طرف ہو جاتی ہے۔ ولیؔ کو اردو شاعری کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔

ولیؔ کی آمد کے بعد ایہام گوئی کا دور شروع ہوتا ہے۔ ایہام گوئی نے اردو کے فروغ میں اہم رول ادا کیا کیونکہ الفاظ کے انتخاب میں شعراء خاص خیال رکھتے تھے۔ اس لئے نئے نئے الفاظ اس زبان میں شامل ہوتے گئے۔ اس کے بعد اردو باضابطہ ایک زبان کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس کے اندر اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ادب کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کر سکے۔

1757ء میں انگریزوں کی ہندوستان آمد کے بعد ایک نئی فضا قائم ہوتی ہے۔ انگریزوں نے اپنی ضرورتوں کے تحت 1800ء میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا۔ 1825ء میں دلی کالج کا قیام عمل میں آیا۔ اردو زبان و ادب کے فروغ میں دبستانوں کا بھی اہم رول رہا ہے جن میں دبستانِ دہلی، دبستانِ لکھنؤ، انجمن پنجاب لاہور وغیرہ اہم ہیں۔ تحریکوں اور رجحانو‌ں میں رومانوی تحریک، حلقہ اربابِ ذوق، علی گڑھ تحریک، ترقی پسند تحریک، جدیدیت اور مابعد جدیدیت وغیرہ نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

اردو کی ترقی و ترویج میں مختلف مذہبی، سیاسی، سماجی و ادبی تحریکوں کا اہم رول رہا ہے۔ اس کے علاوہ جب ہم یورپ کے اثر میں آگئے تو چند چیزوں کو ہم نے فیشن کے طور پر اپنایا۔ اس طرح مختلف یورپی ادبی رجحانات سے متاثر ہوئے۔ دلی کے اجڑنے سے شعراء لکھنؤ چلے گئے وہاں ان لوگوں نے الگ اپنا دبستان قائم کیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اردو آج بھی پھل پھول رہی ہے اور اپنے الگ الگ دبستان قائم کر رہی ہے۔