سید سلمان ندوی کا نظریہ

0

یہ نظریہ سید سلیمان ندوی کا ہے جس کے تحت ان کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور یہاں کچھ عرصے تک ان کی باقاعدہ حکومت بھی رہی۔ اس دور میں مقامی لوگوں سے اختلاط و ارتباط کے نتیجے میں جوزبان وجود پذیر ہوئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ ان کے خیال میں: “مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچے ہیں اس لئے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولیٰ سندھ میں تیار ہوا ہوگا”

اس میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن و کلچر کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے۔ مقامی لوگوں کی زبان، لباس اور رہن سہن میں دیرپا اور واضح تغیرات سامنے آئے ہیں۔ بلکہ عربی زبان و تہذیب کے اثرات سندھ میں آج تک دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

آج سندھی زبان میں عربی کے الفاظ کی تعداد پاکستان و ہند کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اس کا رسم الخط بھی عربی سے بلاواسطہ طور پر متاثر ہے۔ عربی اثرات کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض مورخین کے نزدیک دوسری زبانوں میں جہاں دیسی زبانوں کے الفاظ مستمل ہیں وہاں سندھی میں عربی الفاظ آتے ہیں مثال کے طور پر سندھی میں ‘پہاڑ’ کو ‘جبل’ اور ‘پیاز’ کو ‘بصل’لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اثرات زبان میں الفاظ کے دخول سے آگے نہ بڑھ سکے اس لئے کوئی مشترک زبان پیدا نہ ہوسکی۔

یہی وجہ ہے کہ سید سلمان ندوی اپنے اس دعوے کا کوئی معقول ثبوت نہیں دے سکے۔ بقول ڈاکٹر غلام حسین: “اس بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ابتدائی فاتحین عرب تھے جن کے خاندان یہاں آباد ہو گئے۔ نویں صدی میں جب ایران میں صفاریوں کا اقتدار ہوا تو ایرانی اثرات سندھ اور ملتان پر ہوئے۔ اس عرصہ میں کچھ عربی اور فارسی الفاظ کا انجذاب مقامی زبان میں ضرور ہوا ہوگا اس سے کسی نئی زبان کی ابتداء کا قیاس شاید درست نہ ہوگا۔

اس دور کے بعض سیاحوں نے یہاں عربی، فارسی اور سندھی کے رواج کا ذکر ضرور کیا ہے مگر ان بیانات سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ یہاں کسی نئی مخلوط زبان کا وجود بھی تھا۔ البتہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سندھی اور ملتانی میں عربی اور فارسی کی آمیزش ہوئی ہوگی۔ اس آمیزش کا ہیولیٰ کرنا کہاں تک مناسب ہے خاطر خواہ مواد کی عدم موجودگی میں اس کا فیصلہ کرنا دشوار ہے۔

Mock Test 7

سید سلمان ندوی کا نظریہ 1