Advertisement
Advertisement

گریرسن نے مدھیہ پردیش کی زبان کو مغربی ہندی کا نام دیا ہے جس نے سب سے پہلے مشرقی اور مغربی ہندی میں فرق کیا ہے۔ مغربی ہندی مدھیہ دیش کی زبان ہونے کی وجہ سے ہند آریائی زبان کی بہترین نمائندہ ہے کیونکہ اسی علاقہ میں سنسکرت شورسینی پراکرت اور شورسینی اپ بھرنش پروان چڑھتی رہیں جن کی سچی جانشین اس علاقے کی جدید بولیاں،کھڑی بولی، برج بھاشا، ہریانی، بندیلی، اور قنوجی ہیں جن کے مجموعے کو گریسن نے “مغربی ہندی” کا جدید نام دیا ہے۔

Advertisement

لسانی اعتبار سے مغربی ہندی کا تعلق براہ راست شورسینی اپ بھرنش سے ہے جو اس عہد کی بولیوں میں واحد اور ممتاز ادبی حیثیت کی مالک تھی، جس نے سب سے زیادہ سنسکرت کے اثر کو قبول کیا تھا۔ہر عہد میں اس علاقہ کی زبان کا مرکز متھرا رہا ہے، جو قدیم ہندی تمدن کا اہم مرکز تھا۔

مغربی ہندی دہلی اور اس کے گردونواح میں بولی جانے والی پانچ بولیوں کا نام بھی ہے۔ اردو کا سلسلہ بھی انہیں مغربی ہندی بولیوں سے ملتا ہے۔مغربی ہندی کے سلسلے میں مندرجہ ذیل پانچ بولیاں آتی ہیں۔ یہ بولیاں اپنے ارتقاء کے دوران دو نمایاں شکلیں اختیار کرلیتی ہیں جن میں ایک گروہ “اُو” اور دوسرا گروہ ”آ“ والا کہلاتا ہے۔

Advertisement
  • “الف (آ)” کو ترجیح دینے والی بولیاں- کھڑی بولی اور ہریانوی ہیں۔
  • “اُو” کو ترجیح دینے والی بولیوں میں- برج بھاشا، قنوجی اور بندیلی آتی ہیں۔

کھڑی بولی

کھڑی بولی دہلی کے شمال مشرق کی بولی ہے۔ اس میں یو-پی کا وسیع علاقہ بھی شامل ہے۔ ہندی بھی کھڑی بولی سے پیدا ہوئی ہے۔ جس کا رسم الخط دیوناگری ہے لیکن اس کا ارتقاء اردو کے ادبی ارتقاء کے بعد ہوا۔

Advertisement

کھڑی بولی نے ہی اردو کا روپ اختیار کیا اور دھیرے دھیرے معیاری اور ترقی یافتہ بن گئی۔ گریرسن نے کھڑی بولی کو ‘ہندوستانی’ اور اردو کو ‘ادبی ہندوستانی’ کہا ہے۔ کھڑی بولی کا خاص علاقہ مرادآباد، بجنور، رام پور، سہارنپور، میرٹھ اور مظفرنگر ہے۔

ہریانوی

ہریانوی کو بانگڑو اور جاٹو بھی کہتے ہیں۔ دہلی میں یہ زبان جاٹو کے نام سے مشہور ہے کیونکہ اس آس پاس کے علاقے میں جاٹووں کی آبادی کثرت سے ہے۔ لوگ اسے ‘گنوارو’ زبان سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ یہ موجودہ صوبہ ہریانہ کی بولی ہے۔ اس کے علاوہ روہتک، ھسار، کرنال اور گڑگاؤں میں بھی یہ زبان بولی جاتی ہے۔

Advertisement

برج بھاشا

برج بھاشا کا خاص مرکز متھرا ہے جو ہندو تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا۔ یہ مغربی ہندی کی سب سے نمایاں بولی تسلیم کی جاتی ہے۔ اسے شورسینی اپ بھرنش کی سچی جانشین بھی کہا جاتا ہے۔ کرشن بھگتی کا تمام تر ادبی سرمایہ جو شاعری پر مشتمل ہے، اسی زبان میں ہے۔ برج بھاشا میں ہندی کے بڑے شاعر سورداس نے شاعری کا ذخیرہ یادگار چھوڑا ہے۔سورداس کو شاعری کا سورج کہا گیا ہے وہ اسی زبان کے شاعر تھے۔

برج کے معنی جانوروں کے ‘ہڈا’ کے ہیں۔ چونکہ اس علاقے میں گائے کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اسی وجہ سے ‘برج’ کا لفظ وجود میں آیا۔ یہ زبان آگرہ، فیروزآباد، شمال مشرق میں گرگاری، ایٹہ، علی گڑھ، بریلی کے کچھ اضلاع میں رائج ہے۔

قنوجی

مغربی ہندی کی اس بولی کا نام شہر قنوج کے نام پر ہے جو ضلع فرح آباد میں ہے۔ قنوج ہندوستانی لفظ ہے جسے ہندی میں “کنوج” کہا جاتا ہے۔یہ شہر اتنا قدیم ہے کہ رامائن تک اس کا ذکر ملتا ہے۔قنوجی زبان شاہجہانپور کے شمال میں پیلی بھیت تک بولی جاتی ہے۔ برج بھاشا اور قنوجی میں گہرا لسانی رشتہ ہے۔ دونوں کے قواعد میں بھی بہت کم فرق ہے۔

بندیلی

یہ بندیل کھنڈ کی بولی ہے جو شمال میں آگرہ، مین پور اور ایٹہ کے ضلعوں تک رائج ہے اور شمال مغرب میں قنوجی اور برج بھاشا سے گھری ہوئی ہے۔اس کے جنوب مغرب میں راجستانی بولیاں رائج ہیں۔ جنوب میں اس کے حدود مراٹھی سے ملتے ہیں۔ دوسری بولیوں کے برخلاف اس میں غیر معمولی یکسانیت ہے۔ بندیلی میں ادب کا وسیع سرمایہ ہے۔ ہندی کے مشہور شاعر کیشوداس اور بدماکر نے اسی بندیلی میں شاعری کی ہے۔

Advertisement

Mock Test 11

مغربی ہندی کی بولیاں 1

Advertisement