پروفیسر مسعود حسین خان کا نظریہ

0

پروفیسر مسعود حسین خان اردو دنیا میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر زور کے بعد وہ پہلے محقق ہیں جنہوں نے اردو زبان اور اس کے آغاز کے بارے میں سائنٹیفیک نقطۂ نظر سے غور کی۔ ان کی کتاب”مقدمہ تاریخ زبان اردو” اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ یہ پروفیسر مسعود حسین خان کا تحقیقی مقالہ ہے جو علی گڑھ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ اس کتاب کے اب تک آٹھ آڈیشن منظر عام پر آ چکے ہیں۔ پہلا ایڈیشن 1948ء میں شائع ہوا اور آٹھواں ایڈیشن 1986ءمیں منظر عام پر آیا۔پروفیسر مسعود حسین خان نے اپنی کتاب میں اردو کے آغاز سے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے اس میں انہوں نے ہریانی پر زور دیا ہے۔ لکھتے ہیں:

“قدیم دکنی زبان کے مطالعے کے سلسلے میں اب تک ہر یا نی کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہی زبان ہے جو قطع نظر شہر دہلی، ضلع دہلی میں آج بھی بولی جاتی ہے”

اردوئے قدیم سے متعلق لسانی تحقیق کے سلسلے میں جو اہمیت ہریانی کو حاصل ہے اس کی طرف سب سے پہلے اشارہ پروفیسر ژول بلاک نے اپنے مضمون “ہند آریائی لسانیات کے بعض مسائل” میں کیا ہے۔قدیم اردو کا پنجابی پن ہریانی پن بھی ہے لیکن قدیم اردو (دکنی) کی یہ صوتیاتی اور شکیلیاتی خصوصیات صرف ہریانی سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ جمنا پار کی کھڑی بولی کے علاقے میں بھی یہ خصوصیات میں جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں دونوں کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ دہلی ایک مدت تک صدر مقام رہا اس لیے اردو کا تعلق کھڑی بولی سے زیادہ ہے۔

“مقدمہ تاریخ زبان اردو” کے آٹھویں ایڈیشن میں پروفیسر مسعود حسین خان نے اپنے نظریے پر نظر ثانی کر کے اسے قطعیت دے دی ہے۔ ان کے نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو برج، ہریانی اور کھڑی بولی سے مل کر بنی ہے۔ کتاب کا اختتام وہ اس طرح کرتے ہیں:

“زبان دہلی وپیرامنش” اردو کا اصل منبع و سرچشمہ ہے اور “حضرت دہلی” اس کا حقیقی مولد و منشا”

“زبان دہلی وپیر منش” کی اصطلاحی روشنی مسعود حسین خان کو امیر خسرو سے ملی ہے۔امیر خسرو نے اپنی مثنوی “نہ سپہر” میں ہندوستان کی بارہ زبانوں کے نام گنوائے ہیں۔ ان میں سے ایک “لاہوری” اور دوسری “زبان دہلی وپیر منش” ہے۔ زبان دہلی وپیر منش سے مراد زبان دہلی اور اس کے نواح کی کھڑی بولی اور ہریانی کے ہیں۔ اسی پر مسعود صاحب کا نظریہ قائم ہے۔ مسعود صاحب کا کہنا ہے کہ اردو کا ڈھانچہ کھڑی بولی پر تیار ہوا ہے۔ جمنا پار کی کھڑی بولی اور ہریانوی قدیم اردو سے قریب تر ہے۔ جدید اردو اپنے زمانہ کے اعتبار سے مراد آباد اور رام پور کے اضلاع کی بولی سے قریب ہے۔ بعد میں برج بھاشا اردو کا لب و لہجہ متعین کرنے میں اثر انداز ہوئی۔

کھڑی بولی کے دو روپ ہیں ایک روپ وہ ہے جو دو آبہ گنگ و جمن کے بالائی حصے یعنی سہارنپور، مظفرنگر اور میرٹھ میں رائج ہے۔ دوسرا روپ گنگا پارکے بجنور، رام پور اور مرادآباد کے اضلاع میں بولا جاتا ہے۔ان اضلاع میں بولی جانے والی کھڑی بولی کو مسعود صاحب اردو سے قریب ترین خیال کرتے ہیں۔ کھڑی اور دکنی کی صورتی و صرفی کئی مماثلتیں مسعود صاحب نے اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر پیش کی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔

  • دکنی اردو کی طرح کھڑی بولی کی یہ اہم خصوصیت ہے کہ اس میں درمیانی ‘ہ’ گرا دی جاتی ہے۔ جیسے ‘کاں (کہاں)، کبی (کبھی) وغیرہ۔
  • کھڑی بولی میں اکثر ‘ڑ’ پر ‘ڈ’ کو ترجیح دی جاتی ہے جو دکنی کی بھی خصوصیت ہے اور پنجابی کی بھی۔ جیسے بوڑھا(بڈھا)، گڑھا(گڈا) وغیرہ۔
  • ضمائر میں دکنی اردو کا ‘یو’ آج بھی کھڑی کے علاقہ میں مستعمل ہے۔
  • دکنی اردو کا ‘او’ کھڑی بولی میں “اوہ” کی شکل میں ملتا ہے۔
  • دکنی کے ضمائر میں سب سے قابل ذکر “آپس” ہے جو ‘خود’ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس کا تعلق بھی کی بولیوں سے ہے۔

پروفیسر مسعود حسین خان نے اردو زبان کے آغاز و ارتقاء میں ان زبانوں کے تعاون کا لسانیاتی اور سائنٹیفیک انداز میں تجزیہ کر کے مدلل طور پر اپنا نظریہ پیش کیا کہ “زبان دہلی وپیرا منش” اردو کا اصل منبع اور سرچشمہ ہے اور حضرت دہلی اس کا حقیقی مولد و منشا” جو سراسر حقیقت پر مبنی ہے۔

Mock Test 7

پروفیسر مسعود حسین خان کا نظریہ 1