علم کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

0
  • سبق نمبر 22:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ علم کی اہمیت و افادیت پر مضمون تحریر کریں۔

جواب: اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر بے شمار انعامات و احسانات ہیں اور انسانوں کے اوپر جو خاص نعمتیں اور نوازشیں ہیں، ان میں سے علم کا عطا کرنا سب سے بڑی نعمت اور احسان ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد سب سے پہلے جو چیز آپ کو عطا ہوئی وہ علم تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: اور اللہ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھا دیئے۔

علم کی اہمیت و فضیلت قرآن کی روشنی میں:

رب کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دے کر اسے علم و عقل سے نوازا۔ علم کے ذریعے ہی انسان کے لیے ساری کائنات مسخر کر دی گئی۔ علم ہی کی وجہ سے انسان کو تمام باقی مخلوقات پر شرف حاصل ہے۔ علم ہی انسان کے لیے عظمت و شرف کی بنیاد ہے اور سربلندی کا ذریعہ ہے۔

علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ وہ عالم الغیب، علام الغیوب، اور علم بذات الصدور جیسی صفات رکھتا ہے۔ تمام مخلوق کو اس کی ضرورت کا علم عطا کرنے والی ذات بھی وہی ہے۔ جس زمانہ میں عرب میں اسلام کا آغاز ہوا، دنیا علم کی اہمیت سے ناواقف تھی، اسلام نے علم کی قدر و قیمت بتائی اور لوگوں کو تحصیل علم کی رغبت دلائی۔ علم اور اہل علم کی فضیلت کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ:تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطا کیا گیا، اللہ ان کے درجے بلند کردیں گے۔ (سورۃ المجادلۃ:۱۱)
یہاں بلندی درجات میں علم کو ایمان کے ساتھ فرمایا گیا ہے ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: اور دعا کیجیے: اے میرے پروردگار! میرے علم میں اضافہ فرمادیجئے۔(سورۃ طہٰ:۱۱۴)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے کیا دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔ پس نصحیت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہیں۔ (سورۃ الزمر:۹)
اس سے معلومن ہوا کہ علم عظمت اور سر بلندی کا ذریعہ ہے۔ جو لوگ علم رکھتے ہیں وہ اللہ کے زیادہ قریب ہوتے ہیں، یعنی عالم اور جاہل برابر نہیں۔

علم کی فضیلت حدیث کی روشنی میں:

علم کی فضیلت کا اندازہ رسول اللہ صلی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے قول و فعل سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ مسجد میں تشریف لائے، وہاں دو مجلسیں ہو رہی تھیں، ایک حلقہ ذکر اور دوسرا حلقہ علم۔ آپ نے دونوں کی تعریف کی اور پھر علم کی مجلس میں شریک ہوگئے اور فرمایا کہ یہ پہلی مجلس سے بہتر ہے۔

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جب تم جنت کے پھلواریوں میں سے گزرو تو ان سے جی بھر کر فائدہ اٹھایا کرو۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا، جنت کی پھلواریاں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: علم کی مجلسیں۔

رسول اللہ صلی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
آپ صلی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ماں کی گود سے قبر میں اترنے تک حصول علم کا عمل جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔ آپ صلی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ہر مسلمان مرد و عورت پر طلب علم کو فرض قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ علم میں اضافے کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے۔

مختصراً رسول اللہ صلی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّم کی امت پرواضح کردیا اور خود امت کو اپنے قول و فعل سے تعلیم دی اور دوسروں کو بھی علم کی ترویج و اشا کرنے کے لیے کہا تھا۔ علم اور اہل علم کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اہل علم ہی انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔

آپ کریم صلی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔
علم و اخلاق کے زیر سایہ اگر بہتر تربیت کا اہتمام ہو تو انسان میں اچھے برے کی تمیز صحیح اور غلط کا امتیاز خالق و مالک کی پہچان اس کی مخلوق سے محبت ہمدردی اور خیر خواہی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں اور وہ سیرت و کردار کے اعتبار سے باوقار اور کار آمد فرد بن جاتا ہے۔ اس لیے اسلام میں علم حاصل کرنا فرض شمار کیا گیا ہے۔ جبکہ اپنے ماتحتوں اولاد اور اہل خانہ کی اخلاقی تربیت کی ذمہ داری بھی ہمارے اوپر لازم کی گئی ہے۔ اس لیے علم و اخلاق کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تصور کیا جاتا ہے بلکہ اخلاقی دیگر تمام تر صفات کی بنیاد علم ہے جسے ہر صورت فوقیت دینا ایک مسلمان کا پہلا فریضہ ہونا چاہئے۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ علم کے معنی اور مفہوم کیا ہیں؟

”علم“ کے لغوی معنی جاننے اور آگاہ ہونے کے ہیں جبکہ تعلیم کا لفظ دوسروں کو علم دینے اور سکھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اصطلاح میں انسان کا حواس خمسہ اور عقل کے ذریعے کسی چیز کو حقیقت کو جاننے کا نام علم ہے۔

۲۔ علم کی اہمیت سے متعلق قرآن کریم کی کوئی ایک آیت اور اس کا ترجمہ بیان کریں۔

جواب: ترجمہ : کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے کیا دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔ پس نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل مند ہیں۔ (سورۃ الزمر:۹)