اسلام میں گداگری کی مذمت

0

سبق : اسلام میں گداگری کی مذمت
مصنف : الطاف حسین حالی
ماخوذ از : کلیات حالی (نثر) حصہ اول

تعارفِ سبق : سبق ” اسلام میں گداگری کی مذمت “ کے مصنف کا نام ”الطاف حسین حالی“ ہے۔ یہ سبق کتاب ” کلیات حالی (نثر) حصہ اول “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

الطاف حسین ۱۸۷۳ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام الطاف حسین، حالی تخلص، اور شمس العلماء خطاب تھا۔ آپ کے والد کا نام خواجہ ایزد بخش انصاری تھا۔ آپ نے پہلے قرآن پاک حفظ کیا پھر عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کی شادی سترہ برس کی عمر میں کردی گئی۔ آپ دہلی بھی گئے جہاں آپ کو مزرا غالب اور نواب مصطفی خان شیفتہ کی صحبت میسر آئی۔ اس کے بعد آپ لاہور آگئے اور پنجاب بک ڈپو میں ملازمت اختیار کرلی۔

وہاں انھوں نے کتب کے اردو تراجم پر نظر ثانی اور درستی کا کام کیا۔ اس کام سے حالی کو انگریزی زبان اور اس کے ادب سے آگاہی حاصل ہوئی۔ یہیں انھوں نے مولانا محمد حسین آزاد کے ساتھ مل کر موضوعاتی مشاعروں کی بنیاد ڈالی ، جن میں شاعر مختلف موضوعات پر نظمیں لکھر کر لایا کرتے تھے۔ انھی مشاعروں میں حالی نے ” برکھا رُت ، رحم و انصاف ، حُبِ وطن اور امید“ کے عنوان سے نظمیں پڑھیں۔ حالی نے سرسید کی مشہور تحریک پر اپنا مشہور مسدس ”مدّ و جزرِ اسلام“ بھی لکھا جو مسدسِ حالی کے نام سے مشہور ہوا۔ ”حیاتِ سعدی، مقدمہ شعر و شاعری ، یادگارِ غالب اور حیاتِ جاوید“ حالی کی اہم نثری تصانیف میں سے قابلِ ذکر ہیں۔

خلاصہ

اس سبق میں مصنف احادیث و واقعات کے ذریعے اسلام میں گداگری کی مذمت کی اہمیت بتارہے ہیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رض سے روایت ہے کہ ہم نو آٹھ یا سات آدمی آنخضرت کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا :

”کیا تم خدا کے رسول ﷺ سے بیعت نہیں کرتے۔“ ہم نے فوراً ہاتھ بڑھایا لیکن چونکہ ہم چند دن پہلے ہی بیعت کر چکے تھے۔ ہم نے عرض کیا :
”یارسول اللہﷺ ! ہم تو ابھی بیعت کرچکے ہیں، آپ ﷺ ہم سے کس بات پر بیعت لیتے ہیں؟“ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
”اس بات پر کے اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو اور احکام الہی بجا لاؤ۔ پھر آہستہ سے فرمایا :
یعنی لوگوں سے کچھ نہ مانگو۔“

مصنف لکھتے ہیں کہ روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول پاک ﷺ بھیک مانگنے کو ناپسندیدہ فعل قرار دیتے تھے۔ روایت ہے کہ جو شخص ایک وقت کی خوراک ہوتے ہوۓ بھی سوال کرے تو اس کے لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
”وہ اپنے لیے کثرت سے آتشِ دوزح طلب کرتا ہے۔“
عائد بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
”اگر تم جانو کہ سوال کرنے کے کیا نتائج ہیں تو کوئی شخص سوال کرنے کے لیے دوسرے شخص کی طرف رخ نہ کرے۔“

جس قدر قوم میں بھیک مانگنے والوں کی کثرت ہوتی جاتی ہے۔ اسی قدر قوم کی دولت میں، محنت و جفاکشی میں، غیرت و حمیت میں اور ہمت و اولوالعزی میں گھاٹا ہوتا جاتا ہے۔ مفلسوں کو کاہلی اور بے غیرتی کی ترغیب ہوتی ہے ان کا وجود معاشرےکے حق میں ستمِ قاتل کا حکم رکھتا ہے۔ اسلام میں گداگری کی جتنی مذمت کی گئی ہے شاید ہی کسی اور مذہب نے کی ہو۔

ہمیں بے شمار واقعات اور احادیث کے ذریعے گداگری کی مذمت کا علم ہوتا ہے۔ بھیک مانگنے کی عادت کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ حدود و اختیارات میں جہاں تک ممکن ہو اس رسم سے انسداد کریں۔ سائل کو روپیہ پیسہ یا کھانا دینے کے بجائے ان کو کسی محنت کے کام کی طرف راغب کیا جائے۔ اگر ممکن ہو تو ان کو کوئی ایسا ذریعہ فراہم کیا جائے جس سے وہ سوال کرنے بجائے اپنی ہاتھ پاؤں کی مدد سے کما سکیں۔ مولانا حالی نے اس مضمون میں علماء دین کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ وہ جتنا ہو سکے اپنی مجسلوں اور واعظ میں سوال کرنے کی مذمت جو حدیثوں اور روایتوں میں موجود ہے لوگوں تک پہنچائیں۔ اور خواتین کو بھی تاکید کی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے مکر وفریب سے آگاہ رہیں اور ایسے ہٹے کٹے لوگوں کو کچھ دے کر نیکی کی جگہ گناہ کی مر تکب نہ ہوں۔

سوال ۱ : گداگری کے سلسلے میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ سے کیا روایت ہے؟

جواب : حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نو آٹھ یا سات آدمی آنخضرت کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا :
”کیا تم خدا کے رسول ﷺ سے بیعت نہیں کرتے۔“ ہم نے فوراً ہاتھ بڑھایا لیکن چونکہ ہم چند دن پہلے ہی بیعت کر چکے تھے۔ ہم نے عرض کیا :
”یارسول اللہﷺ ! ہم تو ابھی بیعت کرچکے ہیں، آپ ﷺ ہم سے کس بات پر بیعت لیتے ہیں؟“ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
”اس بات پر کے اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو اور احکام الہی بجا لاؤ۔ پھر آہستہ سے فرمایا :
یعنی لوگوں سے کچھ نہ مانگو۔“

سوال۲ : کن روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول پاک ﷺ بھیک مانگنے کو ناپسندیدہ فعل قرار دیتے تھے؟


جواب : روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول پاک ﷺ بھیک مانگنے کو ناپسندیدہ فعل قرار دیتے تھے۔ روایت ہے کہ جو شخص ایک وقت کی خوراک ہوتے ہوۓ بھی سوال کرے تو اس کے لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
”وہ اپنے لیے کثرت سے آتشِ دوزح طلب کرتا ہے۔“
عائد بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
”اگر تم جانو کہ سوال کرنے کے کیا نتائج ہیں تو کوئی شخص سوال کرنے کے لیے دوسرے شخص کی طرف رخ نہ کرے۔“

سوال ۳ : گداگری سے کون کون سی انفرادی اور اجتماعی برائیاں جنم لیتی ہیں؟

جواب : جس قدر قوم میں بھیک مانگنے والوں کی کثرت ہوتی جاتی ہے۔ اسی قدر قوم کی دولت میں، محنت و جفاکشی میں، غیرت و حمیت میں اور ہمت و اولوالعزی میں گھاٹا ہوتا جاتا ہے۔ مفلسوں کو کاہلی اور بے غیرتی کی ترغیب ہوتی ہے ان کا وجود معاشرےکے حق میں ستمِ قاتل کا حکم رکھتا ہے۔

سوال۴ : اسلام گدا گری کی مذمت کس طرح کرتا ہے؟

جواب : اسلام میں گداگری کی جتنی مذمت کی گئی ہے شاید ہی کسی اور مذہب نے کی ہو۔ ہمیں بے شمار واقعات اور احادیث کے ذریعے گداگری کی مذمت کا علم ہوتا ہے۔ عائد بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
”اگر تم جانو کہ سوال کرنے کے کیا نتائج ہیں تو کوئی شخص سوال کرنے کے لیے دوسرے شخص کی طرف رخ نہ کرے۔“

سوال۵ : بھیک مانگنے کی عادت کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟

جواب : بھیک مانگنے کی عادت کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ حدود و اختیارات میں جہاں تک ممکن ہو اس رسم سے انسداد کریں۔ سائل کو روپیہ پیسہ یا کھانا دینے کے بجائے ان کو کسی محنت کے کام کی طرف راغب کیا جائے۔ اگر ممکن ہو تو ان کو کوئی ایسا ذریعہ فراہم کیا جائے جس سے وہ سوال کرنے بجائے اپنی ہاتھ پاؤں کی مدد سے کما سکیں۔

سوال ٦ : مولانا حالی نے اس مضمون میں علماء دین اور خواتین کو کیا توجہ دلائی ہے؟

جواب : مولانا حالی نے اس مضمون میں علماء دین کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ وہ جتنا ہو سکے اپنی مجسلوں اور واعظ میں سوال کرنے کی مذمت جو حدیثوں اور روایتوں میں موجود ہے لوگوں تک پہنچائیں۔ اور خواتین کو بھی تاکید کی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے مکر وفریب سے آگاہ رہیں اور ایسے ہٹے کٹے لوگوں کو کچھ دے کر نیکی کی جگہ گناہ کی مر تکب نہ ہوں۔

سوال۷ : ذیل کے الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے :

انسداد مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ حدود و اختیارات میں جہاں تک ممکن ہو گداگری جیسی رسم سے انسداد کریں۔
درہم برہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعلیمی نظام درہم برہم ہورہا ہے۔
مطلق کسی پر مطلق اثر نہیں موجودہ حالات کی سنگینی کا۔
اضطراری کہیں برسوں کے بعد بیٹے کو دیکھ کا ماں اضطراری سے اس کی طرف بڑھی۔
مقصود سب کے منع کرنے کے باوجود ہم نے منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیا۔
اندوختہ سائل اپنے میں اندوختہ کو چھپا کر سوال کرے تو اس کی مدد ہرگز نہ کریں۔
جفاکش دیہاتی اکثر جفاکش مزدور ہوتے ہیں۔
اولولالعزمی ادب فروغ کے لیے ہماری کوششیں اولولالعزمی سے جاری ہیں۔
استطاعت اللہ تعالی اس سال ہمیں حج کی ادائیگی کی استطاعت دیں۔
موجب لوگوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بیماری کے پھیلنے کا موجب بن رہا ہے۔
مدح پرندوں کو بھی آتا ہے رب کی مدح سرائی کرنا۔
ذم بعض لوگ اپنی کوتاہیوں کا ذم دوسروں کو دے کر خود سرخرو ہوجاتے ہیں۔
تاوان دنیا مکافات عمل ہے اپنے کیے کا تاوان تو بھرنا ہی پڑتا ہے۔

سوال ۸ : انسداد گداگری کے عنوان سے ایک مضمون لکھیے۔

انسداد گداگری

ملک بھر میں ایک وبا کورونا کے نام سے پھیلتی جا رہی ہے، جس کا سدباب اب دریافت کر لیا گیا ہے۔ مگر ہماری اخلاقی گراوٹیں اس قدر پسماندگیوں کا شکار ہیں کہ ہم نے اس ایسی ایک اور وبا گداگری کے لیے آج تک کوئی اقدام نہیں کیا۔ آپ سگنل پر کھڑے ہو جائیں تو یہ لوگ برسات کی مینڈک کے ایسے زمین سے نمودار ہو جاتے ہیں اور گھیر کر آپ سے حق مانگنے کے ایسے پیسے طلب کرتے ہیں۔

اس پر ستم یہ کہ اپنی ڈیمانڈ کی رقم نہ ملنے پر بددعاؤں کا سہارا لیتے ہیں۔ سادہ لو ح انسان ان بددعاؤں سے ڈر کر ہراساں ہو کر ان کو بھتہ کی صورت رقم ادا کر دیتے ہیں۔ مگر یہ سراسر بدمعاشی کے زمرے میں آتا ہے۔ کہتے ہیں انسان سوال کرتا ہے تو اپنے لیے دوزخ مانگتا ہے۔ کسی مرد درویش کا لکھا پڑھا تھا کہ اندلس میں گداگروں کو اس عمل پر پکڑ کر لعن طعن کرتے ہیں۔ یہ رواج ایک بہترین سدباب کے طور پر ہم اپنے ملک میں متعارف کروا سکتے ہیں۔

اس سے نہ صرف جرم عام ہو رہا ہے، بلکہ حق دار و سفید پوش لوگوں کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ ان کا حق چھینا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک بہت بڑا بگاڑ اس گداگری کے ناسور کا ہے۔ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں اس طرح کا جرم سرعام ہو رہا ہے۔ مگر کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ کم سن بچے اس کام پر لگا رکھے ہیں تو کہیں خواجہ سراؤں سے یہ کام لیا جا رہا ہے۔ بقول شاعر؀

شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے​
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی​

جی ہاں اس کام میں سرکاری اہلکار بھی شامل ہیں جو کہ اپنے اپنے حصے کا آگے ان سے وصولتے ہیں۔ اس پر کڑی سزائیں دی جائیں اور اس کی روک تھام کے لیے قانون بنایا جائے۔ ہماری مذہب اسلام میں بھی گداگری کی مذمت کی گئی ہے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رض سے روایت ہے کہ ہم نو آٹھ یا سات آدمی آنخضرت کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا :
”کیا تم خدا کے رسول ﷺ سے بیعت نہیں کرتے۔“ ہم نے فوراً ہاتھ بڑھایا لیکن چونکہ ہم چند دن پہلے ہی بیعت کر چکے تھے۔ ہم نے عرض کیا :
”یارسول اللہﷺ ! ہم تو ابھی بیعت کرچکے ہیں، آپ ﷺ ہم سے کس بات پر بیعت لیتے ہیں؟“ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
”اس بات پر کے اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو اور احکام الہی بجا لاؤ۔ پھر آہستہ سے فرمایا :
یعنی لوگوں سے کچھ نہ مانگو۔“

سوال ۹ : جزو الف اور جزو ب میں سے متضاد الفاظ چن کر ان سے مرکبات بنائیے۔

بلند و پست
کم و بیش
حق و باطل
منفعت و مضرت
خواص و عوام
حضور و غیاب

سوال۱۱ : آپ اسی طرح “وقفہ” استعمال کر کے پانچ جملے لکھیے۔

۱) اس ملک میں سچائی ، پرہیزگاری ; ایمانداری نظر آنا ممکن نہیں ہے۔
۲) ہمارے گھر میں گندگی ، بدبو ; بےترتیبی نہیں ہوتی ہے۔
۳) مجھے لال ، ہرا ; نیلا رنگ پسند ہے۔
۴) علی کو کیلا ، آم ; انار پسند ہیں۔
۵) حماد کو اچھے کپڑے، جوتے ; چشمے اچھے لگتے ہیں۔

سوال۱۲ : آپ ان مندرجہ بالا حروف کو استعمال کرکے تین تین جملے بنائیے۔

۱) جیسے جیسے ہمارے جانے کے دن قریب آتے گئے ، ویسے ویسے دل اداس ہونے لگا۔
۲) جیسے جیسے شادی کا دن قریب آتا گیا ، ویسے ویسے تیاری زور پکڑتی گئی۔
۳) جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے، ویسے ویسے ہمارے لباس ہمیں چھوٹے ہوتے گئے۔