Ek Pahad aur Gilehri Tashreeh

0

نظم ایک پہاڑ اور گلہری کی تشریح

کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے

یہ شعرعلامہ محمد اقبال کی نظم “ایک پہاڑ اور گلہری” سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ایک پہاڑ گلہری کو کچھ یوں مخاطب کرتا ہے کہ اگر تم میں ذرا سی بھی شرم موجود ہو تو کہیں جا کر پانی میں ڈوب کر مر جاؤ۔

ذرا سی چیز ہے اس پر غرور! کیا کہنا!
یہ عقل اور یہ سمجھ یہ شعور! کیا کہنا!

شاعر کہتا ہے کہ پہاڑ گلہری کو شرم دلا کر کہتا ہے کہ تم ایک ذرا سی چیز ہو اس پہ بھی تم اتنا غرور کرتی ہو۔ تمھاری عقل، سمجھ اور شعور کے تو کیا ہے کہنے ہیں۔

خدا کی شان ہے نا چیز چیز بن بیٹھیں!
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں!

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ خدا کی شان تو دیکھیے کہ وہ لوگ جن کی اتنی اوقات نہیں ہے وہ ناچیز لوگ بسا اوقات بڑی چیز بن جاتے ہیں۔ جبکہ بعض اوقات وہ لوگ جن میں شعور،سمجھ بوجھ نہیں ہوتی ہے وہ باشعور اور باتمیز بن جاتے ہیں۔

تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ پہاڑ گلہری کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میری شان کے سامنے تمھاری بھلا کیا اوقات ہے۔ میں تو اس قدر بلند و بالا ہوں کہ میری شان اور آن بان کے سامنے تو زمین بھی چھوٹی دکھائی دیتی ہے۔

جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں!

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ پہاڑ گلہری کو یہ کہتا ہے کہ جو بات مجھ میں ہے وہ تمھیں کسی صورت بھی نصیب نہیں ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ میں ایک بلند و بالا پہاڑ جبکہ تم ایک جانور گلہری ہو اور جو بات یا خوبی ایک پہاڑ میں ہوسکتی ہے وہ کسی جانور کو کہاں نصیب ہو سکتی ہے۔

کہا یہ سن کے گلہری نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ پہاڑ کی بات سن کر گلہری اسے جواب دینے کے لیے یوں گویا ہوئی کہ ذرا منھ سنبھال کر بات کرو۔ یہ باتیں بہت چھوٹی ہیں انھیں تم اپنے دل سے نکال باہر کرو۔

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا!
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا

گلہری اس پہاڑ کو کہتی ہے کہ اگر میں تمھاری طرح بڑی نہیں ہوں تو مجھے اس بات کی ہر گز پروا نہیں ہے۔ کیوں کہ تم بھی تو میری طرح چھوٹے نہیں ہو۔ ہم دونوں ہی میں بہت فرق ہے اور دونوں ہی ایک دوسرے جیسے نہیں ہوسکتے ہیں۔

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اس کی حکمت ہے

اس شعر میں گلہری کہتی ہے کہ اس دنیا کی ہر ایک چیز اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ ہر شے اللہ کی ذات کی پیدا کردہ ہے۔ اگر کوئی چیز بڑی اور کوئی چھوٹی تخلیق کردہ ہے تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کی مرضی پوشیدہ ہے۔

بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ گلہری پہاڑ کو کہتی ہے اللہ کی ذات نے اگر تجھے اس خوبی سے نوازا ہے کہ اس نے تمھیں بڑا بنا دیا ہے تو مجھے بھی اس نے یہ خوبی دی کہ مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا۔

قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے! خوبی ہے اور کیا تجھ میں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ گلہری پہاڑ کو کہتی ہے کہ تم میں تو ذرا بھر قدم بھی اٹھانے کی طاقت موجود نہیں ہے۔ تم محض بڑے ہو اس بڑائی کے علاوہ تمھاری ذات میں کون سی خوبی موجود ہے۔

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ گلہری پہاڑ کو لاجواب کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر تم خود کو بڑا کہتے ہو تو اپنی بڑائی کا جوہر دکھاتے ہوئے مجھ جیسا کوئی ہنر بھی تو دکھاؤ یہ سامنے چھالیا موجود ہے ذرا وہ ہی مجھے توڑ کر دکھا دو۔

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے می

اس شعر میں شاعر نظم کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں کوئی بھی چیز بے کار تخلیق نہیں کی ہے۔ اور نہ قدرت کے کارخانوں میں کوئی غلط ،برا یا بے فائدہ ہے۔ ہر چیز کی تخلیق کا مقصد ہے۔

سوچیے اور بتایئے:

پہاڑ نے گلہری سے کیا کہا؟

پہاڑ نے گلہری سے کہا کہ تم شرم سے پانی میں ڈوب مرو کہ تم ایک ذرا سی چیز ہوجبکہ میں ایک بلند و بالا پہاڑ اور مجھ سے تمھارا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

پہاڑ نے اپنی بڑائی کن باتوں سے ظاہر کی؟

پہاڑ نے اپنی بڑائی اس سے ظاہر کی کہ زمین بھی میرے سامنےپست ہے اور میری آن بان شان کسی جانور کے مقابل نہیں ہوسکتی ہے۔

گلہری نے پہاڑ کی باتیں سن کر کیا کہا؟

گلہری نے پہاڑ کی بات سن کر کہا کہ ذرا منھ سنبھال کر بات کرو کہ اگر میں تمھاری طرح بڑی نہیں تو تم بھی میری طرح چھوٹے نہیں ہو۔ اللہ کی قدرت ہے یہ اور اس کے ہر کام میں کوئی نا کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔

گلہری میں کیا خوبی ہے جو پہاڑ میں نہیں ہے؟

گلہری درخت پہ چڑھ سکتی ہے جبکہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل تک نہیں سکتا۔

خدا کی حکمت کن باتوں سے ظاہر ہوتی ہے؟

خدا کی حکمت اس دنیا کے ہر ایک عمل اور ہر چھوٹی بڑی چیز سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس نے دنیا میں موجود ہر چیز کو کسی نہ کسی ہنر سے نوازا ہے اور کچھ بھی بے کار تخلیق نہیں کیا ہے۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے:

  • تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
  • خدا کی شان ہے نا چیز چیز بن بیٹھیں!
  • تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
  • بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں!
  • نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
  • ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
  • کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔

شرم مجھے ادھارمانگتے ہوئے شرم آتی ہے۔
غرور غرور کا سر نیچا ہے۔
شعور تعلیم انسان کو باشعور بناتی ہے۔
نصیب اللہ پاک ہر ایک کی اولاد کا نصیب اچھا کرے۔
قدرت قدرت کے کارخانے میں کوئی چیز نکمی نہیں ہے۔
حکمت اللہ کے ہر کام میں اس کی حکمت پوشیدہ ہے۔
طاقت ہمیں اپنی طاقت کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

واحد الفاظ سے جمع بنائیے۔

چیز چیزیں
نصیب ںصیبوں
گلہری گلہریاں
خوبی خوبیاں
غریب امیر
درخت درختوں
جانور جانوروں
حکمت حکمتوں

ان لفظوں کے متضاد لکھیے۔

بے شعور باشعور
با تمیز بد تمیز
خوبی خامی
پست بلند
زمین آسمان
غریب امیر
چھوٹا بڑا

مصرعوں کو مکمل کیجیے۔

ذرا سی چیز ہے اس پر غرور! کیا کہنا!
یہ عقل اور یہ سمجھ یہ شعور! کیا کہنا!
خدا کی شان ہے نا چیز چیز بن بیٹھیں!
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں!
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے می

لکھیے: پہاڑ اور گلہری کی گفتگو اپنی زبان میں لکھیے۔

اس نظم میں شاعر نے پہاڑ اور گلہری کے درمیان گفتگو کو دکھایا ہے کہ پہاڑخود کو بڑا مانتا ہے اسے اپنی آن بان شان اور بڑائی پہ بہت ناز تھا یہی وجہ ہے کہ وہ گلہری کو اپنے سامنے حقیر مانتا ہے۔ جبکہ گلہری بھی اسے یوں جواب دیتی ہے کہ ہم سب اللہ کی تخلیق ہیں اور اس نے ہرایک میں کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہے اگر چہ تم بڑے ہو لیکن تم اپنی جگہ سے ایک قدم بھی نہیں ہل سکتے۔ اگر تمھیں اپنی بڑائی کا تانا ہی مان ہے تو سامنے درخت سے مجھے چھالیا توڑ کے ہی دکھا دو۔