سبق نمبر 6: حدیث و سنت کی تعریف اور اقسام

0
  • سبق نمبر 6:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ حدیث و سنت پر مضمون تحریر کریں۔

حدیث:

لفظ ”حدیث“ کے لغوی معنی خبر، بات چیت اور نئی چیز کے ہیں۔ اصطلاح میں سیدنا حضرت محمدﷺ کے قول، فعل(کام) اور تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے، اسی طرح حدیث کو ”خبر “ اور ”سنت“ بھی کہا جاتا ہے۔ جب کہ حضور اکرمﷺ سے ہم تک جن لوگوں نے یہ احادیث بیان کی ہیں ان کو ”راوی“ اور راویوں کے سلسلے کو ”سند حدیث“ کہا جاتا ہے اور حدیث کی عبارت کو ”متن“ کہا جاتا ہے۔

حدیث کی اقسام:

حدیث کی چار قسمیں ہیں (۱) حدیث قولی (۲) حدیث فعلی (۳) حدیث تقریری (۴) حدیث قدسی۔

حدیث قولی:

حدیث قولی کا مطلب ہے جس میں حضرت محمد خاتم النبیین ﷺ کے کسی قول یا فرمان کو بیان کیا جائے جو آپﷺ نے اپنی زبان مبارک سے اس طرح فرمایا ہے۔ جیسا کہ قَالَ النُّبیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ اَفُشُواالسَّلَامَ سلام کو عام کرو۔(سنن ترمذی، حدیث: ۱۸۵۴)

حدیث فعلی:

حدیث فعلی کا مطلب ہے جس میں حضڑت محمد خاتم النبیین صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے کسی اختیار کردہ عمل اور طریقہ کو بیان کیا گیا ہو کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے اس طرح کیا۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے بکری کا دودھ نکال کر نوش فرمایا اور پھر پانی سے کلی کی (سنن ابن ماجہ، حدیث ۹۹)

حدیث تقریری:

حدیث تقریری کا مطلب ہے کہ جس میں کسی صحابی نے حضوراکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی موجودگی میں کوئی کام سرانجام دیا یا جس کام کا آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو علم ہوا لیکن آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے اس کو اس کام سے نہ منع فرمایا، نہ ہی اس کی تعریف کی بلکہ سکوت فرمایا یا آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے اجازت دی یا اپنی رضا مندی کا اظہار فرمایا ہو۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : میرا ایک چھوٹا بھائی ”ابو عمیر “ تھا جس نے بلبل پال رکھا تھا اور وہ اس سے کھیلا کرتا تھا حضوراکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ ہمارے گھر میں اکثر آتے رہتے تھے لیکن آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے کبھی بلبل کو پالنے اور قید رکھنے سے منع نہیں فرمایا۔ (صحیح بخاری: ۶۱۲۹، صحیح مسلم: ۲۱۵۰)

حدیث قدسی:

حدیث قدسی کا مطلب ہے جس میں معنی اور مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور الفاظ سیدنا حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ : قَالَ اللہُ: اَنفِق یَا ابنَ آدَمَ اَنفِق عَلَیکَ ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے اولاد آدم! تم (میرے بندوں) پر خرچ کرو تو میں تمہارے اوپر خرچ کروں گا۔ (صحیح بخاری: ۵۳۵۲)

سنت:

سنت کے لغوی معنی ”طریقہ“ اور ”رستہ“ کے ہیں۔ اصطلاح میں حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی زندگی گذارنے کے اختیار کردہ طریقہ کو کہا جاتا ہے اور اس عمل نبی کریمﷺ نے بار بار کیا ہو۔ سنت کو قرآن کریم نے ”اسوہ حسنہ“ کے نام سے بیان کیا ہے۔

حدیث و سنت کی اہمیت:

اسلام میں جس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید پر یقین کامل رکھنا ضروری ہے اسی طرح حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی رسالت پر ایمان لانا بھی اہم ہے۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے اسوہ حسنہ کو سب سے بہتر نمونہ عمل سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے احکامات پورے کیے جائیں۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: تمہارے لیے پیغمبرکی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ (سورۃ الاحزاب: ۲۱)

حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی مبارک ہستی ہمارے لیے ہر وقت مشعل راہ اور نمونۂ عمل ہے،ہماری فلاح تب ممکن ہے جب ہم اپنی سیرت و کردار عمل کو آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے اسوۂ حسنہ میں ڈال لیں اور زندگی کے ہر شعبہ میں آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی ہدایات و تعلیمات کو اپنائیں، یہ ہدایات حدیث و سنت کی شکل میں موجود ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وما اتکم الرسول فخذوہ وما نھکم عنہ فاتنھوا (سورۃ الحشر:۷)

ترجمہ: اور رسول اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ تمہیں جو بھی دیں وہ لے لو، اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے رک جاؤ۔ اس آیت کریمہ میں حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے تمام احکامات و تعلیمات کو قبول کرنے اور منع کردہ چیزوں سے رک جانےکا امت کو واضح حکم ہے۔

ایک حدیث میں حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ترجمہ: جس نےمیری امت کو فساد کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے تھاما، اس کے لیے سو شہیدوں کا ثواب ہے۔ (حلیۃ الاولیا للا صبہانی۔ج ۸، ص۲۰۰)

حدیث و سنت کی ہماری زندگیوں میں اس لیے بھی بہت اہمیت ہے کہ سنت و حدیث ہی حقیقت میں احکامات قرآن کی توضیح اور تشریح ہیں، چنانچہ قرآن کریم میں بے شمارایسے احکامات ہیں جن کا تعین، تشریح نبوی صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے بغیر ناممکن ہے مثلاً: نماز کی رکعات کی تعداد اور ارکان و سنن و تسبیحات وغیرہ۔ روزہ کی حالت میں کن چیزوں سے بچنا چاہئے، زکوۃ کا نصاب اور اموال زکوۃ سےکیا مراد ہے۔ حج کے مناسک کس طرح ادا کرنے چاہییں؟ ان تمام عبادتوں کو اپنی زندگی میں عملی طور پر کیسے ادا کیا جا ئے؟ ان کے جوابات ہمیں صرف و صرف حدیث و سنت رسول صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ اور حیات طیبہ کے ذریعہ معلوم ہو سکتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی اطاعت اور اتباع سنت میں سب سے بڑھ کر تھے، ان کو یہ بات بہت پسند تھی کہ حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سفر میں ہوں یا حضر میں، کہاں اور کس انداز سے اپنے کام سرانجام دیتے ہیں، چنانچہ وہ بھی اسی کام کو اسی انداز سے ادا کرتے اور سنت رسول اللہ حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی پیروی کرتے تھے۔

حدیث و سنت کا فرق:

”حدیث“ اور ”سنت“ کم و بیش ایک ہی مفہوم کو ظاہر کرتی ہیں صرف معمولی سا فرق ہے۔ یعنی حدیث عموماً قول کے لیے اور سنت فعل و عمل کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

قرآن و سنت کا باہمی تعلق:

قرآن مجید ”متن“ کی حیثیت رکھتا ہے اور سنت وحدیث ”شرح“ کی حیثیت رکھتے ہیں اور حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو قرآن مجیدکا مبلغ، شارح اور معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ پیغمبر کا صرف یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ احکام الہیٰ لوگوں کو زبانی سنا دیں، بلکہ ان کے فرائض منصبی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ ان احکام خداوندی کے مفاہیم اور فوائد و حکمتوں کو بیان کرتے ہوئے ان کی عملی تشریح بھی امت کے سامنے پیش کرکے دکھائیں۔ اور اس صراط مستقیم پر خود چل کر عملی نمونہ لوگوں کو سمجھائیں۔ تاکہ لوگ احکام الہیٰ کی تعمیل میں کسی قسم کی کمی و کوتاہی سے بچ جائیں۔

۲۔ حدیث کی اقسام پر نوٹ تحریر کریں۔

حدیث کی اقسام:

حدیث کی چار قسمیں ہیں (۱) حدیث قولی (۲) حدیث فعلی (۳) حدیث تقریری (۴) حدیث قدسی۔

حدیث قولی:

حدیث قولی کا مطلب ہے جس میں حضرت محمد خاتم النبیین ﷺ کے کسی قول یا فرمان کو بیان کیا جائے جو آپﷺ نے اپنی زبان مبارک سے اس طرح فرمایا ہے۔ جیسا کہ قَالَ النُّبیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ اَفُشُواالسَّلَامَ سلام کو عام کرو۔(سنن ترمذی، حدیث: ۱۸۵۴)

حدیث فعلی:

حدیث فعلی کا مطلب ہے جس میں حضڑت محمد خاتم النبیین صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے کسی اختیار کردہ عمل اور طریقہ کو بیان کیا گیا ہو کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے اس طرح کیا۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے بکری کا دودھ نکال کر نوش فرمایا اور پھر پانی سے کلی کی (سنن ابن ماجہ، حدیث ۹۹)

حدیث تقریری:

حدیث تقریری کا مطلب ہے کہ جس میں کسی صحابی نے حضوراکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی موجودگی میں کوئی کام سرانجام دیا یا جس کام کا آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو علم ہوا لیکن آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے اس کو اس کام سے نہ منع فرمایا، نہ ہی اس کی تعریف کی بلکہ سکوت فرمایا یا آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے اجازت دی یا اپنی رضا مندی کا اظہار فرمایا ہو۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : میرا ایک چھوٹا بھائی ”ابو عمیر “ تھا جس نے بلبل پال رکھا تھا اور وہ اس سے کھیلا کرتا تھا حضوراکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ ہمارے گھر میں اکثر آتے رہتے تھے لیکن آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے کبھی بلبل کو پالنے اور قید رکھنے سے منع نہیں فرمایا۔ (صحیح بخاری: ۶۱۲۹، صحیح مسلم: ۲۱۵۰)

حدیث قدسی:

حدیث قدسی کا مطلب ہے جس میں معنی اور مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور الفاظ سیدنا حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ : قَالَ اللہُ: اَنفِق یَا ابنَ آدَمَ اَنفِق عَلَیکَ ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے اولاد آدم! تم (میرے بندوں) پر خرچ کرو تو میں تمہارے اوپر خرچ کروں گا۔ (صحیح بخاری: ۵۳۵۲)

۳۔ ہماری زندگی پر سنت سے مرتب ہونے والے اثرات پر نوٹ تحریر کریں۔

حدیث و سنت کی ہماری زندگیوں میں اس لیے بھی بہت اہمیت ہے کہ سنت و حدیث ہی حقیقت میں احکامات قرآن کی توضیح اور تشریح ہیں، چنانچہ قرآن کریم میں بے شمارایسے احکامات ہیں جن کا تعین، تشریح نبوی صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے بغیر ناممکن ہے مثلاً: نماز کی رکعات کی تعداد اور ارکان و سنن و تسبیحات وغیرہ۔ روزہ کی حالت میں کن چیزوں سے بچنا چاہئے، زکوۃ کا نصاب اور اموال زکوۃ سےکیا مراد ہے۔ حج کے مناسک کس طرح ادا کرنے چاہییں؟ ان تمام عبادتوں کو اپنی زندگی میں عملی طور پر کیسے ادا کیا جا ئے؟ ان کے جوابات ہمیں صرف و صرف حدیث و سنت رسول صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ اور حیات طیبہ کے ذریعہ معلوم ہو سکتے ہیں۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ سنت سے کیا مراد ہے؟ قرآن کریم کی روشنی میں تحریر کریں؟

جواب: سنت کے لغوی معنی ”طریقہ“ اور ”راستہ“ کے ہیں۔ اصطلاح میں حضور کریم ﷺ کی زندگی گذارنے کے اختیار کردہ طریقہ کو کہا جاتا ہے اور اس عمل نبی کریمﷺ نے بار بار کیا ہو۔ سنت کو قرآن کریم نے ”اسوہ حسنہ“ کے نام سے بیان کیا ہے۔

۲۔ حدیث کے لغوی اوراصطلاحی معنی تحریر کریں۔

جواب: لفظ ”حدیث“ کے لغوی معنی خبر، بات چیت اور نئی چیز کے ہیں۔ اصطلاح میں سیدنا حضرت محمدﷺ کے قول، فعل(کام) اور تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے، اسی طرح حدیث کو ”خبر “ اور ”سنت“ بھی کہا جاتا ہے۔

۳۔ سنت کے لغوی اوراصطلاحی معنی کیا ہیں؟

جواب: سنت کے لغوی معنی ”طریقہ“ اور ”راستہ“ کے ہیں۔ اصطلاح میں حضور کریم ﷺ کی زندگی گذارنے کے اختیار کردہ طریقہ کو کہا جاتا ہے اور اس عمل نبی کریمﷺ نے بار بار کیا ہو۔ سنت کو قرآن کریم نے ”اسوہ حسنہ“ کے نام سے بیان کیا ہے۔

۴۔ ”اسوہ“ کس زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی کیاہیں؟

جواب: اسوہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کے لغوی معنی نمونہ ، کسی کا اتباہ کرنا ہیں۔

۵۔ متن حدیث کسے کہتے ہیں۔

جواب: حدیث کی عبارت کو ”متن“ کہا جاتا ہے۔

۶۔ سند حدیث کی تشریح کریں۔

جواب: راویوں کے سلسلے کو ”سند حدیث“ کہا جاتا ہے

۷۔ ”راوی“ سے کیا مراد ہے؟ وضاحت کریں۔

جواب: حضور اکرمﷺ سے ہم تک جن لوگوں نے یہ احادیث بیان کی ہیں ان کو ”راوی“ اور راویوں کے سلسلے کو ”سند حدیث“ کہا جاتا ہے۔

۸۔ حدیث ”جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس کے لیے سو شہیدوں کا ثواب ہے“وضاحت کریں۔

جواب: ایک جگہ حدیث میں حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نےمیری امت کو فساد کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے تھاما، اس کے لیے سو شہیدوں کا ثواب ہے۔ (حلیۃ الاولیا للا صبہانی۔ج ۸، ص۲۰۰)